سویڈن کی نیٹو رکنیت کی حمایت سے ترکی کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

سوئیڈن کی نیٹو رکنیت کے لیے ترکی کی حمایت

،تصویر کا ذریعہEPA

ترکی نے نیٹو سربراہی اجلاس سے چند گھنٹے قبل سویڈن کی نیٹو رکنیت کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔

یہ سویڈن کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے، جس نے گذشتہ سال نیٹو میں شمولیت کے لیے سخت جدوجہد میں گزارا ہے۔

نیٹو ممالک کے فوجی اتحاد کے سربراہ جینز سٹولٹن برگ نے ترکی کی جانب سے سویڈن کی نیٹو کی رکنیت کی حمایت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا ہے اور وہ ترک پارلیمنٹ سے اس کی توثیق کو یقینی بنائیں گے۔

سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن نے اس اعلان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’میں بہت خوش ہوں اور سویڈن کے لیے یہ ایک تاریخی دن ہے۔‘

دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے ترک صدر اردوغان کی جانب سے تیزی سے توثیق کے ساتھ آگے بڑھنے کے عزم کا خیرمقدم کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ ’میں یورو،اٹلانٹک کے علاقے میں دفاع اور ڈیٹرنس کو بڑھانے کے لیے صدر اردگان اور ترکیہ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں، میں وزیر اعظم کرسٹرسن اور سویڈن کو ہمارے 32 ویں نیٹو اتحادی کے طور پر خوش آمدید کہنے کا منتظر ہوں۔‘

جرمن وزیر خارجہ اینالن بیرباک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم سب ایک ساتھ زیادہ محفوظ ہیں۔

سٹولٹن برگ نے اس معاہدے کا اعلان ولنیئس میں ترک اور سویڈش رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد کیا ہے۔

نیٹو کے سربراہ نے اسے ایک ’تاریخی اقدام‘ قرار دیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ سویڈن کب فوجی اتحاد میں شامل ہو گا اس کے لیے ’واضح تاریخ‘ نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس کا انحصار ترک پارلیمنٹ پر ہے۔

واضح رہے کہ ترکی نے اس سے قبل سویڈن کی درخواست کو روک رکھا تھا اور اس پر کرد عسکریت پسندوں کی میزبانی کا الزام لگایا تھا۔

نیٹو کے 31 ارکان میں سے ایک کے طور پر ترکی کے پاس گروپ میں شامل ہونے والے کسی بھی نئے ملک کو ویٹو حاصل ہے۔

سربراہی اجلاس سے پہلے معاہدہ کیسے ہوا؟

ترکی نے لتھوانیا کے دارالحکومت ولنیئس میں نیٹو سربراہی اجلاس سے چند گھنٹے قبل سویڈن کو اس اتحاد میں شامل کرنے کی اپنی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

ترک صدر رجب طییب اردوغان، سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ کے درمیان سہ فریقی اجلاس کے بعد عوام کے سامنے جلد سویڈن کی رکنیت کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ سے اتفاق رائے کا اعلان کیا گیا۔

سوئیڈن کی نیٹو رکنیت کے لیے ترکی کی حمایت

،تصویر کا ذریعہEPA

نیٹو کے الحاق کے عمل کے معاملے پر ترکی اور سویڈن کے درمیان ایک سال سے زیادہ عرصے سے بات چیت کا عمل جاری ہے۔

ترکی کا حالیہ اعلان نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹنبرگ اور سینیئر امریکی حکام کی مسلسل کی جانے والی سفارتی کوششوں کے بعد سامنے آیا ہے۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے ترک صدر اردوغان اور سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن کو نیٹو سربراہی اجلاس میں اکھٹا کیا اور چار جون کو ترک صدر کی جانب سے انتخابات کے بعد عہدہ سنبھالنے کے بعد سے استنبول میں شروع ہونے والی اپنی سفارتی کوششوں کو اس آخری مرحلے تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔

اجلاس میں سویڈن اور ترکی کے درمیان سکیورٹی کے شعبے میں تعاون کا نیا طریقہ کار قائم کرنے اور نیٹو کے سیکریٹری جنرل کو خصوصی انسداد دہشت گردی کوآرڈینیٹر کے طور پر مقرر کئے جانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

سویڈن نے بھی اعلان کیا کہ وہ ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کے عمل کی حمایت کرے گا۔

سات نکاتی مشترکہ اعلامیے میں کیا ہے؟

اس اہم اجلاس کے بعد فریقین کا مشترکہ بیان جاری کیا گیا جو سات نکات پر مشتمل ہے۔ اس بیان میں موجود ساتواں نکتہ انتہائی اہم اور قابل توجہ سمجھا جا رہا ہے جس کے تحت ’اس بنیاد پر، یورو-اٹلانٹک خطے کے تحفظ اور دفاعی ضروریات کی روشنی میں، ترکی سویڈن کے الحاق پروٹوکول کو پارلیمنٹ میں پیش کرے گا اور اس کی توثیق کو یقینی بنانے کے لیے اسمبلی کے ساتھ مل کر کام بھی کرے گا۔‘

تاہم، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آرٹیکل میں اس کی منظوری سے متعلق کوئی ڈیڈ لائن مقرر نہیں کی گئی ۔

اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سٹولٹن برگ نے کہا کہ صدر اردوغان نے اس معاملے پر رضامندی کا اظہار بھی کیا ہے اور جلد از جلد اقدامات کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔

معاہدے کے اس ساتویں آرٹیکل میں طے پانے والے اتفاق رائے کی بنیاد دیگر مضامین میں بیان کی گئی ہے۔

اسی معاہدے کے دوسرے نکتہ میں کہا گیا ہے کہ ترکی اور سویڈن ترکی کے جائز سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے گذشتہ ایک سال سے مل کر کام کر رہے ہیں اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ سویڈن کی حکومت نے کرد ورکر پارٹی ’پی کے کے‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آئین اور قوانین میں تبدیلی کی ہے اور ساتھ ہی ترکی پر عائد ہتھیاروں کی پابندی اٹھا لی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سوئیڈن کی نیٹو رکنیت کے لیے ترکی کی حمایت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

نیٹو اتحاد کی بنیاد سنہ 1949 میں سرد جنگ کے اوائل میں رکھی گئی تھی

سویڈن کا ‘دہشت گردی کے خلاف روڈ میپ

فریقین کے مشترکہ بیان کے تیسرے آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ ترکی اور سویڈن ایک ایسا طریقہ کار قائم کرنے جا رہے ہیں جو سال میں ایک بار وزارتی سطح پر ایک نئے دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کے ساتھ ساتھ فن لینڈ کے ساتھ قائم ہونے والے سہ فریقی مشترکہ مستقل میکنزم کے تحت ملاقات کریں گے۔

اسی آرٹیکل کے مطابق، سویڈن پہلی میٹنگ میں میڈرڈ میں طے پانے والے سہ فریقی معاہدے میں شامل عناصر کے نفاذ کے لیے ہر قسم کی دہشت گردی اور مظاہروں کے خلاف ایک روڈ میپ پیش کرے گا۔

مشترکہ بیان کے مطابق سویڈن فتح اللہ گولن کی تنظیم کی حمایت نہیں کرے گا، جسے ترکی میں’FETO ‘فتح اللہ ٹیرسٹ آرگنائزیشن جبکہ شام میں پیپلز ڈیفینس یونٹ ’YPG‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

چوتھے آرٹیکل میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ترکی اور سویڈن کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ طویل المدتی ہے‘ اور یہ تعاون سویڈن کے الحاق کے بعد بھی جاری رہے گا۔

پانچواں آرٹیکل ترکی کی درخواست پر اتحادیوں کے درمیان ہتھیاروں کی فروخت کو روکنے یا محدود نہ کرنے سے متعلق ہے۔

سویڈن سے یورپی یونین کا وعدہ

مشترکہ بیان میں دونوں ممالک میں باہمی اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے فیصلے سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا ہے جس کے تحت ’سویڈن کسٹم یونین کو اپ ڈیٹ کرنے اور ویزا کو آزاد کرنے سمیت ترکی کے یورپی یونین سے الحاق کے عمل کو بحال کرنے کی کوششوں میں فعال کردار ادا کرے گا۔‘

یاد رہے کہ یورپی یونین کا یہ حوالہ صدر اردوغان کی ولنیئس روانگی سے قبل پریس کانفرنس میں اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے کہ سویڈن کی نیٹو کی رکنیت ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کے عمل کی راہ ہموار کرے گی۔

سٹولٹن برگ نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ نیٹو کے طور پر ان کا یورپی یونین کے توسیعی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور سہ فریقی مشترکہ بیان نے متفقہ فریم ورک سے آگاہ کیا ہے۔

دوسری جانب سوئیڈن کی نیٹو میں رکنیت کی مخالفت کرنے والا ایک اور ملک ہنگری ہے۔

اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اس بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اسٹولٹن برگ نے کہا، ہنگری نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ منظوری دینے والا آخری ملک نہیں ہو گا تو اب ترکی کی حمایت کے بعد یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ