- مصنف, باربرا پلیٹ اُشر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
17 ماہ تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کی وجہ سے سوڈان میں حالات خطرناک حد تک خراب ہو چُکے ہیں۔میں نے خواتین کے ایک ایسے گروہ سے بات کی جو دارالحکومت کے ایک حصے ام درمان کے کنارے فوج کے زیرِ انتظام علاقے کے ایک بازار تک پہنچنے کے لیے چار گھنٹے کا پیدل سفر کرتیں ہیں اور وجہ یہ ہے کہ یہاں پہنچنے کے بعد اُنھیں کھانے پینے کی اشیا سستی مل جاتی ہیں۔یہ خواتین دارالسلام سے آئی تھیں جو پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے زیر قبضہ علاقہ ہے۔انھوں نے مُجھے بتایا کے اب اُن کے شوہر گھر سے باہر نہیں نکلتے کیونکہ آر ایس ایف کے جنگجو نہ صرف اُنھیں مارتے پیٹتے ہیں بلکہ اُن سے وہ پیسے بھی لے جاتے ہیں جو وہ سارا دن محنت مزدوری کر کے اپنے گھر بار کے لیے کماتے ہیں، یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ انھیں حراست میں لے لیا جاتا ہے اور ان کی رہائی کے لیے پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
ان میں سے ایک نے مُجھے بتایا کہ ’ہم یہ سب اس لیے برداشت کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے بچوں کی پرورش کرنی ہے، یہاں خوراک کی کمی ہے ہم سب بھوکے ہیں اور ہمیں کھانے کی اشد ضرورت ہے۔‘انتباہ: اس تحریر میں موجود چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا ایسے میں خواتین مردوں سے زیادہ محفوظ ہیں؟ مطلب ریپ جیسے واقعات؟میرے اس سوال کے بعد آوازیں مدھم پڑ گئیں اور خوفناک خاموشی چھا گئی، پھر ان میں سے ایک بول پڑیں۔انھوں نے کہا کہ ’یہاں بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کا ریپ کیا گیا لیکن وہ اس کے بارے میں بات نہیں کرتی ہیں۔‘ جب انھوں نے مُجھ سے یہ بات کہی تو اس دوران اُن کے آنسو رواں تھے، اپنی گالوں سے آنسو پونچھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ویسے بھی اس سب سے کسی کو کیا فرق پڑے گا؟‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’آر ایس ایف والے کچھ لڑکیوں کو تو رات کے وقت گلیوں میں ہی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، اُن کا ریپ کرتے ہیں اور اگر انھیں اس بازار سے اپنے گھروں میں واپس لوٹنے میں دیر ہو جائے تو آر ایس ایف والے انھیں پانچ یا چھ دن کے لیے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔‘جب وہ یہ سب مُجھے بتا رہی تھیں تو اُن کی والدہ اور اُن کے ساتھ وہاں موجود دیگر خواتین بھی یہ سُن کر رونے لگیں۔انھوں نے مُجھ سے سوال کیا کہ ’جہاں آپ رہتی ہیں، اگر آپ کا بچہ باہر جاتا ہے اور واپس نہیں آتا تو کیا آپ اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیتی ہیں یا اُس کے پیچھے اُسے دھونڈنے جاتی ہیں؟‘ ’لیکن ہمیں بتائیں، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہمارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں، کسی کو ہماری پرواہ نہیں۔ دنیا کہاں ہے؟ آپ ہماری مدد کیوں نہیں کرتے؟‘یہ جگہ مایوسی، درد اور تکلیف سے بھرا ایک مُشکل مقام تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمسافروں نے بتایا کہ ایک ایسے تنازعے میں لاقانونیت، لوٹ مار اور بربریت کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ جس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے 10.5 ملین سے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا۔لیکن طویل تنازعے کی وجہ سے یہاں جنسی تشدد بہت بڑھ گیا ہے۔ جو فوج اور آر ایس ایف کے مابین کھینچا تانی کی وجہ سے شروع ہوا مگر اب مقامی مسلح گروہوں اور پڑوسی ممالک کے جنگجوؤں کو بھی یہ سب اپنی جانب راغب کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ ریپ کو ’جنگ کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے ایک حالیہ فیکٹ فائنڈنگ مشن نے فوج کے ارکان کی جانب سے ریپ اور ریپ کی دھمکیوں کے متعدد واقعات کو دستاویزی شکل دی لیکن اس سب میں سامنے یہ آیا کہ آر ایس ایف اور اس کے اتحادی جنگجوؤں کی جانب سے بڑے پیمانے پر جنسی تشدد کا ارتکاب کیا گیا اور یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔بی بی سی سے بات کرنے والی ایک خاتون نے آر ایس ایف پر ریپ کا الزام عائد کیا۔ہم ان سے ایک بازار میں ملے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ بازار ام درمان سے باہر ایک صحرائی سڑک پر بنجر زمین تک پھیل گیا، جو اپنی کم قیمتوں کے ساتھ غریب لوگوں کو اپنی طرف راغب کر رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہBBC/Ed Habershon
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.