حامد نوری: سویڈن نے جنگی جرائم کے الزام میں ایک ایرانی شخص کو ایئرپورٹ سے کیسے گرفتار کیا؟
- جوشوا نیوٹ
- بی بی سی نیوز
سٹاک ہوم ایئرپورٹ میں آمد کے ٹرمینل پر سویڈن کی پولیس کسی اہم شخص کی توقع میں موجود تھی۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ ایران سے آنے والی پرواز میں ایک ایرانی اہلکار اور جنگی جرائم کے ملزم حامد نوری سوار ہیں۔
یہ بات حامد نوری کے علم میں نہیں تھی کہ پولیس کو اطلاع دی گئی ہے۔ مسٹر نوری کو نو نومبر سنہ 2019 کو ہوائی جہاز سے نکلتے ہی پولیس کی تحویل میں لے لیا گیا۔ اور پھر کچھ دیر بعد سویڈن کے ایک عہدیدار نے فون پر پیغام دیا: ’آپ ابھی گھر جا سکتے ہیں۔‘
کال وصول کرنے والا ہوائی اڈے پر ہی تھا اور گرفتاری کی تصدیق کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ وہ ان کئی لوگوں میں سے ایک تھا جن کی کاوشوں نے اس گرفتاری کو ممکن بنایا تھا۔
بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں ان میں سے ہر ایک نے ایک غیر معمولی کیس میں اپنے کردار کی وضاحت کی جو کہ ایران اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت کا حامل تھا۔
اس سے قبل سنہ 1988 میں ایران میں سیاسی قیدیوں کی اجتماعی پھانسی اور تشدد پر پہلے کبھی کسی کے خلاف مجرمانہ مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا۔ انھوں نے مسٹر نوری کو عالمی دائرہ اختیار کے بین الاقوامی قانون کے تحت گرفتار کیا تھا۔ اس وقت ان کے مقدمے کی سماعت سویڈن میں ہو رہی ہے۔
یہ جرائم مبینہ طور پر ایران اور عراق کی جنگ کے دوران کیے گئے تھے۔ جیسے ہی جنگ اپنے اختتام کے قریب پہنچی، ایران کے اس وقت کے سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نے تقریباً پانچ ہزار سیاسی قیدیوں کو پھانسی دینے کا حکم دیا تھا۔
ان میں سے بہت سے لوگ ایران کے عوامی مجاہدین گروپ سے منسلک تھے، جو کہ عراق سے وابستہ ایک اپوزیشن گروپ تھا۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس وقت مسٹر نوری تہران کے قریب ایک جیل میں تعینات تھے۔
اگست میں مسٹر نوری (بائیں سے دوسرے) کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی
یہ مقدمہ ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی کے لیے تکلیف دہ سوالات پیدا کر سکتا ہے جن کے بارے میں عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 1988 کے ’قتل عام میں ملوث ڈیتھ کمیشن کے رکن تھے۔‘
یہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے بھی ایک فیصلہ کن لمحہ ہے جنھوں نے پھانسیوں کے خلاف اور انصاف کے حصول کے لیے طویل مہم چلائی ہے۔ ان مہم چلانے والوں میں ایک ایرج مصداقی بھی ہیں جو ایک سابق ایرانی سیاسی قیدی ہیں اور سنہ 1988 کے قتل عام سے بچنے والوں میں شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایران میں قید کے دوران ناقابل بیان جرائم دیکھے۔
یہ ان کے ذہن میں کندہ ہو کر رہ گئے ہیں اور انھوں نے سنہ 1990 کی دہائی میں ایران چھوڑنے کے بعد سے ان کی زندگی کو تشکیل دینے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت سے بیرون ملک میں رہتے ہوئے وہ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات اس امید پر کرتے رہے ہیں کہ ایک نہ ایک دن مبینہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا موقع ملے گا۔
جب اکتوبر سنہ 2019 میں ایک ممکنہ موقع نظر آیا تو انھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کام کیا۔
جس دن مسٹر نوری کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی اس دن عدالت کے باہر مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نظر آئی
ایک نامعلوم ذرائع نے مسٹر مصداقی سے رابطہ کیا اور انھیں کچھ معلومات فراہم کیں۔ ذرائع نے بتایا کہ حامد نوری نامی ایک ایرانی شخص سویڈن جانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
مسٹر مصداقی اس نام سے واقف تھے۔ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اب انھیں کسے فون کرنا ہے۔
کاوے موسوی ایک تجربہ کار برطانوی و ایرانی انسانی حقوق کے وکیل ہیں۔ مسٹر مصداقی کے ساتھ فون پر ایک بار کی گفتگو اور پھر لندن میں ایک ملاقات نے مسٹر موسوی کو اس کیس کو لینے کے لیے راضی کر لیا۔
برسوں پہلے انھوں نے مغرب میں غیر رسمی طور پر مسٹر مصداقی سے کہا تھا کہ اگر ممکن ہوا تو وہ سنہ 1988 کے قتل عام کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ چلانے میں ان کی مدد کریں گے۔
اب مسٹر موسوی کو اپنا وعدہ پورا کرنا تھا۔
مسٹر موسوی نے کہا: ’اب سوال یہ تھا کہ سویڈش حکام کے ساتھ کس طرح اس کام کو ترتیب دیا جائے کہ بات ظاہر نہ ہو۔‘
دوسرے وکلا کے تعاون سے مسٹر موسوی نے گواہوں کے شواہد یکجا کیے اور ایک مجرمانہ شکایت تیار کی۔ دریں اثنا مسٹر نوری کے سفر کی خبر دینے والے نے اپنا نام نہ ظاہر کرتے ہوئے ان کے سفری منصوبوں کی تفصیلات شیئر کیں۔
ایران کی حزب اختلاف نے سنہ 2019 میں پیرس میں ایک مظاہرے کے دوران مرنے والوں کو یاد کیا تھا
ذرائع نے بتایا کہ مسٹر نوری خاندانی وجوہات کی بنا پر سویڈن کے سفر پر ہیں۔ لیکن انھیں یقین تھا کہ وہ سیر کے لیے کئی یورپی ممالک کا دورہ کرنے والے ہیں۔
ایک بار جب ان کی پرواز کی تاریخ معلوم ہو گئی تو مسٹر موسوی نے اپنی شکایت سویڈن کی عدالت میں پیش کی۔
اگلا مرحلہ گرفتاری تھا اور مسٹر موسوی کو یقین تھا کہ یہ عالمی دائرہ اختیار کے قوانین کے تحت مکمل کر لیا جائے گا۔
عالمی دائرہ اختیار اس خیال پر منحصر ہے کہ قومی عدالت کسی پر بھی ظلم کے لیے مقدمہ چلا سکتی ہے، اس سے قطع نظر کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے، اس نے جرم کا ارتکاب کہاں کیا ہے۔ انسانی حقوق کے وکلا کے لیے یہ قانون جنگی مجرموں کے احتساب کے لیے کارآمد ثابت ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سنہ 1961 میں سابق نازی بیوروکریٹ ایڈولف ایچ مین کا مقدمہ شاید اس کی سب سے مشہور مثال ہے۔ ہولوکاسٹ میں ان کے کردار کے لیے ان پر اسرائیل میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔ ابھی حال ہی میں جرمنی کی ایک عدالت نے ایک سابق شامی خفیہ پولیس افسر کو انسانیت کے خلاف جرائم میں مدد دینے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے پر مجرم قرار دیا ہے۔
نو نومبر سنہ 2019 کو اس اصول کو دوبارہ استعمال کیا گیا اور اس بار سویڈش عدالت ایسا کر رہی ہے۔
،تصویر کا ذریعہHANDOUT
مسٹر نوری نے تمام الزامات کو مسترد کر دیا ہے
مسٹر مصداقی نے کہا کہ جب تک وہ گرفتار نہیں ہوتے ’میں اس پر یقین نہیں کر سکتا تھا۔‘
ان شبہات کو رفع کرتے ہوئے پراسیکیوٹرز نے انھیں اطمینان دلایا۔ وہ مسٹر مصداقی کو مسٹر نوری کے مقدمے کی سماعت میں گواہی کے لیے بلائیں گے۔ ان کی گرفتاری کے تقریباً دو سال بعد کارروائی 10 اگست کو شروع ہوئی ہے۔
عدالت میں مسٹر مصداقی نے سنہ 1988 کی اجتماعی پھانسیوں کے دوران گوہردشت جیل میں اپنے تجربات کو یاد کیا۔ انھوں نے اور دیگر گواہوں نے مسٹر نوری کو اس میں ملوث بتایا ہے۔
اس کے برعکس مسٹر نوری کے وکلا کا کہنا ہے کہ انھوں نے مسٹر نوری کو کوئی اور سمجھ لیا ہے۔ انھوں نے 30 سال پہلے رونما ہونے والے مبینہ واقعات کو یاد رکھنے پر گواہوں کی صداقت پر سوال اٹھائے ہیں۔
جب اپریل سنہ 2022 میں مقدمہ اپنے اختتام پر پہنچے گا تو جج فیصلہ کریں گے کہ کون سے دلائل انھیں سب سے زیادہ قائل کرتے ہیں۔
Comments are closed.