سائمن نیلسٹ: سڈنی میں شارک کے حملے میں 35 سالہ برطانوی شخص ہلاک
نیلسٹ ایک تیراک ہونے کے ساتھ ساتھ شہر کے سکوبا ڈائیونگ سوشل کلب کے رکن تھے
سڈنی میں ایک شارک کے حملے میں ایک 35 سالہ برطانوی شخص ہلاکت کے بعد حکام اس شارک کی تلاش کر رہے ہیں۔ اس حملے کو تقریباً 60 برسوں میں کسی شارک کا سب سے مہلک حملہ کہا جا رہا ہے۔
ہلاک ہونے والے شخص کے دوست نے تصدیق کی کہ سائمن نیلسٹ بدھ کو اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
پولیس نے ابھی تک ہلاک ہونے والے شخص کی باضابطہ شناخت نہیں کی اور نہ ہی ان کے اہل خانہ نے ہلاکت کے حوالے سے کوئی تبصرہ کیا ہے۔
آسٹریلوی حکام اب بھی اس سفید شارک کی تلاش کر رہے ہیں۔ بدھ کے حملے کے بعد شہر کے بیشتر ساحل بند کر دیے گئے تھے جنپیں اب کھول دیا گیا ہے۔
نیلسٹ ایک ڈائیونگ انسٹرکٹر تھے۔ مشرقی سڈنی میں لٹل بے کے بالکل قریب ایک بہت بڑی سفید شارک نے انھیں مار ڈالا تھا۔ بی بی سی سڈنی کی نامہ نگار شائمہ خلیل کی رپورٹ کے مطابق، وہ تیراک اور شہر کے سکوبا ڈائیونگ سوشل کلب کے رکن تھے۔
برطانیہ کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ قونصلر کا عملہ نیو ساؤتھ ویلز پولیس کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ’ہم ایک برطانوی شخص کے خاندان کی مدد کر رہے ہیں اور اس مشکل وقت میں ان کے لیے دعاگو ہیں۔‘
سڈنی میں شارک کے حملے عام نہیں کیونکہ طویل عرصے سے اس شہر کے پانیوں میں جال اور دیگر رکاوٹیں لگی ہیں۔
جمعرات کو سرف لائف سیورز نے شارک کو تلاش کرنے کے لیے جیٹ سکی پر شہر کے مشرق سے لے کر جنوب میں کرونولا تک 25 کلومیٹر (15.5 میل) پانیوں کا گشت کیا۔ حکام ہیلی کاپٹر اور ڈرون بھی استعمال کر رہے ہیں۔
ریاستی حکومت کے مطابق ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ شکاری شارک ’کم از کم تین میٹر‘ لمبی اور سائز میں بہت بڑی ہے۔ اس کی فوٹیج ایک شخص سے لی گئی ہے۔
ساحل سے اس منظر کو دیکھنے والے کئی افراد نے حملے کے متعلق بتایا ہے۔
کرس لنٹو نے نائن نیوز کو بتایا کہ ’وہ شخص تیراکی کر رہا تھا کہ ایک شارک نے آکر اس پر حملہ کر دیا۔‘
’ہم نے ایک چیخ سنی تو مڑ کر دیکھا، ایسا لگا جیسے کوئی کار پانی میں اتری ہو، ایک بڑا سا پانی کا ریلا اور اس کے بعد شارک نظر آئی۔‘
ایک اور شخص نے بتایا کہ وہ اس وقت مچھلیاں پکڑ رہے تھے جب انھوں نے تیراک پر حملہ ہوتے دیکھا۔
انھوں نے اے بی سی نیوز کو بتایا ’یہ بہت خوفناک تھا۔ میں کانپ رہا ہوں۔ مجھے تب سے الٹیاں آ رہی ہیں۔ یہ بہت پریشان کن منظر تھا۔‘
حکام حملے کے دو گھنٹے بعد پانی سے جسم کے اعضا نکالنے میں کامیاب ہوئے۔
فائل فوٹو
ریاستی ایم پی مائیکل ڈیلی کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ اس ’خوفناک‘ واقعے سے ڈر گئے ہیں۔ انھوں نے اے بی سی کو بتایا ’متاثرہ شخص خوش دلی سے ملنے ملانے والا شخص تھا۔ وہ یہاں آتا اور تقریباً ہر روز تیراکی کرتا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ سڈنی کے سب سے خوبصورت ساحلوں میں سے ایک ہے مگر ’ہماری کمیونٹی پر دکھ کے بادل چھائے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
حفاظتی اقدامات کے باوجود سانحہ
فرانسس ماؤ، بی بی سی نیوز
بدھ کا واقعہ ایک ہولناک سانحہ ہے اور آنے والے دنوں میں اس بارے میں مزید سوالات اٹھیں گے کہ حفاظتی انتظامات کے باوجود شارک ان حفاظتی جالوں سے کیسے نکل آئی۔
نیو ساؤتھ ویلز کی ریاستی حکومت پہلے ہی شارکس پر قابو پانے کے لیے ایک پروگرام چلا رہی ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا جدید ترین نظام ہے۔
تقریباً ایک صدی سے سڈنی کے ساحلوں کو جالوں سے محفوظ بنایا گیا ہے۔ گرمیوں میں اختتام ہفتہ پر یہاں ڈرون اور ہیلی کاپٹر بھی منڈلاتے ہیں جو شارک کو سکین کرتے ہیں۔ (کبھی کبھار اچانک سائرن بجنے لگتے ہیں اور لائف گارڈز لوگوں کو پانی سے باہر نکالنے کا حکم دے رہے ہوتے ہیں)۔
حکام شارک کو ٹیگ کرنے والا ایک وسیع پروگرام بھی چلا رہے ہیں جس کے تحت شارک کی ٹائگر، بل اور گریٹ وائٹ شارکس جیسی اقسام کے ’پروں‘ سے ٹریکرز لگائے گئے ہیں۔
جب یہ کسی جال میں آ جائیں، تو انھیں ٹیگ کیا جاتا ہے اور تقریباً ایک کلومیٹر دور چھوڑا جاتا ہے۔
اکثر اوقات حکام شکاری شارک کو دنوں کے اندر تلاش کر لیتے ہیں۔
ماضی میں اس وجہ سے کئی ہنگامے بھی ہوئے ہیں۔ حکام نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ وہ کیا کریں گے لیکن ان دنوں یہاں کی کمیونٹی پرغزم ہے کہ وہ شارکس کا شکار کریں گے۔
اس کے برعکس انتظامیہ چاہتی ہے کہ شارکس کی حفاظت کے نظام میں بہتری لائی جائے اور ساحل سمندر پر جانے والوں کو باقاعدہ تربیت دی جائے کہ صبح یا شام کے وقت تیراکی نہ کریں، ساحل کے قریب رہیں، نشان والے جھنڈوں کے درمیان تیریں، ماہی گیری کے علاقوں سے بچیں وغیرہ۔
شارک ساحل سمندر کا ایک حصہ ہیں۔ اور بہت سے آسٹریلوی مانتے ہیں کہ پانی میں جانے کی صورت میں کچھ نہ کچھ خطرہ تو رہتا ہی ہے۔
پانی میں ہر وقت ہزاروں شارکس موجود ہوتی ہیں لیکن انسانوں کے ساتھ بہت کم رابطے میں آتی ہیں۔ آسٹریلیا میں ایسے حملے عام طور پر گرمیوں کے مہینوں (دسمبر – فروری) میں ہوتے ہیں کیونکہ ان مہینوں میں زیادہ لوگ پانی میں جاتے ہیں۔
آسٹریلیا میں عام طور پر سالانہ شارک کے تقریباً 20 حملے رپورٹ کیے جاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر نیو ساؤتھ ویلز اور مغربی آسٹریلیا میں ہوتے ہیں۔ آسٹریلوی شارک اٹیک فائل کے مطابق اس سال اب تک چار شارک حملے ہو چکے ہیں۔
2021 میں شارک کے دو مہلک حملے ہوئے اور 2020 میں سات۔
تاریخ دیکھی جائے تو شارک کے کاٹنے سے ہلاکتیں ہونا عام نہیں ہے۔ ایک صدی سے زیادہ کے ریکارڈ کے مطابق، آسٹریلیا میں شارک کے حملے سے اموات کی شرح 0.9 ہے یعنی ہر سال ایک سے کم شخص کی ہلاکت۔
Comments are closed.