سپریم کورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے گرفتار چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کے حکم پر اسلام آباد پولیس عمران خان کو لے کر سپریم کورٹ پہنچی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اسلام آباد پولیس کو عمران خان کو ساڑھے چار بجے پیش کرنے کا حکم دیا تھا، پولیس ایک گھنٹہ تاخیر سے عمران خان کو لے کر عدالت عظمیٰ پہنچی۔
عمران خان کو 15 گاڑیوں کے قافلے میں سپریم کورٹ پہنچایا گیا۔ آئی جی اسلام آباد چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ عدالت عظمیٰ پہنچے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تو کمرہ عدالت کو بند کردیا گیا۔
چیف جسٹس نے عمران خان کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔
عدالت نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب ایک شخص کورٹ آف لا میں آتا ہے تو مطلب کورٹ کے سامنے سرنڈر کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ 8 مئی کو کورٹ میں بائیومیٹرک روم میں موجود تھے۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کل کیس کی سماعت کرے، ہائی کورٹ جو فیصلہ کرے وہ آپ کو ماننا ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر سیاستدان کی ذمہ داری ہے کہ امن و امان کو یقینی بنائے۔
چیف جسٹس نے عمران خان سے یہ بھی کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ پرتشدد مظاہروں کی مذمت کریں۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ عمران خان سے 10 افراد کو ملنے کی اجازت ہوگی، عمران خان سے ملنے والوں میں ان کے اہل خانہ، وکلاء اور دوست شامل ہوں گے۔
عدالت نے عمران خان کو اپنے قریبی افراد کی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ مذاکرات کا آغاز کریں اس سے معاشرے میں امن آئے گا، یہ اچھی بات ہے آپ عوام کے حقوق کے امین ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں طرف سے بیانیہ شدید ہو چکا ہے۔ آئین پر عمل تب ہی ہوسکتا ہے جب امن و امان کی صورتحال معمول کے مطابق ہو۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بے شک آپ کو مخالفین پسند نہیں لیکن ان کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی بات چیت کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان اس وقت سپریم کورٹ کی تحویل میں ہیں، ممکن ہو تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں 11 بجے سماعت مقرر کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ قلم اور اللّٰہ کی طاقت کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے دو اصول طے کیے ہیں، اصول یہ ہے عدالت کے احاطے سے کسی شہری کو آئندہ گرفتار نہیں کیا جائے گا، احاطہ عدالت سے گرفتاری کےلیے پولیس کے سوا کوئی نفری بغیر اجازت نہیں آئے گی۔
عمران خان نے عدالت سے بنی گالا کو سب جیل قرار دینے اور وہاں جانے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا اور ریمارکس دیے ہمیں آپ کی سیکیورٹی عزیز ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی سیکیورٹی یقینی بنانا آئی جی اور اٹارنی جنرل کی ذمہ داری ہے، عمران خان کل تک سپریم کورٹ کی تحویل میں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈر یہ ہے کہ ہماری تحویل میں عمران خان کو کچھ نہ ہو اس پر عمران خان نے کہا کہ آپ کی تحویل کی وجہ سے برکت آگئی ہے۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ بنی گالہ سیکیورٹی کےلیے محفوظ نہیں، سیکیورٹی خدشات ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا اس کے تین کمرے ہیں، وہاں گپ شپ لگایے گا، سو جایے گا اور کل ہائی کورٹ میں پیش ہوجائیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ وقت پر پہنچنا ہے، تاخیر کی تو اس عدالت کے لیے مسئلہ ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ احاطہ عدالت کے اندر شہریوں کو آزادی ہونی چاہیے۔
عدالت میں عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ باہر کیا ہو رہا ہے، جو باہر ہو رہا ہے میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔
جس پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لیڈر یہ نہیں کہہ سکتا کہ کارکنان جو کر رہے ہیں وہ ذمہ دار نہیں، جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس کے ذمہ دار ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ دیکھیں کل احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیے گا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے صرف ضمانت کا معاملہ ہے، میرے ساتھی ججز جو کہہ رہے ہیں ہمارے سامنے وہ کیس نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے علاوہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللّٰہ بھی بینچ میں شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان ضمانت قبل از گرفتاری کے لیےاسلام آباد ہائی کورٹ آئے تھے، وہ بائیو میٹرک کرا رہے تھے جب رینجرز اہلکار کمرے کا دروزاہ توڑ کر داخل ہوئے، رینجرز نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی اور عمران خان کو گرفتار کر لیا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں کس کیس میں پیش ہوئے تھے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے پوچھا کہ کیا بائیو میٹرک سے پہلے درخواست دائر ہو جاتی ہے؟
عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بائیو میٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہوتی اس لیے عمران خان پہلے بائیو میٹرک کرانے گئے۔
جس پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہی سوال ہے کہ کیا کسی کو انصاف کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ کیا مناسب نہ ہوتا کہ نیب ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے اجازت لیتا، نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟ سیاسی حالات کی وجہ سے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے بہت افسوس ناک ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ احاطۂ عدالت سے گرفتاری سے عدالت کا تقدس کہاں گیا؟ ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا، عدالتی حکم کے مطابق درخواستِ ضمانت دائر ہوئی تھی لیکن مقرر نہیں تھی، عمران خان کو نیب کے کتنے افراد نے گرفتار کیا؟ 90 افراد عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی؟ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے، کوئی بھی شخص خود کو آئندہ عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، کسی کو ہائی کورٹ، سپریم کورٹ یا احتساب عدالت سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، عمران خان کی گرفتاری سے عدالتی وقار مجروح کیا گیا، کتنے لوگوں نے عمران خان کو گرفتار کیا؟
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری کے لیے 80 سے 100 لوگ تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر 80 سے 100 لوگ احاطے میں آئیں گے تو عدالت کا کیا ہو گا؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر ایسے گرفتاریاں ہونے لگیں تو مستقبل میں کوئی عدالتوں پر اعتبار نہیں کرے گا، جب ایک شخص نے عدالت میں سرینڈر کر دیا تھا تو اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ عدالتی عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب کے وارنٹ کی قانونی حیثیت نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کے حق کو سبوتاژ نہیں کیا جا سکتا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان دہشت گردوں کے نشانے پر تھے، ان کی سیکیورٹی بھی لے لی گئی تھی، رینجرز نے عمران خان کو جیسے گرفتار کیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، گرفتاری کے وقت نیب کا تفتیشی افسر بھی موجود نہیں تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نیب کئی سال سے مختلف افراد کے ساتھ یہی حرکتیں کر رہا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پتہ چلا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے تھے، سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ وارنٹ عمران خان کو نہیں ملے تھے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سیاسی قیادت کی عدالت میں پیشی پر اچھے ردِ عمل کی توقع کرتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو ہوا وہ رکنا چاہیے تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے عمران خان کے وکلاء سے سوال کیا کہ آپ لوگ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟
وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ عمران خان کی رہائی کا حکم دے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ غیر قانونی کام سے نظر نہیں چرائی جا سکتی، آپ جو فیصلہ چاہتے ہیں اس کا اطلاق ہر شہری پر ہو گا، انصاف تک رسائی ہر شہری کا حق ہے، میانوالی میں ضلعی عدلیہ پر حملہ ہوا، معلوم کریں میانوالی میں ضلعی عدلیہ پر حملہ کس نے کیا؟ ضلعی عدلیہ پر حملے کا سن کر بہت افسوس ہوا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ 9 مئی کو کوئی کارکن یا جتھہ عدالت نہیں آیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان نے نیب کے نوٹسز کا جواب دیا تھا؟
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ عمران خان نے نیب کے نوٹسز کا جواب دیا تھا، قانون کے مطابق انکوائری کے دوران ملزم کی گرفتاری نہیں ہو سکتی، نیب کی انکوائری مکمل ہونےکے بعد رپورٹ ملزم کو دینا ضروری ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پھر استفسار کیا کہ عمران خان شاملِ تفتیش ہوئے یا نہیں؟
وکیل شعیب شاہین نےجواب دیا کہ عمران خان نے نیب کے نوٹس کا جواب بھجوانا تھا، نیب کا وارنٹ غیر قانونی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سوال غیر قانونی وارنٹ کا نہیں، وارنٹ کی تعمیل کرانے کے طریقہ کار کا سوال ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ نیب کے وارنٹ عمران خان نے چیلنج نہیں کیے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ نیب کے وارنٹ عمران خان نے چیلنج نہیں کیے؟ عمران خان نیب میں شاملِ تفتیش کیوں نہیں ہوئے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب کے نوٹس میں عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا تھا، نیب دوسروں سے قانون پر عمل کرانا چاہتا ہے مگر خود نہیں کرتا، نیب کی خواہش ہے کہ بس دوسرے قانون پر عمل کرتے رہیں، واضح ہے کہ عمران خان نے بھی نیب کے نوٹس پر عمل نہیں کیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب کے نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص ملزم تصور ہو گا، کئی لوگ نیب کے نوٹس پر ہی ضمانت کرا لیتے ہیں، ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے مارچ میں موصول ہونے والے نیب کے نوٹس کا جواب مئی میں دیا۔
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ عمران خان کو ایک ہی نیب کا نوٹس ملا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جسٹس محمد علی مظہر قانون پر عمل درآمد کی بات کر رہے ہیں، اصل معاملہ انصاف تک رسائی کے حق کا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا نیب نے رجسٹرار ہائی کورٹ سے گرفتاری سے قبل اجازت لی تھی؟
پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل وزارتِ داخلہ سے کرائی تھی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی احاطے میں وارنٹ پر عمل درآمد وزارتِ داخلہ نے کیا؟
پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نیب نے کئی سال سے سبق نہیں سیکھا، نیب پر سیاسی انجینئرنگ سمیت کئی الزامات ہیں، نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔
نیب کے وکیل سردار مظفر نے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ بھی دیکھیں کہ ماضی میں مزاحمت کرتے رہے ہیں، نیب کو جانوں کے ضیاع کا خطرہ تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کے مطابق تو نیب کے وارنٹ کی تعمیل کا طریقہ کار وفاقی حکومت نے طے کیا، کیا گرفتاری کے وقت نیب کا کوئی افسر موجود تھا؟
اس موقع پر نیب حکام عدالت کے سوال کا جواب نہ دے سکے۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ مجھے تمام حقائق معلوم نہیں ابھی کچھ دیر پہلے ہی تعینات ہوا ہوں، وارنٹس پر تو کوئی نجی شخص بھی عمل کرا سکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نیب خود بھی اپنے وارنٹس پر عمل درآمد کراتا رہتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ یکم کو وارنٹ جاری ہوئے 9 کو گرفتاری ہوئی، 8 دن نیب نے خود گرفتاری کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیا نیب عمران خان کو عدالت سے ہی گرفتار کرنا چاہتا تھا؟ وزارتِ داخلہ کو 8 مئی کو خط کیوں لکھا گیا؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا نیب نے عمران خان کو عدالت کے اندر سے گرفتاری کا کہا تھا؟ عمران خان کو کتنے نوٹسز موصول ہوئے؟
پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس دیا گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ بظاہر نیب وارنٹس قانون کے مطابق نہیں تھے، کیا وارنٹس جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی؟ عمران خان لاہور میں تھے، نیب نے پنجاب حکومت کو وارنٹ کی تعمیل کا کیوں نہیں کہا؟
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ عمران خان کو گرفتار کس نے کیا تھا؟
نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ آئی جی اسلام آباد کے مطابق انہوں نے وارنٹ کی تعمیل کرائی، عدالتی حکم کے مطابق پولیس نے وارنٹ کی تعمیل کرائی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی حکم کے مطابق پولیس کارروائی کی نگرانی کر رہی تھی؟
ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ رینجرز نے پولیس کے ماتحت گرفتاری کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ رینجرز کے کتنے اہلکار گرفتاری کے لیے موجود تھے؟
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ رینجرز اہلکار عمران خان کی سیکیورٹی کے لیے موجود تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کسی قانون کے تحت رجسٹرار سے اجازت لینے کی پابندی نہیں تھی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا شیشے اور دروازے توڑے گئے؟ ضابطۂ فوجداری کی دفعات 47 سے 50 تک پڑھیں، بائیو میٹرک برانچ کی اجازت کے بغیر بھی شیشے نہیں توڑے جا سکتے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ عمران خان کو کہیں اور گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا، عمران خان ہر پیشی پر ہزاروں افراد کو کال دیتے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ تو واضح ہو گیا کہ کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی، ملزم عدالت میں سرینڈر کر دے اور وہاں سے گرفتاری ہو تو احاطۂ عدالت گرفتاریوں کے لیے آسان مقام بن جائے گا، ایسے تو ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاریوں کی سہولت کار بن جائیں گی۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے حکم دیا کہ آئی جی اسلام آباد عمران خان کو ساڑھے 4 بجے پیش کریں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ شیشے توڑ کر غلط کام کیا گیا تھا، عمران خان کی درخواستِ ضمانت ابھی دائر ہی نہیں ہوئی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حکومت سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ بھی یہ کرے گی۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ نیب آزاد ادارہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ نیب نے سارا الزام وفاقی حکومت پر ڈال دیا ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ نیب نے رینجرز تعینات کرنے کی درخواست 8 مئی کو کی تھی، نیب کی رینجرز تعینات کرنے کی درخواست وارنٹس پر عمل درآمد کے لیے نہیں تھی، احتساب عدالت ریمانڈ دے چکی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بنیاد غیر قانونی ہو تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی، وقت آ گیا ہے کہ مستقبل کے لیے مثال قائم کی جائے، جس انداز میں گرفتاری کی گئی برداشت نہیں کی جا سکتی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت معاملے پر بہت سنجیدہ ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اٹارنی جنرل کی کل تک کی مہلت کی استدعا مسترد کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ چھوڑ دیں عمران خان کو، کوئی عام شہری بھی ہوتا تب بھی یہ اقدام ناقابلِ برداشت ہوتا، وارنٹِ گرفتاری کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کرنا چاہتے، دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی برا سلوک ہوتا رہا ہے، ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وقت آ گیا ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم ہو۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے۔
درخواست میں عمران خان کی رہائی اور گرفتاری کی تحقیقات کا حکم دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عمران خان کی حفاظت یقینی بنانے کا حکم بھی دیا جائے۔
درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاری اختیارات کا ناجائز استعمال اور سیاسی انتقام ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ حکومت کا رویہ بنیادی حقوق اور آئین کے آرٹیکل 9، 10 اے کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ بنیادی حقوق کی اس خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کی مداخلت ناگزیر ہے۔
درخواست میں وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو فریق بنایا گیا ہے۔
Comments are closed.