سپین کے وزیراعظم کا ملک میں جسم فروشی کو غیر قانونی قرار کروانے کا وعدہ
سپین کے وزیراعظم پیدر سانچیز نے اتوار کے روز وعدہ کیا کہ وہ ملک میں جسم فروشی کو غیر قانونی بنا دیں گے۔
ویلنسیا میں اپنی سوشلسٹ پارٹی کی تین روزہ کنوینشن میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا اس کی وجہ سے عورتیں غلام بن کر رہتی ہیں۔
جسم فروشی کو سپین میں 1995 میں جرائم کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا اور 2016 میں اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق یہ صنعت 3.7 ارب یورو کی ہو چکی تھی۔ 2009 میں ایک سروس میں پتا چلا کہ ہر تین میں سے ایک ہسپانوی مرد نے سیکس کے لیے کبھی نہ کبھی پیسے دیے ہیں۔
تاہم ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ شرح 39 فیصد تک ہو سکتی ہے اور 2011 کی ایک اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق سپین دنیا میں جسم فروشی کا تیسرا بڑا ملک تھا۔ سپین سے آگے تھائی لینڈ اور پورتو ریکو تھے۔
جسم فروشی اس وقت سپین میں غیر قانونی نہیں مگر اس کے حوالے سے قوانین بھی موجود نہیں ہیں۔ اس وقت اپنی مرضی سے سکیس کی پیسے کے عوض سروسز فراہم کرنے پر کوئی سزا نہیں ہے اگر یہ کام کسی پبلک سپیس میں نہ کیا جا رہا ہو۔ تاہم کسی سیکس ورکر اور ممکنہ گاہک کے درمیان ایجنٹ کے طور پر کام کرنا غیر قانونی ہے۔
اس جرائم کی فہرست سے نکالے جانے کے بعد سے سپین میں یہ صنعت خوب پھیل چکی ہے اور عام اندازہ یہ کیا جاتا ہے کہ سپین میں تقریباً 300000 خواتین جسم فروشی میں ملوث ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
2019 میں وزیراعظم سینچیز کی پارٹی نے اپنے الیکشن وعدوں میں کہا تھا کہ وہ جسم فروشی کو غیر قانونی کر دیں گے۔ اس اقدام کو خواتین ووٹروں میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
پارٹی مینیفسٹو میں کہا گیا کہ جسم فروشی نسوانی غربت کی ظالم ترین شکل ہے۔ تاہم الیکشن کے دو سال بعد بھی کوئی قانون پارلیمنٹ کے سامنے نہیں آیا۔
موجودہ نظام کے حامی کہتے ہیں کہ موجودہ نظام کی وجہ سے خواتین کو کافی فائدہ پہنچا ہےاور ان کی زندگی محفبظ تر ہوئی ہے۔
مگر گذشتہ چند سالوں میں کافی خدشات بڑھنے لگے ہیں کہ خواتین کو سکیس ورکرز بنانے کے لیے ٹریفک کیا جا سکتا ہے۔ 2017 میں ہسپانوی پولیس نے اسدادِ ٹریفکنگ چھاپوں میں کم از کم 13000 خواتین کو بچایا تھا اور کہا تھا کہ ان میں سے 80 فیصد کا ان کی مرضی کے خلاف فائدہ اٹھایا جا رہا تھا۔
Comments are closed.