سٹاکٹن رش: ایک آزاد منش، غیر روایتی شخص کا المناک انجام
سٹاکٹن رش ایک جدت پسند کے طور پر پہچانے جانا چاہتے تھے۔ اس بات سے قطع نظر کے وہ یہ کیسے کریں گے۔
با صلاحیت، متحرک، اور دولت مند گھرانے میں پیدا ہونے والے اس انسان کا خواب مریخ تک پہنچنے والا پہلا شخص بننا تھا۔
جب انھیں احساس ہوا کہ ان کی زندگی میں ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے تو انھوں نے اپنی توجہ سمندر کی طرف کر دی۔
’میں کیپٹن کرک بننا چاہتا تھا اور ہماری زندگی میں، آخری سرحد سمندر ہے،‘ انھوں نے 2017 میں ایک صحافی کو بتایا۔
سمندر ایڈونچر، جوش اور اسرار سے بھرا ہے۔ انھیں اس کا یقین تھا کہ اگر وہ آبدوز کو بنانے میں کامیاب ہوجاتے جس کے ڈیزائن میں انھوں نے مدد کی، جس کی تیاری کا کی ہدایات انھوں نے اپنی کمپنی اوشین گیٹ کو دی تھیں۔
ان کے پاس ایک آزاد خیال جذبہ تھا جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، جس کی وجہ سے ان کے ملازمین، مسافر اور سرمایہ کار ان کی تعریف کرتے ہیں۔
رش کے ٹائٹن آبدوز پر سفر کرنے اور آخر کار اوشین گیٹ کی سرمایہ کار بن جانے والے ایرون نیومین کا کہنا ہے کہ ’ان کا جذبہ حیرت انگیز تھا‘۔
لیکن رش کے بڑھتے ہوئے عزائم کو صنعت کے ماہرین کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جنہوں نے متنبہ کیا کہ وہ حفاظت پر جدت طرازی کو ترجیح دے رہے ہیں اور ممکنہ طور پر تباہ کن نتائج کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔
وہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ گذشتہ ہفتے وہ اور اس میں سوار چار دیگر افراد اس وقت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جب یہ آبدوز تباہ ہو گئی تھی۔
رش نے ایک بار امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ کو ان قوانین کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے جو آپ توڑتے ہیں۔‘
انھوں نے ٹائٹن کے بارے میں کہا کہ ’میں نے کچھ قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے منطق اور اچھی انجینئرنگ کے ساتھ ان کو توڑ دیا ہے.۔‘
سٹاکٹن رش سوم 1962 میں کیلیفورنیا میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جس نے تیل اور جہاز رانی سے اپنی دولت کمائی۔ انھیں نیو ہیمپشائر میں فلپس ایکسٹر اکیڈمی میں بھیجا گیا اور 1984 میں پرنسٹن یونیورسٹی سے ایرو اسپیس انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔
19 سال کی عمر میں ، وہ جیٹ ٹرانسپورٹ ریٹنگ کے لیے کوالیفائی کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر پائلٹ بن گئے۔ انھوں نے ایف 15 اور اینٹی سیٹلائٹ میزائل پروگراموں پر کام کیا، اس امید کے ساتھ کہ آخر کار وہ امریکی خلائی پروگرام میں شامل ہوجائیں گے اور خلا باز بن جائیں گے۔
لیکن پھر ان عزائم نے اپنی کشش کھو دی، کیونکہ سرخ سیارے مریخ کا سفر تیزی سے پہنچ سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔ رش نے فاسٹ کمپنی میگزین کو بتایا کہ ’اگر کوئی مجھے بتائے کہ مریخ پر جانے کی تجارتی یا فوجی وجہ کیا ہے تو مجھے یقین ہو گا کہ ایسا ہونے جا رہا ہے، یہ تو صرف ایک خواب ہے۔‘
چنانچہ انھوں نے اپنی نظریں نیچے کی طرف موڑ دیں اور 2009 میں ایک نجی کمپنی اوشن گیٹ کی بنیاد رکھی جس نے گاہکوں کو ’ایڈونچررز‘ کی اصطلاح دی۔ جن کے لیے ٹائٹینک کے ملبے سمیت گہرے سمندر کے سفر کا تجربہ کرنے کا موقع تھا۔
ریاست واشنگٹن کے شہر ایورٹ میں قائم یہ کمپنی چھوٹی اور مضبوط تھی۔ رش اس کے ہیڈ کوارٹر میں تمام عملے کے اجلاسوں کی صدارت کرتے تھے ، جبکہ ان کی اہلیہ وینڈی، جو پرنسٹن کی 1984 کی کلاس کی ایک اور رکن تھیں ان کی مواصلات کی ڈائریکٹر تھیں۔
سنہ 2017 سے 2018 تک اوشن گیٹ میں کام کرنے والے ایک جونیئر ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کمپنی کا ہیڈکوارٹر گھر جیسا محسوس ہوتا ہے اور ہر جگہ تاریں اور آلات موجود ہیں۔
کمپنی کے ملازم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ جو کچھ کر رہے تھے اس کے بارے میں بہت پرجوش تھے اور وہاں کام کرنے والے ہر شخص میں یہ جذبہ پیدا کرنے میں بہت اچھے تھے۔ عملے کے ایک اجلاس میں رش ہر کسی کے لیے ورچوئل رئیلٹی چشمے لے کر آئے تاکہ وہ زیر آب ڈیجیٹل ٹور لے سکیں۔ مسٹر رش نے انھیں بتایا کہ ان کا مقصد یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ نظریہ رکھنے کی اجازت دی جائے، یہ وہ دنیا ہے جو میں چاہتا ہوں۔‘
سرمایہ کار نیومین کا کہنا تھا کہ رش پیچھے رہ کر لوگوں کو نہیں بتاتے تھے کہ کیا کرنا ہے‘۔
نیومین 2021 کے موسم گرما میں رش کے ساتھ ٹائٹن پر ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے گئے تھے۔
پہلی بار جب ان کی ملاقات ہوئی، رش نے ان کے ساتھ سمندر کی تہہ کی کھوج کی صلاحیت کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئےگھنٹوں گزارے۔
نیومین نے کہا کہ رش’اپنے ہی راستے پر چل رہے ہیں‘۔
نیومین اوشن گیٹ کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ ایسی ٹیم تھی جو ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ رش کی اہلیہ وینڈی سب سے اوپر کھڑی تھیں اور دیکھ رہی تھیں اور اس بات کو یقینی بنا رہی تھیں کہ وہ سب کچھ اچھی طرح کر رہے ہیں اور جلدبازی تو نہیں ہو رہی۔
نیومین کو رش نے اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے اوشن گیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’آپ جانتے ہیں، میں نہیں جانتا تھا کہ میں کبھی یہاں سے پلٹوں گا، اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ ‘
’میرا مقصد کسی ایسی چیز کا حصہ بننا تھا جو تجرباتی ہے اور نئی جہتیں بنا رہی ہے اور ہماری ٹیکنالوجی کو آگے بڑھا رہی ہے، اور دنیا کس طرح کام کرتی ہے، مزید جگہوں پر جانا اور حیرت انگیز چیزیں کرنا، یہ اسی کے بارے میں ہے۔‘
نیومین نے خود کو ایک معمولی سرمایہ کار کے طور پر بیان کیا۔ ایک نجی کمپنی کے طور پر، اوشن گیٹ تمام مالی ریکارڈ شائع کرنے کا پابند نہیں ہے۔
جنوری 2020 کے امریکی مالیاتی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ رش اور ان کے ساتھی ڈائریکٹرز نے کمپنی میں 18 ملین ڈالر کے حصص فروخت کیے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے ٹائٹن بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اوشن گیٹ کی ذیلی کمپنی پانی کے اندر سفر کے لیے 250,000 ڈالر کی قیمت کے ساتھ آئی ہے۔
رش کے گاہک مالا مال اور تھرل کے متلاشی تھے، جو زندگی میں ایک بار مہم جوئی کے لیے یہ رقم خرچ کرنے کے لیے تیار تھے۔ لاس ویگاس کے بزنس مین جے بلوم اس سفر میں شامل ہونے کےلیے رش کو پیغام بھیج رہے تھے، لیکن پھر انھوں نے اپنے اور اپنے بیٹے کا سفر منسوخ کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملبے کو قریب سے دیکھنے کا موقع خواہشات کی فہرست میں شامل تھا۔ انھوں نے کہا کہ’اسکے بعد آپ یہ کہہ سکتے تھے کہ ’آپ نے کچھ ایسا کیا جو بہت کم لوگوں کو کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘ بڑی رقم خرچ ہونے کے باوجود اوشن گیٹ کے آلات کبھی کبھی گھریلوساختہ ہونے احساس دلاتےہیں۔
کمپنی کے سابق جونیئر ملازم نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ٹائٹن کے الیکٹریکل ڈیزائن میں دیگر انجینئرنگ کمپنیوں کی طرح کسٹم، ان ہاؤس ڈیزائن استعمال کرنے کے بجائے آف دی شیلف ڈیویلپمنٹ بورڈز شامل ہیں۔
سی بی ایس نیوز کے صحافی ڈیوڈ پوگ، جو 2021 میں ٹائٹینک کے ملبے کے دورے پر رش کے ساتھ شامل ہوئے تھے، انھوں نے کہا کہ چیف ایگزیکٹو نے ٹائٹن کو گیم کنٹرولر کے ساتھ چلایا اور ’تعمیراتی صنعت سے زنگ آلود لیڈ پائپوں کو بلسٹ کے طور پر استعمال کیا‘۔
اس کے باوجود رش نے پوگ کو یقین دلایا کہ صرف ایک چیز جو واقعی اہمیت رکھتی ہے وہ جہاز کی پتوار ہے جو گہرے سمندر کے جہاز کے لیے ایک غیر معمولی اور بڑے پیمانے پر غیر آزمودہ مواد سے بنایا گیا ہے، کاربن فائبر ، جس میں ٹائٹینیم اینڈ پلیٹیں ہیں۔
رش جانتے تھے کہ کاربن فائبر کشتیوں اور ہوا بازی میں کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور ان کا خیال تھا کہ اس سے ان کے آبدوزوں کو صنعت کے معیار کے سٹیل کے مقابلے میں زیادہ سستے بنانے میں مدد ملے گی۔
رش نے 2021 میں کہا تھا کہ ’ایک اصول ہے کہ آپ ایسا نہیں کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے، میں نے کیا۔‘
ٹائٹن کی ٹیوب کی شکل بھی غیر معمولی تھی۔ ڈیپ ڈائیونگ آبدوز کا پتوار عام طور پر گول ہوتا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ یہ ہر نقطہ پر برابر مقدار میں دباؤ حاصل کرتا ہے ، لیکن ٹائٹن میں سلنڈر کی شکل کا کیبن تھا۔ اوشن گیٹ نے اسے نیچے اترتے ہوئے بدلتے ہوئے دباؤ کے اثرات کا تجزیہ کرنے کے لیے سینسر دیے۔
شیشے کا ویو پورٹ، جہاں سے مسافر باہر دیکھ سکتے تھے، صرف 1،300 میٹر تک کی گہرائی کے لیے سند یافتہ تھا، جو سمندر کی تہہ کی گہرائی سے بہت کم تھا جہاں ٹائٹنک ملبہ پڑا تھا۔ اوشن گیٹ کے کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے ایک ایکسپلورر روب میککلم کو اس وقت تشویش ہوئی جب رش نے ٹائٹن آبدوز کے لیے باضابطہ سرٹیفکیٹ حاصل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
آبدوز کو سمندری تنظیموں، جیسے امریکن بیورو آف شپنگ یا لائیڈ رجسٹر کے ذریعے تصدیق شدہ یا ’درجہ بند‘کیا جا سکتا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ سواری کو استحکام، طاقت، حفاظت اور کارکردگی جیسی چیزوں کے کچھ معیارات پر پورا اترنا ہوگا۔ لیکن یہ عمل لازمی نہیں ہے۔
بی بی سی نیوز نے مارچ 2018 میں رش کو بھیجی گئی ای میلز دیکھیں جن میں میککلم نے کہا تھا کہ ’آپ ایک غیر معیاری ٹیکنالوجی کا پروٹو ٹائپ ایسی جگہ استعمال کرنا چاہتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔ جتنا میں انٹرپرینیورشپ اور جدت طرازی کو سمجھتا ہوں، آپ ممکنہ طور پر پوری صنعت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘
وسط بحر اوقیانوس میں 4،000 میٹر نیچے ایسی جگہ نہیں ہے جسے آپ جلد بازی اور سستے میں دیکھ سکتے ہیں۔ رش نے اس کے جواب میں کہا کہ وہ صنعت کے ان کھلاڑیوں سے تنگ آ چکے ہیں جو جدت طرازی کو روکنے کے لیے حفاظتی دلیل استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ حفاظت کا تعلق ’ثقافت سے ہے، کاغذی کارروائی سے نہیں‘۔
انھوں نے کہا کہ ’سمجھدار ڈیزائن، وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ اور شرکا کی باخبر رضامندی‘ کی ضرورت ہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ کاغذ کا ایک ٹکڑا کسی آبدوز کی حفاظت کی ضمانت نہیں دیتا۔
اگرچہ انھوں نے کچھ ہدایات سے انحراف کا اعتراف کیا ، جیسے ویو پورٹ کی حدود ، انھوں نے دلیل دی کہ ٹائٹن کا حفاظتی نظام استعمال میں آنے والی کسی بھی چیز سے کہیں زیادہ ہے۔
میککلم نے بتایا کہ اوشن گیٹ کے وکلا کی جانب سے قانونی کارروائی کی دھمکی کے بعد سخت پیغامات کا تبادلہ ختم ہوا۔ لیکن میککلم کمپنی سے منسلک واحد شخص نہیں تھے جنھوں نے حفاظت کے بارے میں بات کی۔ چند ماہ قبل اوشن گیٹ کے سابق ملازم ڈیوڈ لوچرج نے ایک انسپکشن رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا تھا جس میں ’متعدد مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی جن سے سنگین حفاظتی خدشات پیدا ہوئے تھے۔‘
اس کے علاوہ 2018 میں میرین ٹیکنالوجی سوسائٹی نے اوشن گیٹ کو ایک خط بھیجا تھا جس میں اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ اپنے ڈیزائن کے بارے میں صنعت کے حفاظتی معیارات سے تجاوز کرنے کے بارے میں گمراہ کن دعوے کر رہا ہے، اور متنبہ کیا کہ اوشن گیٹ کے ’تجرباتی‘ نقطہ نظر کے نتیجے میں ’منفی نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں‘۔
سنہ 2019 میں ایک بلاگ پوسٹ میں رش نے زور دے کر کہا تھا کہ زیادہ تر سمندری حادثات آپریٹر کی غلطی کی وجہ سے ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اوشن گیٹ نے حفاظتی تقاضوں کو بہت سنجیدگی سے لیا، لیکن حقیقی الفاظ میں ٹیسٹ کرنے سے پہلے ہر تبدیلی کے بارے میں بیرونی ادارے کو مطلع رکھنا ’تیزی سے جدت طرازی کے لیےلعنت ہے‘۔
کمپنی کے سابق ملازم نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ اوشن گیٹ میں کام کر رہے تھے تو انھیں رش کی حفاظت کے عزم پر اعتماد تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’رش جانتے تھے کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
’وہ آبدوز کہ ہر سفر پر جاتے تھے ، وہ ہر ایک کے لیے پائلٹ تھے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں آبدوز کی حفاظت پر بھروسہ تھا‘۔
نیومین نے بی بی سی کو بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کی تصدیق نہ کی گئی ہو لیکن اس کا بڑے پیمانے پر تجربہ کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ رش نے ’نئے خیالات متعارف کرائے جو روایتی نہیں ہیں، اور کچھ لوگ اسے پسند نہیں کرتے ۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ خیال کہ یہ انوکھا ہے اور سٹاکٹن نے کچھ غلط کیا ہے، بے بنیاد ہے۔‘
رش نے گذشتہ سال خود سی بی ایس کے نامہ نگار پوگ کو بتایا تھا کہ ’اگر آپ صرف محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو بستر سے باہر نہ نکلیں، اپنی گاڑی میں مت بیٹھیں۔ کچھ بھی مت کریں۔ کبھی نہ کبھی آپ رسک لیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں قوانین کو توڑ کر یہ کام محفوظ طریقے سے کر سکتا ہوں۔ ‘
نیومین کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ بہت سے کامیاب سفر کرنے کے بعد اس آبدوز کا آخری سفر المیے پر کیوں ختم ہوا؟
’واضح طور پر، پتوار پر دباؤ کی وجہ سے ہوا؟ اور سوال یہ ہے کہ اس سے راستہ کیوں ملے گا؟‘
اوشن گیٹ کے شریک بانی اور رش کے سابق بزنس پارٹنر گلرمو سوہنلین نے کہا کہ وہ خود اس سے مختلف نقطہ نظر اختیار نہیں کرتے۔ ’عالمی سطح پر انسانی برادری بہت چھوٹی ہے، اور ہم سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، اور میرے خیال میں عام طور پر ہم سب ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہیں‘
سوہنلین کا کہنا ہے کہ ’بنیادی بات یہ ہے کہ آبدوز کو کس طرح ڈیزائن کیا جانا چاہیے اس کے بارے میں ہر ایک کی مختلف رائے ہے۔‘
اپنے بیٹے کی جانب سے آبدوز کے بارے میں خدشات کے اظہار کے بعد جے بلوم نے رش کی دعوت کو مسترد کر دیا تھا۔ بلوم کہتے ہیں ’مجھے یقین ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے تھے اس پر وہ واقعی یقین کر رہے تھے۔ لیکن وہ بہت غلط تھے۔‘
Comments are closed.