سکاٹ لینڈ: شاہی قلعے سے ملکہ میری کی طلائی تسبیہ سمیت تاریخی نودارات چوری
سکاٹ لینڈ میں آرنڈل کے قلعے سے سکاٹ لینڈ کی ملکہ میری کی طلائی تسبیہ دس لاکھ پاؤنڈ مالیت کے نوادرات سمیت چوری ہو گئی ہے۔ ملکہ میری نے سنہ 1587 میں موت کی سزا دیے جانے کے وقت اسی تسبیہ کو اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔
سونے اور چاندی کے تاریخی نوادرات چرانے کی یہ واردات جمعہ کی رات کو پیش آئی۔
سکاٹ لینڈ کے قلعے سے چوری ہونے والی تاریخی نوعیت کی اشیاء میں نقرئی پیالے بھی شامل ہیں جو ملکہ میری نے ایک اعلی شاہی اہلکار کو دیے تھے۔آرنڈل قلعے کے ایک ترجمان نے کہا کہ مسروقہ اشیاء تاریخی لحاظ سے انتہائی قیمتی ہیں۔
اس واردات کے بعد قلعے کو منگل کے روز عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
قلعے کے عملے کو جمعے کی رات ساڑھے دس بجے چوری کی اطلاع اس وقت موصول ہوئی جب قلعے میں نصب خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں۔
سسیکس پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ چور قلعے کی ایک کھڑکی توڑ کر قلعے میں داخل ہوئے اور شیشے کی ایک الماری کو توڑ کر اس میں سے نادر تاریخی اشیاء لے کر فرار ہو گئے۔
پولیس کے مطابق قلعے کے قریبی علاقے بارلاونگٹن سے ایک لاوارث فور بائی فور گاڑی جلی ہوئی حالت میں ملی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس گاڑی کو واردات میں استعمال کیا گیا تھا۔
قلعے کے ایک ترجمان نے کہا کہ تسبیہ میں لگا ہوا سونا زیادہ قیمتی نہیں ہے لیکن اس تسبیہ کی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
آرنڈل قلعے کے ٹرسٹ کے ایک ترجمان نے کہا کہ ‘مسروقہ اشیاء میں لگے سونے اور چاندی کی خاصی قیمت ہے لیکن یہ تاریخی نوادرات جو ڈیوک آف نورفوک نے جمع کی تھیں، ان کی تاریخی اہمیت اور قیمت کا اندازہ لگایا جانا ممکن نہیں ہے۔
پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے اگر کسی کو بھی اس بارے کوئی اطلاع ہو تو پولیس سے رجوع کرے تا کہ ان قیمتی اشیا کو ان کی جگہ واپس پہنچایا جا سکے۔
یونیورسٹی آف برائٹن میں کرمنالوجی کے پروفیسر پیٹر سکوئرز کا کہنا ہے کہ حیران کن تعداد میں تاریخی اور تہذیبی نوادارت کو چرانے کی وارداتیں ہوئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اکثر و بیشتر تاریخی نوعیت کی اشیا کو امراء کو بیچنے کے لیے چرایا جاتا ہے۔
انھوں نے بی بی سی ریڈیو کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ جنگ سے متاثرہ مشرق وسطی کے شہروں میں عجائب گھروں سے لوٹی ہوئی بہت سے اشیاء آپ کو انٹرنیٹ پر ‘ڈارک ویب’ پر فروخت ہوتی ہوئی ملیں گی جن کو سب سے زیادہ بولی لگانے والوں کو بیچ دیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ چوروں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان اشیا کو کسی ایسے شخص کو بیچا جائے کہ ان کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کی جائے۔ سونے کے نوادارت کو پگھلا کر سونے کی حالت میں فروخت کرنے سے ان کی بہت قیمت ملتی ہے۔
ریڈنگ یونیورسٹی کے پروفیسر کیٹ ولیم کہتے ہیں کہ جب سکاٹ لینڈ کی ملکہ سکاٹ لینڈ سے فرار ہو کر انگلینڈ چلی گئیں تو ان کی بہت سے قیمتی اشیاء لوٹ لی گئیں یا آپس میں بانٹ لی گئیں۔
انھوں نے کہا کہ ملکہ کو موت کی سزا دیے جانے کے بعد جو کچھ بھی ان کے پاس تھا وہ لے لیا گیا اور جلا دیا گیا کیونکہ لوگوں کو خطرہ تھا کہ کہیں وہ ’کیتھولک فرقے‘ کے پیروکاروں کے لیے شہید نہ بن جائیں۔
انھوں نے کہا سکاٹ لینڈ کی ملکہ میری کی صرف یہ یادگار باقی رہ گئی تھی جسے اب چرا لیا گیا ہے۔
پولیس کے اہلکار اومیلی نے کہا ہے کہ جو لوگ جمعہ کی شام کو قلعے میں موجود تھے اگر انھوں نے قلعے کے اندر یا اس کے اردگرد کے علاقے میں کوئی بھی مشتبہ شخص یا سرگرمی دیکھی ہو تو پولیس کو مطلع کریں۔
سکاٹ لینڈ کی ملکہ میری کون تھیں؟
ملکہ میری سنہ 1542 میں للیتھگو کے محل میں پیدا ہوئیں اور اپنی پیدائش کے فوراً بعد والد کی وفات کی وجہ سے ملکہ بن گئیں۔
لیکن سنہ 1548 میں میری کو فرانس بھیج دیا گیا اور سکاٹ لینڈ ان کے نمائندوں کے ذریعے چلایا جاتا رہا۔
وہ سنہ 1561 میں سکاٹ لینڈ واپس آئیں تاکہ اپنا تحت سنبھال سکیں لیکن چھ سال کی کشمکش کے بعد 24 برس کی عمر میں انھیں اپنا تخت چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔
تخت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد وہ سکاٹ لینڈ کو چھوڑ کر اپنی رشتے کی بہن الزبتھ اول سے پناہ لینے کے لیے انگلینڈ چلی گئیں۔
میری اپنی زندگی میں الزبتھ کے تخت کا دعوی بھی کر چکی تھیں اور انگلینڈ میں رہنے والے کیتھولک فرقے کے مسیحی انھیں انگلینڈ کے تخت کا حق دار اور جائز دعوے دار سمجھتے تھے۔
سکاٹ کی ملکہ کو 18 سال تک قید میں رکھا گیا اور 44 برس کی عمر میں انھیں فودرنگے کے قلعے میں سنہ 1587 میں موت کی سزا دے دی گئی۔
ان کے صاحبزادے جیمز بعد میں سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے بادشاہ بنے۔
Comments are closed.