سویڈن میں ایک بار پھر قرآن نذر آتش کیے جانے پر پُرتشدد مظاہرے، تین افراد گرفتار

سویڈن میں قرآن نذر آتش

،تصویر کا ذریعہREUTERS

  • مصنف, رتھ کمرفورڈ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

سویڈن میں قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے بعد پُرتشدد مظاہروں پر کم از کم تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اتوار کو عراقی نژاد شخص سلوان مومیکا کی جانب سے قرآن کو نذر آتش کیا گیا جس کے بعد صورتحال کشیدہ ہوئی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے مالمو میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کے الزام میں مجموعی طور پر 10 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ واقعے کے ردعمل میں سینکڑوں افراد جمع ہوئے اور کئی کاروں کو نذر آتش کیا گیا۔

سلوان مومیکا نے شہر کے مرکزی علاقے میں قرآن کو نذر آتش کیا تھا۔ ماضی میں بھی وہ متعدد اسلام مخالف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے چکے ہیں جس کے بعد مشرق وسطیٰ میں سفارتی تناؤ بڑھ گیا ہے۔

مشتعل مظاہرین کے ایک گروہ نے قرآن جلانے سے روکا جس پر ان کا پولیس کے ساتھ تصادم ہوا۔ افسران کے مطابق ان پر پتھر پھینکے گئے اور بعض مظاہرین نے تو پولیس کی گاڑیوں پر الیکٹرک سکوٹر بھی پھینکے۔

مالمو کے علاقے روزنگارڈ میں پولیس کی متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ یہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے جہاں ماضی میں بھی پُرتشدد مظاہرے ہوچکے ہیں۔

مالمو پولیس ایریا کمانڈر پیٹرا ستنکولا نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’مجھے معلوم ہے کہ ایسا عوامی اجتماع جذبات ابھارنے کا کام کرتا ہے لیکن ہم سنیچر کی شب جیسی بدامنی اور پُرتشدد واقعے کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘

’روزگارڈ میں تشدد اور توڑ پھوڑ دیکھنا بہت افسوسناک ہے۔‘

سویڈن میں قرآن نذر آتش

،تصویر کا ذریعہSHUTTERSTOCK

رواں سال سکینڈینیویا میں قرآن کو نذر آتش کرنے کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔ جون میں سلوان مومیکا نے عید الاضحیٰ کے پہلے روز سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن کے ایک نسخے کو نذر آتش کیا تھا۔

سویڈش پولیس نے ملک میں آزادی اظہار رائے کے قوانین کے تحت سلوان مومیکا کو مظاہرے کی اجازت دی تھی۔ بعد ازاں یہ اس حوالے سے بھی تحقیقات ہوئیں کہ آیا یہ واقعہ اشتعال انگیزی کا باعث بنا۔

جنوری میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’ہارڈ لائن‘ کے رہنما راسموس پالودان نے سٹاک ہوم میں ترک سفارتخانے کے باہر قرآن کا نسخہ نذر آتش کیا تھا۔

گذشتہ ماہ ڈنمارک میں بھی ایسے کئی واقعات سامنے آئے جس کے بعد وہاں کی حکومت نے مقدس کتب کی بے حرمتی پر پابندی کی منصوبہ بندی شروع کی۔

دوسری طرف سویڈن میں حکام نے کہا ہے کہ وہ قانونی راستے سے اس نوعیت کے مظاہرے روکنے کی کوشش کریں گے۔

سویڈن میں قرآن نذر آتش

،تصویر کا ذریعہJOHAN NILSSON/SHUTTERSTOCK

سویڈن میں قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعات

سٹاک ہوم میں پاکستانی صحافی عارف محمود کسانہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’سویڈن میں پہلی مرتبہ قرآن کو ملک کے سب سے بڑے شہر مالمو میں 28 اگست 2020 کو نذرِ آتش کیا گیا تھا۔ ایسا سویڈن کے سیاستدان راسموس پلوڈن نے کیا تھا۔‘

اس کے بعد سنہ 2022 کو ایسٹر کے موقع پر بھی پلوڈن نے سویڈن کے کئی شہروں میں یہ عمل دہرایا۔ 21 جنوری 2023 میں پلوڈن نے ترکی کے سفارتخانے کے سامنے پھر قرآن کو نذرِ آتش کیا۔

سنہ 2023 میں ہی 28 جون کو عین عید الضحیٰ کے روز سویڈن میں سیاسی پناہ لینے والے 37 سالہ عراقی شہری سلوان مومیکا نے بھی سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے قرآن کو نذرِ آتش کیا۔

سویڈن میں بڑھتا اسلامو فوبیا، وجہ کیا ہے؟

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

معرض وجود میں آنے کے بعد جیسے جیسے سویڈش سلطنت پھیلتی گئی، اسی طرح اس کے مذہبی خیالات بھی پھیلتے گئے۔ اگرچہ ابتدا میں سویڈن میں کیتھولک آبادی زیادہ تھی، لیکن یہ ملک 16ویں صدی میں لوتھرن پروٹسٹنٹ ملک بن گیا۔ جس کے بعد سنہ 1665 میں سویڈن نے اُس مذہب کو غیر قانونی قرار دے دیا جس پر وہ پہلے عمل پیرا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب کیتھولک مذہب کے ماننے والوں اور مسلمانوں کو ’حقیقی عیسائیت‘ کے دشمن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سویڈن میں سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ لبرل جذبہ بھی پیدا ہوا اور فی الحال ملک سیکولر قوانین کے تحت چل رہا ہے۔

سویڈش اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر عمر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سویڈن کے رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے جس کا اظہار نہ صرف انٹرنیٹ پر ملتا ہے جبکہ حقیقت میں یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی۔

قرآن نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعہ کے بعد اس ضمن میں مختلف نفرت انگیز سرگرمیوں کی تفصیلات بتائیں جیسا کہ سویڈن کی سڑکوں پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنا، مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچانا اور مساجد پر چھوٹے موٹے حملے۔

صحافی تسنیم خلیل ایک عرصے سے سویڈن میں مقیم ہیں اور سویڈش معاشرے سے ان کی شناسائی کافی گہری ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ ’ان واقعات کے پیچھے سیاست کارفرما ہے اور یہ کہ پورے یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے عروج کی جھلک سویڈن میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’سویڈن کی موجودہ حکومت ایک واحد بڑی پارٹی، سویڈن ڈیموکریٹس کی حمایت سے برسراقتدار ہے، جس نے گذشتہ انتخابات میں 20 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ انھوں نے 349 نشستوں والی پارلیمان میں 72 نشستیں حاصل کیں۔

’سویڈن ڈیموکریٹ پارٹی ماضی میں ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت تھی جو کبھی نازی نظریے پر یقین رکھتی تھی اور ایک حد تک، وہ اب بھی نسل پرست اور امیگریشن مخالف ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ