’سپنسر‘: ہردلعزیز شہزادی ڈیانا کی پراسرار کہانی جس کی کشش آج بھی برقرار ہے
- جیک کنگ
- بی بی سی کلچر
پابلو لائرین کی تازہ ترین فلم ‘سپنسر‘ کا ایک ٹائٹل کارڈ اسے ‘ایک حقیقی سانحے سے ماخوذ کہانی‘ قرار دیتا ہے جو شاید اس کہانی میں آنے والے زبردست اتار چڑھاؤ کا پیش خیمہ ہے۔
یہ کہانی غالباً ویلز کی شہزادی لیڈی ڈیانا کی ہے، جن کا نام شادی سے قبل ڈیانا سپنسر تھا، مگر کسی بھی پیمانے کے تحت یہ ہالی وڈ میں عام طور پر کسی مشہور شخص کی زندگی پر بننے والی بائیو پکِ فلموں جیسی نہیں ہے۔
شہزادی ڈیانا کی زندگی پر آخری فلم سنہ 2013 میں اولیور ہعرشبیگل کی ‘ڈیانا‘ آئی تھی جس میں ان کی طلاق کے بعد دو سال کے عرصے پر توجہ مرکوز تھی۔ اس میں کیٹ سنل کی لکھی سوانح عمری ‘ڈیانا، ہر لاسٹ لو‘ (2001) کا استعمال کیا گیا تھا اور ان کی طلاق کے بعد ماہرِ امراض قلب ڈاکٹر حسنات خان کے ساتھ رومانوی رشتے پر روشنی ڈالی گئی۔
مگر ان دونوں فلموں میں اس سے زیادہ فرق نہیں ہو سکتا۔ جہاں ’ڈیانا‘ ایک ہی فارمولے کے تحت بننے والی تباہ کن فلاپ تھی، وہیں ’سپنسر‘ میں لائرین کی شاندار ہدایتکاری جھلکتی ہے۔
زیرِ موضوع خاتون کی طرح خود بھی یہ فلم بیک وقت مانوس بھی لگتی ہے اور پراسرار بھی۔ اس میں ایک شاندار، غیر قدرتی حقیقت پسندی کے ساتھ وہ لمحات دکھائے گئے ہیں جو سنہ 1991 میں ملکہ برطانیہ کے سانڈرنگھم ہاؤس میں کرسمس کی چھٹیوں پر شہزادی نے دیکھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کا شہزادہ چارلس سے رشتہ اپنے آخری لمحات میں تھا۔
اس دورے میں ان کے ہر قدم، وہ کیا کھائیں یا کیا پہنیں، ہر ہر چیز کو ایک منظم عسکری انداز میں پہلے سے طے کیا گیا۔ ایک یادگار منظر جو ان کی دنیا کی تنگی ظاہر کرتا ہے، اس میں ڈیانا شاہی خاندان کے دیگر اراکین کے ساتھ کھانا کھا رہی ہیں۔ اس میں سب لوگ ایک روبوٹ کی طرح ایک ہی انداز میں اپنا سوپ پی رہے ہیں۔
کیمرہ ڈیانا کی نظر سے ایک بظاہر سخت مزاج ملکہ کو دکھاتا ہے۔ اس کے ریورس شاٹ کی عکس بندی ڈیانا کے گرد تنگ ہوتی ہے اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم ان کے ذہن میں موجود ہیں۔ خوف کے مارے وہ گلے میں پہنا ہار اس سوپ میں گرا بیٹھتی ہیں، پھر اسی خوف میں وہ موتی نگل جاتی ہیں۔ یہ اس فلم میں موجود ڈیانا کی حقیقی اور نفسیاتی تنہائی کی تشبیہ تھی۔
چلی سے تعلق رکھنے والے ہدایتکار لائرین کہہ چکے ہیں کہ وہ ایک ایسی فلم بنانا چاہتے تھے جس پر ان کی والدہ فخر محسوس کر سکیں۔ ان کی دیگر فلموں کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ذرا غیر روایتی انداز میں فلم بند کی گئی ہیں۔ تو پھر ڈیانا ہی کیوں؟
اس سوال کے جواب میں وہ بی بی سی کلچر کو بتاتے ہیں کہ ‘مجھے صحیح سے نہیں پتا۔ میں جب چلی میں بڑا ہو رہا تھا تو میں نے اپنی والدہ کہ ان میں دلچسپی لیتے دیکھا۔ اس وقت میں ایک چھوٹا سا لڑکا تھا اور پھر مجھے احساس ہوا کہ وہ تو ڈیانا کے لاکھوں مداحوں میں سے ایک تھیں۔ جب 1997 میں ڈیانا کی وفات ہوئی تو مجھے لگا کہ پوری دنیا غم میں تھی۔‘
لائرین نے ڈیانا پر فلم بنانے کا فیصلہ امریکی صدر جان ایف کینڈی کی بیوہ جیکی کنیڈی پر 2016 میں فلم بنانے کے بعد کیا تھا۔ اس فلم کا نام بھی انھوں نے ’جیکی‘ رکھا تھا۔ اسی طرح انھیں ’سپنسر‘ بنانے سے پہلے کافی تحقیق کرنی پڑی، جس دوران انھوں نے ڈیانا کے بارے میں سینکڑوں آرٹیکل پڑھے، جس میں بی بی سی کا مواد بھی شامل تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘میرے خیال میں ثقافتی اعتبار سے وہ جدید دور کی سب سے زیادہ معروف شخصیات میں سے ایک ہیں اور اس کے باوجود دنیا کی پراسرار ترین شخصیات میں سے بھی۔ یہ تضاد فلم اور آرٹ کے لیے بہترین ہے۔‘
لائرین شاید اس خیال میں درست ہیں کیونکہ دنیا میں اتنے سارے فلم سازوں، ٹی وی کمشنرز، مصنفین، آرٹسٹ، فنکار اور موسیقاروں نے اس کہانی کو اپنے فن میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
چاہے وہ ڈرامائی تضاد ہے یا کچھ اور، ان سے متاثر ہو کر کئی فن پارے بنے ہیں۔ ان کی سابق رہائش کنزنگٹن پیلس میں ان کا مجسمہ ہو یا ٹی وی یا فلم یا تھیٹر، کم از کم ایک درجن اداکاراؤں نے ان کا کردار نبھایا ہے۔
مگر معیار کے پیمانے کی دوسری جانب ہعرشبیگل کی ’ڈیانا‘ کھڑی ہے۔
فلم ناقد گائے لوج کہتے ہیں کہ نائومی واٹس کی ’ڈیانا‘ کی ناکامی ظاہر کرنے کے لیے آپ کو اس کا کسی اور فلم سے موازنہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ‘یہ ایک غیر معیاری سکرپٹ، مبہم ہدایتکاری اور مبہم اداکاری کا نمونہ ہے۔‘
اس کے بعد 2021 میں ’ڈیانا دی میوزکل‘ بھی ایک سستے براڈ وے شو کی طرح ناکام رہا اور اس کا کافی مذاق اڑایا گیا۔ حال ہی میں اس میوزیکل کو نیٹ فلکس پر ریلیز کیا گیا ہے۔
اس میں ڈیانا کے بارے میں بہت سی ایسی غلط معلومات شامل کی گئی ہیں جو پاپ کلچر کا حصہ یعنی غلط العام ہیں، مثلاً یہ کہ شہزادہ چارلز کے ساتھ ڈیانا کا ابتدائی رشتہ ایک غریب لڑکی کا امیر شہزادے کے ساتھ رشتہ تھا۔
سپنسر خاندان دراصل ایک ارب پتی کنبہ ہے اور ان کا کئی نسلوں سے شمار اشرافیہ میں ہوتا ہے۔ لاج کہتے ہیں کہ ‘ڈیانا کو ورکنگ کلاس سمجھنا بالکل غلط ہے۔ مگر یہ عام تصور کا حصہ ہے۔‘
بدقسمتی سے یہ تاثر اسی لمحے بن گیا تھا جب ڈیانا پہہلی بار منظرِ عام پر آئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
ثقافتی جنون کی ابتدا
سنہ 1982 میں، ان کی شادی کے ایک سال بعد ہی امریکی ٹی وی نیٹ ورکس نے اپنی توجہ ڈیانا کے بارے میں ابھرتے ہوئے بیانیے کی طرف مرکوز کر لی تھی۔
اے بی سی کا ڈاکیو ڈرامہ ‘چارلس اینڈ ڈیانا: اے رائل لوو سٹوری‘ میں ان کے ابتدائی رومانوی رشتے کو سطحی طور ہر ایک پریوں کی کہانی کے طور پر پیش کیا گیا جس کے آخر میں سینٹ پال کیتھیڈرل میں ان کی شادی کی تقریب کا خاکہ بنا کر دکھایا گیا۔
یہ سب ستمبر 1982 میں ہوا۔ اس کے تین دن بعد ہی سی بی ایس نے اس شادی کی اپنی طور پر کی گئی رامائی تشکیل نشر کی جسے ’دی رائل رومانس آف چارلس اینڈ ڈیانا‘ کہا گیا۔ یہ پہلے سے بھی زیادہ میٹھی، جذباتی اور مشکلات سے پاک کہانی تھی اور ریٹنگز میں یہ ہٹ رہی۔
واشنگٹن ٹائمر کے ٹام شیلز نے اس پر بہت تنقید کی اور کہا کہ یہ بس شاہی عکس بندی کا مزہ لینے کی کوشش ہے اور یہ کہ پروڈیوسر دور دراز کی اہم شخصیات کو حقیقی لوگوں کے طور پر یا تو پیش کرنا نہیں چاہتے یا کر نہیں سکتے۔ مگر پہلی فلم بھی اینگلوفیلیا (برطانیہ سے محبت) کی کوشش ہی لگتی ہے جس میں شاہی تخت اور خاندان کو ایسے دکھایا گیا ہے جیسے انھیں کسی بچے کی نظر سے دیکھا جا رہا ہو۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ازدواجی مسائل کی قیاس آرائیاں آنے لگیں۔ 1992 میں ’کمیلا گیٹ‘ ٹیپس منظرِ عام پر آ گئیں جن میں شہزادہ چارلز کی اپنی بچپن کی محبوبہ کمیلا پارکر کے ساتھ ذاتی بات چیت ہو رہی تھی۔
اس کے تھوڑے عرصے بعد ہی شہزادہ چارلس اور ڈیانا کی علیحدگی ہو گئی۔ لاج کہتے ہیں کہ جس جس نے ان کی شادی دیکھی تھی انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے ایک پریوں کی کہانی اجڑتی ہوئی نظر آئی اور وہی میڈیا، جنھوں نے پہلے وہ بیانیہ بنایا تھا، ان کے لیے تو یہ اور بھی زیادہ مصالحے دار بات تھی۔
اس کے بعد جب بھی ڈیانا کی کہانی بتائی جاتی تھی تو وہ مسائل میں گھری ایک شہزادی کے طور پر دکھائی جاتیں۔ جارحانہ فوٹوگرافر، مہلک سلیبرٹی، خوراک کے مسائل، رومانس پر غیر یقینی، یہ سب ان کی کہانی کا حصہ بن گئے۔
ایسی ہی کہانیوں کی مثالوں میں سے ایک ان کی وفات سے قبل ریلیز ہونے والی ’پرنسز ان لو‘ نامی ٹی وی فلم تھی جس میں ان کی کیپٹن جیمز ہیئوٹ کے ساتھ رومانوی تعلق کا ذکر تھا۔
اس بار کہانی اینا پیسٹرناک کی کتاب سے لی گئی تھی اور اس کتاب کے لیے مرکزی ذریعہ کیپٹن ہیئوٹ خود بتائے گئے ہیں۔ اس میں بھی وہی پرانی کہانی ہے: ڈیانا اور چارلس کا کمیلا پر جھگڑا ہوتا ہے جو ان دونوں کے درمیان تیسرا فریق تھی۔
فلم میں ڈیانا کے 1995 میں بی بی سی کے صحافی مارٹن بشیر کے ساتھ انٹرویو کی معروف لائن ‘کیا آپ کے خیال میں یہاں ذرا رش نہیں ہے؟‘ بھی استعمال کی گئی ہے۔ چارلس بظاہر ڈیانا کو ان کی غلطیوں پر منافقانہ انداز میں نمٹتے ہیں اور محبت سے خالی اس شادی میں ہونے کی وجہ سے ڈیانا کسی اور کی بانہوں میں پہنچ جاتی ہے۔ وہی جذباتی موسیقی اور ایک ہی فارمولے پر بنی فلم، یہ کوئی خاص چیز نہیں تھی۔
یہ جاننا تو ناممکن ہے کہ اگر آج ڈیانا زندہ ہوتیں تو ہمارے ثقافتی بیانیے میں ان کا کیا مقام ہوتا۔ سنہ 1997 میں ان کی غیر متوقع موت نے انھیں ایک علامت بنا دیا اور ان کے اس رتبے میں کوئی شک نہیں ہے۔
ان کی ہلاکت کے چند گھنٹوں بعد ہی برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے انھیں ‘دی پیپلز پرنسز‘ کہہ کر پکارا اور ان کا یہی تاثر ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
اس تاثر کو پاپ کلچر میں اکثر ایک سانحے کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے اور تازہ فلم ’سپنسر‘ بھی اس خیال سے متفق ہے۔ مگر اس سانحے کا بنیادی خیال، اس کا مرکزی مطلب کیا ہے؟ یہ دیکھنے والے کی نظر اور سوچ پر منحصر ہے۔
لائرین کہتے ہیں کہ ‘یونانی ڈرامے کا ہیرو سانحے سے بچنے کی حتیٰ امکان کوشش کرتا ہے، مگر حقیقت میں اس کی ساری جدوجہد اسے اس سانحے کے قریب تر لا رہی ہوتی ہے۔ اور آخر میں اس کا سامنا موت سے ہوتا ہے۔ عملی طور پر تو وہ پیرس میں پریس سے بھاگنے کے لیے تیز رفتار گاڑی میں سوار تھیں لیکن ایک طرح سے ڈیانا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔‘
لائرین کہتے ہیں کہ وہ اور فلم کے مصنف سٹیون نائٹ جان بوجھ کر اس سانحے یعنی ڈیانا کے آخری سال، آخری مہینے اور دن، اور پھر وہ حادثہ، اس سب پر زیادہ توجہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ ’ڈیانا‘ اینڈ ’ڈیانا دی میوزیکل‘ میں اس سب سے سطحی طور پر نمٹا گیا ہے مگر ’سپنسر‘ ایسا نہیں کرتی۔
لاج کہتے ہیں کہ ‘مجھے سپنسر میں زیادہ جامع کردار نظر آئے۔ اگرچہ لائرین کا کام رائے منقسم کرتا ہے مگر آپ کو یہ نظر آتا ہے کہ وہ اس خیال پر قائم ہیں۔ وہ ایک حقیقی اور نفسیاتی دنیا بناتے ہیں جس میں ہیروئن مکمل طور پر گھری ہوئی ہے اور یہ فلم ڈیانا میں بطور ایک انسان دلچسپی رکھتی ہے نہ کہ بطور ایک چلتی پھرتی شہ سرخی۔‘
Comments are closed.