سٹار لنک: ایلون مسک خلا میں ہزاروں سیٹلائٹس کیوں بھیج رہے ہیں؟
ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس زمین کے مدار میں ہزاروں سیٹلائٹس چھوڑ رہی ہے، بہت سے افراد کہتے ہیں کہ انھوں نے ان سیٹلائٹس کو آسمان پر دیکھا ہے۔
یہ سب ایلون مسک کے سٹار لنک منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے جس کا مقصد زمین کے دور دراز علاقوں میں تیز ترین انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنا ہے۔
سٹار لنک منصوبہ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
سٹار لنک سیٹلائٹس کے ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے انٹرنیٹ سروس مہیا کرتا ہے۔ اس کا مقصد ان افراد کو تیز ترین انٹرنیٹ کی سروس مہیا کرنا ہے جو زمین کے دور دراز یا دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور انھیں تیز انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں۔
یونیورسٹی آف پورٹسمتھ کی سپیس پروجیکٹ منیجر لوسینڈا کنگ کہتی ہیں کہ ’اس منصوبے میں برطانیہ کے لوگ بھی شامل ہیں لیکن زیادہ تر افریقہ جیسے خطوں سے افراد شامل ہیں۔‘
سٹار لنک منصوبے کے تحت ان سیٹلائٹس کو زمین کے نچلی سطح کے مدار میں چھوڑا گیا ہے تاکہ ان سیٹلائٹس اور زمین کے درمیان رابطوں کی رفتار کو جتنا ممکن ہو تیز یا جلدی بنایا جا سکے۔
تاہم زمین کے گرد مکمل کوریج کے لیے بہت زیادہ تعداد میں کم سطح کے سیٹلائٹس کی ضرورت ہے۔
یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایلون مسک کی کمپنی نے سٹار لنک منصوبے کے تحت 2018 سے لے کر اب تک تقریباً 3000 چھوٹے سیٹلائٹس زمین کے مدار میں بھیجے ہیں۔ کرس ہال کا کہنا ہے کہ وہ اس منصوبے کے تحت 10 سے 12 ہزار سیٹلائٹس استعمال کر سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘سیٹلائٹس کو استعمال کرتے ہوئے ہم دنیا کے دور دراز علاقوں جیسا کے صحرا اور پہاڑوں پر انٹرنیٹ کنکشن تک رسائی کی مشکل حل کر سکتے ہیں۔ یہ ہمیں ان علاقوں تک انٹرنیٹ حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر جیسا کے تاریں اور کھمبوں کی ضرورت سے نجات دلائے گا۔’
سٹار لنک کی قیمت کیا ہے اور کون اسے استعمال کرے گا؟
روایتی انٹرنیٹ سروسز کے مقابلے میں سٹار لنک سستا نہیں ہے۔ اس کی صارفین کے لیے ماہانہ 99 ڈالر فیس ہے (برطانیہ میں 89 پاؤنڈ ماہانہ)۔ اور سیٹلائٹس سے رابطے کے لیے استعمال ہونے والی ڈش اور راؤٹر کی قیمت امریکہ میں 549 ڈالرز جبکہ برطانیہ میں 529 پاؤنڈز ہے۔
تاہم برطانیہ میں 96 فیصد گھرانوں کو پہلے سے ہی تیز ترین انٹرنیٹ سروس تک رسائی حاصل ہے جبکہ امریکہ اور یورپی یونین میں بھی 90 فیصد عوام کے پاس تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔
لندن یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف سپیس پالیسی اینڈ لا کے ڈائریکٹر پروفیسر سعید موستشر کا کہنا ہے کہ ‘بیشتر ترقی یافتہ دنیا کے پاس پہلے ہی اچھے انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ وہ آمدن کے لیے عالمی مارکیٹ کے چھوٹے حصے پر انحصار کر رہے ہیں۔’
ایلون مسک کی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اس وقت 36 ممالک میں چار لاکھ صارفین ہیں۔ جن میں بیشتر شمالی امریکہ، یورپ اور آسٹرالایشیا سے ہیں۔ ان میں گھریلو اور کاروباری دونوں طرح کے صارفین موجود ہیں۔
سٹار لنک اگلے برس اپنے نیٹ ورک کو پھیلانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے تحت وہ اپنے تیز ترین انٹرنیٹ کی سروس افریقہ، جنوبی امریکہ اور ایشیا میں فراہم کرے گی۔ یہ دنیا کے وہ علاقے ہیں جہاں انٹرنیٹ سروس اور کوریج زیادہ اچھی نہیں ہے۔
کرس ہال کا کہنا ہے کہ ‘سٹار لنک کی انٹرنیٹ سروسز کی قیمت شاید افریقہ کے کچھ گھرانوں کے لیے بہت زیادہ ہو لیکن یہ دور افتادہ علاقوں میں سکولوں اور ہسپتالوں سے رابطے قائم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔’
سٹار لنک یوکرین کی مدد کیسے کر رہا ہے؟
جیسے ہی روسی افواج نے یوکرین پر چڑھائی اور پیش قدمی کی، انھوں نے یوکرین کی انٹرنیٹ سروسز بند کر کے ان کی سوشل میڈیا سائٹس کو بلاک کرنے کی کوشش کی۔
ایلون مسک نے روسی حملے کے فوری بعد یوکرین میں سٹار لنک کی سروس کو فراہم کیا۔ سٹار لنک کی تقریباً 15,000 ڈشز اور راؤٹرز یوکرین بھجوائے جا چکے ہیں۔
کرس ہال کہتے ہیں کہ ‘سٹار لنک نے جنگ کے دوران بھی یوکرین میں رابطے بحال رکھے اور ملک میں پبلک سروسز اور حکومت کی طرح انٹرنیٹ بھی چلتا رہا۔ اور روسیوں کو اسے بند کرنے کا کوئی طریقہ نہیں مل سکا۔’
سٹارلنک انٹرنیٹ کو میدان جنگ میں بھی استعمال کیا گیا۔
کنگز کالج لندن کی ڈیفنس سٹڈیز کی محقق ڈاکٹر میرینا میرن کہتی ہیں کہ ‘یوکرینی افواج اسے فوجی ہیڈ کوارٹر اور جوانو ں کے آپس میں رابطے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے سگنلز کو جام نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ عام ریڈیو سگنلز کو کیا جا سکتا ہے۔ اور اسے سیٹ اپ کرنے کے لیے صرف 15 منٹ درکار ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کیا سٹار لنک خلا میں رش پیدا کر رہا ہے؟
سٹار لنک کے ساتھ ساتھ اس کی حریف کمپنیاں ون ویب اور وایاسیٹ بھی سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ سروسز فراہم کرتے ہیں، زمین کے نچلی سطح کے مدار میں ہزاروں سیٹلائٹس بھیج رہے ہیں۔
سعید موستشر کہتے ہیں کہ اس سے مسائل پیدا ہوں گے، کیونکہ سیٹلائٹس کے آپس میں ٹکرانے کی صورت میں یہ خلا کو کم محفوظ بنائے گا۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘سیٹلائٹس دیگر چیزوں سے بھی ٹکرا سکتے ہیں اور اس صورت میں ان کے ٹکرے اور ملبہ تیز رفتار سے خلا میں گھومتے ہوئے بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔’
حال ہی میں ایسے چند واقعات ہوئے ہیں جہاں یہ سیٹلائٹس ٹکرانے سے بال بال بچے ہیں، جن میں چین کا خلائی سٹیشن بھی شامل ہے جس سے سٹار لنک کا سٹیلائٹس ٹکرانے سے بال بال بچا۔
ڈاکٹر کنگ کا کہنا ہے کہ ‘اگر زمین کے نچلی سطح کے مدار پر بہت زیادہ ٹکڑے ہوں گے تو مستقبل میں یہ اس مدار کو ناقابل استعمال بنا دے گا۔ اور ہم نچلی سطح کے مدار سے زمین کے اونچی سطح کے مدار تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے جہاں ہمارے ٹیلی کام اور رہنمائی کے سیٹلائٹس موجود ہیں۔’
سٹار لنک کے سیٹلائٹس خلا بازوں کے لیے بھی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت یہ انسانی آنکھ سے دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کے پروں پر سورج کی روشنی پڑنے سے یہ باآسانی نظر آتے ہیں۔
یہ ٹیلی سکوپ کے ذریعے ستاروں اور سیاروں کی تصاویر حاصل کرنے میں بھی خلل پیدا کر سکتے ہیں۔
پروفیسر مونستشر کا کہنا ہے کہ ‘ماہر فلکیات نے اس مسئلے کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا، اور انھوں نے اس کے متعلق سب سے پہلے شکایت کی تھی۔
Comments are closed.