سوڈان میں جاری جھڑپوں میں روز بروز شدت: پاکستانی شہریوں سمیت غیر ملکیوں کا انخلا جاری
سوڈان میں ہونے والی حالیہ جھڑپوں میں روز بروز شدت آنے کے باعث غیرملکی شہریوں کو ملک سے بحفاظت نکالنے کے لیے کئی ریسکیو آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ یہ آپریشن زمینی، فضائی اور بحری ذرائع سے کیے گئے ہیں۔
دارالحکومت خرطوم کا مرکزی ایئرپورٹ ان شدید جھڑپوں کا مرکز ہے اور یہ نیم فوجی گروہ آر ایس ایف کے زیرِ قبضہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انخلا کے بحیرہ احمر میں بندرگاہِ سوڈان کا رخ کیا جا رہا ہے جو خرطوم سے 850 کلومیٹر کی ڈرائیو پر واقع ہے۔
اس دوران متعدد ممالک نے اپنے شہریوں کو سوڈان سے نکالنے کے لیے آپریشنز کیے ہیں۔ سعودی عرب نے بحری جہاز کے ذریعے 150 افراد کا سوڈان سے انخلا ممکن بنایا جن میں غیر ملکی سفارتکار بھی شامل تھے۔
اس ریسکیو آپریشن میں متعدد پاکستانیوں کو بھی سعودی عرب کی جانب سے ریسکیو کیا گیا تاہم ان کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک فون کال کے ذریعے سعودی وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان کا پاکستانیوں کو ریسکیو کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
امریکہ اور برطانیہ نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ انھوں نے اپنے سفارت کاروں کا ملک سے انخلا یقینی بنا لیا ہے۔ فرانس، جرمنی، اٹلی اور سپین بھی سفارت کاروں کو سوڈان سے لے جانے کے لیے آپریشن میں تیزی لا چکے ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ ایک ہفتے سے بھی زیادہ عرصے کے دوران سوڈان میں ملک کی فوج اور نیمی فوجی دستوں کی جھڑپوں نے پورے ملک میں تشدد میں میں اضافہ کیا ہے۔
خرطوم میں موجود امریکی سفارت خانہ اب بند کر دیا گیا ہے اور ان کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ امریکی شہریوں کو ملک سے نکالنا حکومت کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
خرطوم میں موجود افریقی، ایشیائی اور مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی طلبا نے متعدد مرتبہ مدد کی اپیل کی ہے۔ اس دوران سوڈان میں انٹرنیٹ کی بندش کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں جن کے باعث ریسکیو سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
ان جھڑپوں کے باعث دارالحکومت میں شدید بمباری کی گئی ہے جس سے سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمیوں ہوئے ہیں۔
مسلسل ہونے والی ان جھڑپوں میں بمباری اور فائرنگ کے تبادلے کے باعث خرطوم میں عوام کو بجلی کی بندش اور کھانے اور پینے کے صاف پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
اس دوران متعدد اوقات میں کیے فائربندی کے معاہدوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور عید الفطر کے دوران تین روزہ وقفے کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔
سوڈان اور روسی کرائے کے قاتل
آج کل روس کی ایک نجی فوجی کمپنی ویگنر فورس کے بارے میں سوشل میڈیا پر چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں۔
یہ نجی کمپنی اس وقت یوکرین میں روسی فوج کے ساتھ لڑائی کا حصہ ہے لیکن اس نے سوڈان کے حالیہ تنازع میں کسی قسم کی مداخلت کی تردید کی ہے۔
ییوگینی پریگھوزن جن کے صدر پوتن کے ساتھ قریبی روابط ہیں، کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو برسوں سے ان کی کمپنی کا کوئی بھی جنگجو سوڈان میں موجود نہیں۔
بی بی سی کو روس کے ان کرائے کے قاتلوں کے سوڈان میں حالیہ مداخلت کے ثبوت نہیں ملے تاہم ویگنر کمپنی کی سوڈان میں سابقہ سرگرمیوں کے حوالے سے شواہد موجود ہیں اور اس گروپ کو امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے۔
سونے کی کان کنی کے معاہدے
سنہ 2017 میں سوڈان کے صدر عمر البشیر نے روسی حکومت کے ساتھ اپنے دورہ ماسکو کے دوران متعدد معاہدوں پر دستخط کیے۔ ان میں روس کے ساتھ بحیرہ احمر میں بندرگاہِ سوڈان پر روس کو بحری اڈہ قائم کرنے کی اجازت اور ’رعایتی نرخوں پر روسی کمپنی ایم انویسٹ کو سوڈان میں وزارتِ معدنیات کے ساتھ مل کر سونے کی کان کنی‘ کا معاہدہ شامل ہے۔
امریکی وزارتِ خزانہ کا دعویٰ ہے کہ ایم انویسٹ اور اس کا ذیلی گروپ میرو گولڈ دراصل سوڈان میں ویگنر گروپ کی سرگرمیوں کے فرنٹ کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔
سنہ 2020 میں سیکریٹری خزانہ سٹیون منچن نے بتایا تھا کہ ’ییوگینی پریگھوزن اور ان کا نیٹ ورک سوڈان کے قدرتی وسائل کا اپنے ذاتی مفادات کے لیے فائدہ اٹھا رہا ہے اور دنیا بھر میں برے اثرات ڈال رہا ہے۔‘
سی این این کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وسطی افریقی ملک سوڈان میں سونے کی تجارت زمینی راستوں سے کی جاتی ہے اور اس حوالے سے برآمدات کے تجارتی اعداد و شمار سرکاری طور پر فراہم نہیں کیے جاتے۔
ڈیلی ٹیلی گراف نامی اخبار کے مطابق گذشتہ برس سونے کی بڑی مقدار کو ملٹری ایئرپورٹس کے ذریعے سمگل کی جاتی تھی۔
ویگنر گروپ کا صرف سوڈان میں ہی نیٹ ورک موجود نہیں رہا بلکہ اس نے افریقہ کے دوسرے حصوں میں بھی فوجی اور تجارتی مفادات کو فروغ دینے میں کردار ادا کیا ہے۔
کیا ویگنر اہلکاروں کو حالیہ عرصے میں سوڈان میں دیکھا گیا؟
سنہ 2017 سے روسی اور بین الاقوامی ذرائع سے ایسی تصاویر شائع کی گئی ہیں جن میں روسی کرائے کے قاتلوں کی سوڈان میں موجودگی ثابت ہوتی تھی۔
ان تصاویر میں انھیں مختلف کردار ادا کرتے دیکھا جا سکتا ہے جن میں سوڈانی فوجیوں کی ٹریننگ یا مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کو مظاہروں پر کریک ڈاؤن کرنے میں مدد دینا شامل ہے۔ بی بی سی ان تصاویر کی تاحال آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔
سنہ 2021 میں ویگنر گروپ سے منسلک ایک ٹیلی گرام چینل نے گروپ کی ایسی تصاویر شائع کی تھیں جن میں گمنام اعلٰی ویگنر کمانڈر بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو سوڈان فوجیوں کو دو سال قبل منعقد ہونے والی ایک تقریب میں انعامات دے رہے ہیں۔ پھر جولائی 2022 میں اسی چینل نے ایک ایسی ویڈیو شائع کی جس میں مبینہ طور پر ویگنر گروپ کے افراد کو سوڈانی فوجیوں کے ساتھ پیراشوٹ لینڈنگ کی مشقیں کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔
ایک نامعلوم روسی کرائے کے قاتل کی انسٹاگرام پروفائل پر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ خود کو ایک ’فری لانسر‘ قرار دے رہے ہیں اور ایسی کہانیاں شیئر کر رہے ہیں جن میں وہ سنہ 2021 میں اگست اور اکتوبر میں سوڈان میں اپنی پوسٹنگ کے وقت کی کہانیاں بتا رہے ہیں۔ سنہ 2020 میں ویگنر کی جانب سے شائع کی گئی ایک پراپیگینڈہ فلم میں سوڈان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جہاں یہ گروپ کام کرتا ہے۔
سوڈان میں ویگنر کی موجودگی کتنی اہم ہے؟
امریکی وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ ویگنر گروپ نے ’نیم فوجی آپریشن کیے ہیں، آمرانہ حکومتوں کی بقا کے لیے ان کی حمایت کی ہے اور ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔‘
برطانیہ میں قائم رائل یونائیٹڈ سروس انسٹیٹیوٹ تھنک ٹینک کی ڈاکٹر جوانا ڈی ڈیئس پریرا کا ماننا ہے کہ اس گروپ کی مداخلت میں حالیہ برسوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
آغاز میں سنہ 2018 میں ان کے 100 سے زیادہ اہلکار سوڈانی فوج کو ٹریننگ دے رہے تھے اور پھر وقت کے ساتھ اس تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔
یہ بھی پڑھیے
سوڈانی میڈیا کی جانب سے شائع کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق ایک وقت پر یہ تعداد 500 تک تھی جن میں سے اکثر سوڈان کے جنوب مغربی شہر ام دافوق میں موجود تھے۔ یہ بھی
ویگنر فورسز نے سنہ 2019 میں صدر بشیر کو اقتدار میں رکھنے کے لیے بھی کوشش کی تھی جب انھیں اقتدار میں رہتے ہوئے مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر انھیں اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔
سوڈان ٹریبیون نے اس وقت رپورٹ کیا تھا کہ ’روسی جنگجوؤں‘ کو حکومت مخالف مظاہرین کی نگرانی کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا تاہم اس دعوے کی سوڈانی حکام نے تردید کی تھی۔
سوڈان میں ویگنر گروپ کی حمایت کون کرے گا؟
مصنف ڈاکٹر سیمیول رامینی کے مطابق ویگنر گروپ نے اپنے میڈیا مواد کے ذریعے صدر بشیر کو اقتدار میں برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ییوگینی پریگھوزن مظاہرین کو اسرائیل کے حامی اور اسلام مخالف کہلوانا چاہتے تھے۔‘
اس کے باعث صدر کی اپنی سکیورٹی فورسز کے درمیان تناؤ میں اضافہ دیکھنے کو ملا، یوں ویگنر نے اپنی حمایت اس شخص کے طرف بدل دی جس نے عمر البشیر کو ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، یعنی جنرل عبدالفتح البرہان۔
کیا ویگنر ریپڈ سپورٹ فورسز کے ساتھ بھی منسلک ہے؟
ڈاکٹر رامانی کے مطابق سنہ 2021 اور 2022 میں ویگنر گروپ نے ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے ساتھ اپنے روابط بڑھائے جو آج سوڈان کی فوج سے لڑائی لڑ رہی ہے۔
پریگھوزن ان کانوں کے ذریعے مزید سونا حاصل کرنا چاہتے تھے جو آر ایس ایف رہنما محمد حمدان دگالو (حمیدتی) کے پاس تھیں تاہم ایک نجی تھنک ٹینک میں موجود سوڈان کے حالات پر نظر رکھنے والی خولود خیر کا ماننا ہے کہ ویگنر گروپ حالیہ تنازع میں کسی بھی ایک فریق کی حمایت نہیں کر رہا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ویگنر کے جنرل البرہان کی کمپنیوں کے ساتھ بھی روابط ہیں اور حمیدتی کی کمپنیوں کے ساتھ بھی، بس اس کی نوعیت مختلف ہے۔‘
Comments are closed.