بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سپریم کورٹ: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر (سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری) کی رولنگ کیخلاف از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ 

عدالتِ عظمیٰ کا یہ 86 صفحات کا تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا۔

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف ازخود نوٹس پر فیصلے کا آغاز سورۃ الشعراء سے کیا گیا ہے۔

عدالت نے تحریر فیصلے میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے، وزیرِاعظم کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کے وکیل نے بیرونی مداخلت سے متعلق مراسلے کا حوالہ دیا، مبینہ بیرونی مراسلے کا مکمل متن عدالت کو نہیں دکھایا گیا، مراسلے کا کچھ حصہ بطور دلائل سپریم کورٹ کے سامنے رکھا گیا۔

عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کے وکیل کے مطابق مراسلے کے تحت حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی، مبینہ بیرونی مراسلہ خفیہ سفارتی دستاویز ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سفارتی تعلقات کے باعث عدالت مراسلے سے متعلق کوئی حکم نہیں دے سکتی۔

عدالت عظمیٰ نے یہ بھی قرار دیا کہ سپریم کورٹ کا اسپیکر رولنگ پر ازخودنوٹس سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر تھا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ، وزیراعظم اور صدر مملکت کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اقدام سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے قرار دیا کہ قومی سلامتی کے لیے دی گئی 3 اپریل کی اسپیکر رولنگ شواہد پر مبنی ہونی چاہیے تھی، ثبوت کے بغیر لیے گئے حکومتی اقدامات کا جوڈیشل ریویو کیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ بیرونی مداخلت سے متعلق مبینہ مراسلہ 7 مارچ کو موصول ہوا، سابقہ حکومت نے مراسلے کی تحقیقات کروائیں نہ یہ بتایا کس نے بیرونی سازش کی، حکومت نے تحقیقات کروائیں نہ اپوزیشن کے سامنے حقائق رکھے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن وزیر قانون نے پہلی بار بیرونی سازش سے متعلق ڈپٹی اسپیکر کو حکم دینے کی استدعا کی تھی۔ 

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ تفصیلی رولنگ سے ثابت ہوا بیرونی سازش کے نامکمل، ناکافی، غیرنتیجہ خیز حقائق اسپیکر کو پیش کیے گئے، ڈپٹی اسپیکر نے اسی وجہ سے بیرونی سازش پر تحقیقات کروانے کی رولنگ دی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 2 اپریل کو اس وقت کے وزیر قانون نے بیرونی مداخلت سے متعلق کمیشن بنانے کا کہا، انکوائری کمیشن کا قیام غماز ہے سابقہ حکومت کو بیرونی مداخلت کا شک تھا۔

عدالت نے قرار دیا کہ ڈپٹی اسپیکر نے قومی سلامتی کو جواز بنا کر تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی، عدالت بیرونی مداخلت سے متعلق دلیل سے مطمئن نہیں۔

تحریر فیصلے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان کے گھر اجلاس میں 12 ججز نے ازخود نوٹس کی سفارش کی، عدالت نے آئین مقدم رکھنے اور اس کے تحفظ کے لیے اسپیکر رولنگ پر ازخود نوٹس لیا۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی، عدالت کے سامنے بیرونی سازش سے متعلق ثبوتوں میں صرف ڈپٹی اسپیکر کا بیان ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں نہیں بتایا گیا مراسلے کے مطابق وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے اپوزیشن میں کسی ممبر نے بیرون ملک رابطہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی تفصیلی رولنگ میں نہیں بتایا گیا مبینہ مراسلے کے مطابق حکومت گرانے میں کون شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 69 (1) واضح ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالت سے تحفظ حاصل ہے، پارلیمانی کارروائی میں آئینی خلاف ورزی ہو تو اس پر کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے، عدالت مقننہ کے معاملات میں آئینی حدود پار نہ ہونے تک مداخلت نہیں کرے گی۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 95 (2) کے تحت اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کا پابند ہے، ڈپٹی اسپیکر رولنگ کو آئینی تحفظ حاصل نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دینے کا فیصلہ ذاتی طور پر وزیر قانون کے کہنے پر لیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت آرٹیکل 69 (1) پر اپنا مؤقف واضح کرتی ہے، ڈپٹی اسپیکر کے اپنے اختیارات سے متعلق آرٹیکل 69 (1) پرعملدرآمد میں نقائص تھے، تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کو پیش ہونے کے بعد 22 مارچ کو اجلاس نا بلا کر اسپیکر نے آئینی کی خلاف ورزی کی اور اسپیکر نے 3 اپریل کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کو بحث کا موقع نہ دے کر آئینی خلاف ورزی کی۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ رولنگ آئین میں اسپیکر کو دیے گئے اختیار سے تجاوز تھا، رولنگ دینے کا اختیار صرف اسپیکر کے پاس ہے، ڈپٹی اسپیکر کو نہیں، سائفر قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا اور اس  سے متعلق کسی ممبر قومی اسمبلی کو بولنے کی اجازت نہیں دی گئی، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 95 کو نظر انداز کیا، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کے تحت رولنگ دی جو اس کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اپوزیشن پر بیرونی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا گیا مگر اس کا مؤقف نہیں لیا گیا، آئین اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر کا اختیار نہیں دیتا، ڈپٹی اسپیکر یا اسپیکر کے پاس تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا بھی آئینی اختیار نہیں، تحریک عدم اعتماد صرف ووٹنگ سے ہی منظور یا مسترد ہو سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے آرٹیکل 95 اور 69(1) کی تضحیک اور غیرقانونی ہے، انکوائری کمیشن قائم کر کے بیرونی سازش کی تحقیقات کرائی جا سکتی تھیں، سپریم کورٹ سے قومی سلامتی کیخلاف سازش سے متعلق ازخودنوٹس کی استدعا کی گئی لیکن سپریم کورٹ اس طرح کے معاملے پر نوٹس نہیں لے سکتی۔

عدالت نے قرار دیا کہ اسپیکر کی آرٹیکل 5 کی بنیاد پر رولنگ دینا مفروضوں، یکطرفہ اور دائرہ اختیار سے باہر تھا، اگر اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر آئین کی شقوں کی غلط تشریح کریں تو عدالت حکم دے سکتی ہے اور آئین کی صحیح تشریح کیلئے پارلیمنٹ کو حاصل استحقاق میں عدالتی مداخلت اس کی تنزلی نہیں مضبوطی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایک فریق نے اس بات پر بہت زور دیا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو حکومت مبینہ کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ اپوزیشن مختلف سیاسی جماعتوں کا مجموعہ ہے، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت ہے، وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں عوامی مفاد کیلئے کام ہوسکتا ہے، حکومت میں رہ کر یا پھر اپوزیشن میں ہوتے ہوئے آئینی ذمہ داری پوری کی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے اسپیکر کی رولنگ کے بعد ملک میں آئینی بحران پیدا ہوا، آئینی بحران سے ملک کا ہر شہری متاثر ہوا، بطور عدالت ہم سختی سے قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند ہیں۔ عدالت محض تاثر یا کسی کی انفرادی رائے پر فیصلے نہیں کرتی۔

تفصیلی فیصلےمیں کہا گیا ہے کہ صدر وزیراعظم اور ڈپٹی اسپیکر کے غیر قانونی اقدام کے باعث قومی اسمبلی کی تحلیل کو جائز قرار دینا آئین کی نافرمانی ہو گا۔ قومی اسمبلی بحال ہونے سے پارلیمانی جمہوریت کو فروغ ملا۔ عدالت کو اس سے غرض نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام، آئین کی بالادستی لازم ہے، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن لازمی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل تھے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.