حکومت پاکستان نے معاشی خود کفالت و خود انحصاری کے حصول اور درپیش چیلنجز پر قابو پانے کیلئے غربت اور مہنگائی میں کمی کیلئے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
حکومت کے اس اہم اعلان کے فوری بعد وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے سپر ٹیکس کے حوالے سے وضاحت بھی جاری کی۔
مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ ان مخصوص 13 سیکٹرز کے لیے سپر ٹیکس 10 فیصد لگایا گیا ہے، اس طرح ان سیکٹرز پر ٹیکس 29 فیصد سے 39 فیصد ہو جائے گا اور یہ ٹیکس بجٹ خسارے میں کمی کے لیے ایک بار لگایا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق سپر ٹیکس ایک قسم کا ’خاص ٹیکس‘ ہوتا ہے اور عمومی ٹیکس کے اوپر لگایا جاتا ہے، سپر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے لیکن اس کا مقصد بیان نہیں کیا جاسکتا، اگر کسی ٹیکس کا مقصد بیان کردیا جائے تو پھر وہ ٹیکس نہیں لیوی ہوتی ہے اور اس کی دونوں ایوانوں (پارلیمنٹ اور سینیٹ) سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے سپر ٹیکس کا اعلان کیا گیا ہے، اس سے قبل ن لیگ کے ہی دور حکومت میں سال 2016 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر ) نے سپر ٹیکس کی مد میں ایک ارب روپے اکٹھے کیے تھے۔
یہ ٹیکس عارضی بے گھر افراد کی بحالی کے لیے اضافی ریونیو ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے مالیاتی بل 2015 کے ذریعے مالدار اور امیر افراد پر عائد کیا گیا تھا۔
مندرجہ ذیل صنعتیں سپر ٹیکس ادا کریں گی:
سیمنٹ، اسٹیل، شوگر انڈسٹری، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر، بینکنگ انڈسٹری، ٹیکسٹائل، آٹو موبل انڈسٹری، کیمیکل، بیوریجز، ایئر لائن، ایل این جی ٹرمینل اور سگریٹ مینو فیکچرنگ انڈسٹری سپر ٹیکس ادا کریں گی۔
خیال رہے کہ ملک کے تمام کاروباری طبقوں نے شہباز حکومت کی جانب سے عائد نئے سپر ٹیکس کو یک زبان ہو کر مسترد کردیا ہے۔
کراچی سائٹ ایریا کے صنعتکاروں نے صنعتوں پر عائد کیے جانے والے سپر ٹیکس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ صنعتوں کو تباہ کردے گا۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نارتھ نے بھی اس فیصلے کی بھرپور مذمت اور مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق حکومت میں کنسٹرکشن زیادہ ہورہی تھی اور ایکسپورٹ بھی بڑھ رہی تھی مگر موجودہ حکومت کے اقدامات سے غریب پر بوجھ پڑے گا۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے دعویٰ کیا ہے کہ دس فیصد ٹیکس سے انڈسٹریز بند ہونا شروع ہوجائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کا طوفان آئے گا، یہ غریبوں کی باتیں کرتے ہیں لیکن خیال نہیں کرتے۔
Comments are closed.