سوڈان میں لڑائی: خرطوم کی ’خوف زدہ‘ سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے؟
- مصنف, میٹ مرفی، کیلین ڈیولن، ڈینیئل پالمبو اور رچرڈ اروین۔براؤن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں زندگی کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔
جو شہر کبھی ایک متحرک میٹروپولیس ہوا کرتا تھا، اب اس کے رہائشی ایک وار زون میں رہ رہے ہیں۔ سوڈان کی فوج اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) سڑکوں پر وحشیانہ لڑائی لڑ رہے ہیں جبکہ ہیلی کاپٹر اور لڑاکا طیارے اوپر گرج رہے ہیں۔
شہر سے باہر آنے والی معلومات ناقص ہیں، اور صحافیوں کی رسائی ایسے ملک میں مشکل ہے جہاں میڈیا کی آزادی پہلے ہی محدود ہے۔
لیکن بی بی سی نے درجنوں ویڈیوز پر تحقیق کر کے لڑائی کا ایک نقشہ بنایا ہے، اور شہر کے پچاس لاکھ چالیس ہزار باشندوں میں سے کچھ سے بات کی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس طرح فضائی حملوں اور توپ خانے نے خرطوم کے دل کو تباہ کر دیا ہے۔
ان میں سے ایک، ڈالیا محمد عبدالمونیم نے کہا کہ ’خالی خوفزدہ سڑکوں‘ نے خرطوم کو ایک بھوتوں والے شہر کی طرح بنا دیا ہے، لوگ ’اپنے گھروں میں گھسے ہوئے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔‘
لڑائی شہریوں کو ان کے گھروں میں پھنسا دیتی ہے۔
بی بی سی نے سوڈان سے آنے والی ویڈیوز کی تصدیق کی ہے جیسے کہ مقامی موسمی نمونوں اور سڑکوں، چھتوں اور ندیوں سمیت نظر آنے والے نشانات کی پوزیشن۔
ہم بہت زیادہ آبادی والے علاقوں میں بندوق کی لڑائیوں اور ٹینکوں کے استعمال سمیت کچھ بھاری لڑائیوں کا پتہ لگانے میں کامیاب رہے ہیں۔
عام شہری بری طرح متاثر ہوئے ہیں کیونکہ بہت سے اہداف جیسے فوجی ہیڈکوارٹر اور صدارتی محل لوگوں کے گھروں کے قریب ہیں۔
بی بی سی ریسرچ کے مطابق یہ نقشہ 23 اپریل کا ہے
جیسا کہ آپ اوپر کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصویر سے دیکھ سکتے ہیں کہ تقریباً تمام وسطی خرطوم جو نیلے نیل کے جنوب میں واقع ہے، گنجان آباد ہے۔ اسی طرح شمالی خرطوم، جہاں لڑائی ہو رہی ہے۔
شمالی خرطوم میں مقیم ایک صحافی منظر بشیر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ’ہر طرف سے‘ دھماکوں کی آوازیں سن سکتے ہیں اور انھوں نے بدھ کو کم از کم چار افراد کو اس جگہ کے قریب گولی لگتے ہوئے دیکھا ’جس کنویں سے ہم پانی لاتے ہیں۔‘
خرطوم کی ایک رہائشی ہیبہ نے کہا کہ دھماکوں اور گولیوں کی آوازوں کے درمیان مختصر وقفہ ایسے لگتا ہے جیسے صدیوں کے لیے ہو۔ انھوں نے کہا کہ اب ہمیں جھڑپوں کی آوازوں سے زیادہ خاموشی کا خوف ہے، ’کیونکہ توقف کے بعد، اس سے بھی زیادہ زوردار دھماکے ہوتے ہیں۔‘
ذیل میں شہر سے پچھلے کچھ دنوں میں تین تصدیق شدہ ویڈیوز میں سے لی گئی تصاویر ہیں۔
سب سے پہلے، جمعہ کو خرطوم کے الصحفہ محلے کی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ وہاں ہوائی اڈے پر سیاہ دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ رہائشی لڑائی کے کتنے قریب ہیں: خرطوم کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ شہر کے عین وسط میں کئی رہائشی علاقوں، ہسپتالوں اور سکولوں کے قریب ہے۔
دوسرے میں، وسطی خرطوم میں السیتین سٹریٹ پر جمعہ کے اوائل میں ایک دھماکے کو فلمایا گیا ہے۔ اس علاقے میں دکانیں، ریستوراں، ایک مسجد، ایک سکول اور ایک کھیل کا میدان ہے۔
خرطوم انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے دھواں اٹھتا نظر آ رہا ہے
تیسرے میں، مسلح افواج کے سپاہیوں کو جمعہ کے روز خرطوم کے شمال میں المعنا گلی سے وسطی خرطوم کی طرف مارچ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ گلی میں کوئی گاڑیاں نہیں ہیں اور صرف دوسرے لوگ ہی رہائشیوں کے گروپ ہیں، جو فوجیوں کا استقبال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
مرکزی خرطوم میں کئی دھماکے سنے گئے ہیں
سوڈان میں عید الفطر کا مسلمانوں کا تہوار جمعہ کی صبح منایا گیا، ملک میں مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک کے اختتام کے موقع پر، رہائشیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ لڑائی ابھی جاری ہے۔
مشرقی خرطوم میں رہنے والے محسن دوہاب نے بی بی سی کو بتایا کہ آر ایس ایف کی تجویز کردہ 72 گھنٹے کی جنگ بندی پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
انھوں نے نیوز ڈے پروگرام کو بتایا کہ ’لوگ بھاری توپ خانے اور گولیوں کی وجہ سے نماز کے لیے نہیں جا سکتے… ہم سب کے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔‘
سوڈانی خرطوم میں فوجی مارچ کرتے ہوئے
خوراک اور پانی کم ہے
ہیبا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جو لوگ باہر جانے کی ہمت کرتے ہیں وہ اپنی بنیادی ضروریات کو حاصل کرنے کے لیے بھاگتے پھرتے ہیں‘ اور یہ کہ اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی کمی تھی۔ جو سامان سٹاک میں رہتا ہے وہ ان کی عام قیمت سے تین گنا زیادہ ہے۔
دھماکوں سے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے اور شہری پانی اور بجلی کے بغیر رہ رہے ہیں۔
خرطوم میں بہت سے لوگ، جن میں رمضان کے دوران بڑی تعداد میں روزے رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں، سفید دریائے نیل سے لڑائی کے دوران پانی لانے پر مجبور ہیں۔
دوہاب نے کہا کہ ان کا خاندان گزشتہ سات دنوں سے بغیر پانی کے زندہ رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’ہم بنیادی طور پر اجنبیوں کی مہربانی پر بھروسہ کر رہے ہیں۔‘
شمالی خرطوم کے متمول کافوری بلاک میں رہنے والے شاہد امجد نے کہا کہ حکومت کے دارالحکومت پر کنٹرول کے دعوے زمینی حقیقت سے میل نہیں کھاتے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہفتے کے شروع میں آر ایس ایف کے تین جنگجو مقامی وقت کے مطابق 02:00 بجے ان کے گھر میں گھس آئے تھے۔ ’انھوں نے ہمیں ہراساں نہیں کیا لیکن وہ اپنے کپڑے بدل کر چلے گئے۔ ہمیں صبح ان کی یونیفارم کی پتلونیں ملیں۔‘
ہسپتال اور ڈاکٹر مشکلات میں
اس دوران شہر کے ہسپتالوں کی صورتحال تشویشناک ہے۔ ڈاکٹروں نے بی بی سی کو بتایا کہ صحت کا نظام مکمل طور پر ناکامی کے دہانے پر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک یہ زخمی ہونے والے 3,500 سے زائد افراد کا علاج کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہسپتال فضائی حملوں کی زد میں آئے ہیں اور ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ فوج اور نیم فوجی دستوں کے درمیان لڑائی انھیں کام پر جانے سے روک رہی ہے۔
جمعرات کو میڈسان سانز فرنٹیئرز نے بی بی سی کو بتایا کہ شہر کے تین بڑے ہسپتال بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ بہاری ٹیکنیکل ہسپتال کو گولہ باری کے بعد بند کر دیا گیا ہے اور باقی دو، اُمِ درمان ٹیکنیکل ہسپتال اور خرطوم ٹیکنیکل ہسپتال، ’بمشکل ہی کام‘ کر رہے تھے کیونکہ ڈاکٹر ان تک نہیں پہنچ سکتے۔
سوڈانی ڈاکٹرز یونین (ایس ڈی یو) کے مطابق، خرطوم اور اس کے آس پاس کے 78 ہسپتالوں اور طبی مراکز میں سے صرف 23 کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایمبولینس کے عملے کے کم از کم پانچ اراکین ڈیوٹی کے دوران حملے کی زد میں آئے ہیں۔
ایس ڈی یو کی فراہم کردہ فہرست کا استعمال کرتے ہوئے، بی بی سی نے شہر کے مرکز میں ان ہسپتالوں کی نقشہ کشی کی ہے جنھیں مجبوراً بند کرنا پڑا ہے اور ساتھ ہی وہ کچھ جو کھلے ہوئے ہیں۔
ابن سینا ہسپتال کے ڈاکٹر علاؤالدین نوگود نے بی بی سی کو بتایا کہ شہر بھر میں افراتفری نے ’خرطوم میں صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ‘ کر دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’جس ہسپتال میں میں کام کر رہا تھا، وہاں پر کل ایک طیارے سے بمباری کی گئی، جس کی وجہ سے وہاں سے تمام مریضوں کو نکالنا پڑا۔‘
’اس کی وجہ سے میری (دوسروں کی) دیکھ بھال کرنے کی صلاحیت مکمل طور پر متاثر ہوئی ہے۔ میں لڑائی کی وجہ سے پچھلے دو دنوں سے ہسپتال نہیں پہنچ سکا ہوں۔‘
ایک اور طبیب، جن کا نام ڈاکٹر اسماء ہے، جنوبی خرطوم کے ترکش ٹیچنگ ہسپتال میں مقیم ہے۔ انھوں نے کہا کہ دو ہنگامی سیزرین سیکشنز کرنے کے بعد ان کا ہسپتال بجلی سے لے کر خون کی فراہمی تک ہر چیز کی قلت کا شکار ہے۔
ڈاکٹر بھی مریضوں کی دردناک کہانیاں سنا رہے ہیں۔
’مجھے لڑائی کے پہلے دن سے بہت سے کالز اور واٹس ایپ پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر اسماء نے کہا کہ ’ایک حاملہ خاتون نے کال کی تھی جسے دردِ زہ ہو رہا تھا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کتنے ہفتے کی حاملہ تھی، لیکن خوف کی وجہ سے اس کا خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ آخر کار اس عورت نے بچہ کھو دیا۔
فرار ہونے والوں کو بھی تشدد کا سامنا کرنا پڑا
جیسے جیسے لڑائی میں شدت آتی گئی بہت سے لوگوں نے شہر سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ لیکن باہر جانے کے راستے محدود اور خطرے سے بھرپور ہیں۔
ڈالیا محمد عبدالمنیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اہل خانہ کو (بدھ کو) جانا تھا، لیکن وہاں شدید لڑائی ہو رہی تھی اور ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری کاروں کو بھی نقصان پہنچا ہے، جس کی وجہ سے وہ دارالحکومت میں ہی پھنس گئے۔
جمعرات کو بی بی سی کے نامہ نگاروں نے دارالحکومت کے دو بس سٹیشنوں پر ہزاروں لوگوں کو جمع ہوتے دیکھا۔
خرطوم کو شمال مغرب سے ملانے والے اومدرمان کے السوق الشعبی بس سٹیشن پر پریشان شہری شمالی سوڈان کے لیے ٹرانسپورٹ کی تلاش کر رہے تھے۔
دوسرے لوگ وسطی خرطوم کے مینا البریری سٹیشن پر ملاقات کر رہے تھے، جہاں سے انھیں جنوبی اور وسطی سوڈان پہنچنے کی امید تھی۔
کچھ شہری شہر سے باہر جانے والی چند بسوں میں سوار ہونے میں کامیاب ہو گئے، جب کہ دیگر آگے کے سفر کے لیے فلیٹ بیڈ ٹرکوں پر چڑھ گئے۔
شہر سے باہر جانا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ بدھ کو ایک رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ آر ایس ایف نے دارالحکومت کے ارد گرد سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور نیم فوجی جنگجوؤں نے ان کا فون اور کچھ نقدی بھی چوری کر لی تھی۔
جنوبی خرطوم کی ایک رہائشی زیرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وسطی گیزیرہ ریاست میں ان کے رشتہ داروں نے انھیں لے جانے کے لیے ایک بس بھیجی تھی۔ انھوں نے کہا کہ آر ایس ایف کے عسکریت پسندوں نے اسے سڑک پر روکا اور اس کے کاغذات کی جانچ پڑتال کی لیکن اسے آگے جانے نہیں دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی چوکی پر حملہ ہوا۔ محسن دہاب نے بی بی سی کو بتایا کہ عسکریت پسندوں نے ان کے ایک ساتھی کو ان کے خاندان سمیت گولیاں مار کر اس وقت ہلاک کر دیا جب انھوں نے خرطوم شہر کے مرکز کے قریب ایک علاقے سے فرار ہونے کی کوشش کی۔
جو لوگ دارالحکومت سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان کے سامنے ایک غیر یقینی مستقبل ہے، جس میں تنازع کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔
گیزیرہ میں اپنے رشتہ داروں کے گھر سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے، زائرہ نے گزشتہ ہفتے کے افراتفری کا ذکر کیا۔
’میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں زبردستی گھر چھوڑ کر (آئی ڈی پی) انٹرنلی ڈسپلیسڈ پرسن ہو جاؤں گی۔
’لیکن شاید یہ وہی ہے جس کا میں نے اندازہ لگایا تھا۔ ہمارے پاس دعاؤں کے سوا کچھ نہیں بچا۔‘
Comments are closed.