سوڈان میں فوجی بغاوت: فوج اقتدار پر غیرآئینی قبضہ کر کے ملک کے مستقبل پر جوا کیوں کھیل رہی ہے؟
- ایلکس ڈی وال
- تجزیہ کار، امورِ افریقہ
سوڈان میں فوجی بغاوت کے مرکزی رہنما جنرل عبدالفتح البرہان تاریکی میں چھلانگ لگا چکے ہیں۔
حکومت کا تختہ الٹ کر انھوں نے نہ صرف بین الاقوامی برادری میں سوڈان کی نوزائیدہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ بیین الاقومی امداد اور قرضوں میں چھوٹ کی سہولت کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ دارفور اور نُوبا کے پہاڑوں میں برسرپیکار باغیوں کے ساتھ امن کے امکانات کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
گذشتہ پیر کو طاقت اپنے ہاتھ میں لینے سے پہلے تک وہ سوڈان کی ساورن (خود مختار) کونسل کے سربراہ تھے اور یوں عوامی سطح پر عسکری طاقت اور سویلین نمائندوں کی مشترکہ حکومت کا چہرہ بھی وہی تھے۔
پیر کو جنرل عبدالفتح البرہان نے ملک کی سویلین کابینہ کو تحلیل کر دیا اور وزیراعظم عبداللہ حمدوک سمیت ان تمام سرکردہ غیرفوجی شخصیات کو گرفتار کر لیا جن کے ساتھ وہ اتفاق کر چکے تھے کہ اگلے سال انتخابات تک دونوں فریق مل کر کام کریں گے۔
لیکن ان کی مطلق العنانی کی خواہشات کسی سے پوشیدہ نہیں تھیں۔
گذشتہ چند ماہ میں انھوں نے دکھا دیا تھا کہ وہ مسٹر حمدوک سے تنگ آ رہے تھے جس سے یہ اشارے ملنا شروع ہو گئے تھے کہ سوڈان کو بچانے کے لیے اب ایک طاقتور حکمران کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں دارالحکومت خرطوم میں فوج کی پشت پناہی سے ہونے والے مظاہروں میں شرکا نے اپنے گرتے ہوئے معیارِ زندگی کا ذمہ دار وزیر اعظم حمدوک کو قرار دیا اور ملک کے مشرق میں واقع بندرگاہ کی بندش کی وجہ سے مخلف اشیا کی قیمتوں میں جو اضافہ ہو چکا تھا، اس نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔
مظاہرین کا عزم ہے کہ فوج لوگوں کو اس انقلاب کی راہ سے زبردستی نہیں ہٹا سکتی جس کا آغاز سنہ 2019 میں ہوا تھا
سوڈان میں جمہوریت پسند لوگوں میں فوج کی جانب سے مختلف ہتھکنڈوں اپنانے کا خدشہ موجود تھا اور جب گذشتہ ہفتے حکومت کا تختہ الٹا گیا تو انھیں کوئی حیرت نہ ہوئی کیونکہ مصر میں جب سنہ 2013 میں عبدالفتح السیسی کی حکومت کو چلتا کیا گیا تھا، اس وقت وہاں بھی فوج نے ہو بہو یہی کیا تھا۔
حالیہ عرصے میں سوڈان پروفیشنلز ایسوسی ایشن سمیت کئی ایسی سماجی تنظیموں نے ایک مرتبہ پھر خرطوم کی سڑکوں پر اسی قسم کے پُرامن مظاہروں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا تھا جن کے نتیجے میں 2019 میں صدر عمرالبشیر کے بیس سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا۔
گذشتہ ہفتوں کے دوران غیر ملکی سفارتکار بھی پریشان تھے۔ گذشتہ ہفتے کے آخری دنوں میں امریکہ کے خصوصی ایلچی جیفری فیلڈمین بھی جرنیلوں اور سویلین رہنماؤں کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنے کے عزم کے ساتھ خرطوم آئے۔ جب وہ اتوار کو واپس گئے تو ان کے خیال میں دونوں فریق ایک معاہدے پر متفق ہو چکے تھے۔
لیکن ان کی روانگی کے چند ہی گھنٹے بعد حکومت کی چُھٹی کروا دی گئی، جس پر امریکیوں کے ہاں مایوسی اور غصہ عیاں تھا۔
یوں جب امریکی انتظامیہ پر واضح ہو گیا کہ جرنیلوں نے انھیں دھوکہ دے دیا ہے تو انھوں نے ستر کروڑ ڈالر کا امدادی پیکج فی الوقت ’روک‘ دیا ہے۔
ادھر عالمی بینک نے سوڈان کے لیے مختص امداد کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افریقی یونین پہلے ہی سوڈان کی رکنیت معطل کر چکا ہے۔
امداد کی اچانک معطلی کے باعث سوڈان کی پہلے سے ہی کمزور معیشت کو مزید سختیاں برداشت کرنا پڑے گی۔
امریکی امداد سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم حمدوک نے حال ہی میں سوڈان کا قرضہ معاف کرنے کے حوالے سے جو مذاکرات کیے تھے ان کا کیا ہو گا۔ دو سال کی درد ناک تاخیر کے بعد سوڈان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے جس بین الاقوامی امداد کے امکانات روشن نظر آ رہے تھے، اب وہ بھی خطرے میں نظر آ رہی ہے۔
افریقی یونین، اقوام متحدہ، مشرقی افریقی ممالک کی تنظیم ’ایگاد‘ (بین الاقوامی اتھارٹی برائے ترقی) اور سوڈان کو امداد دینے والے تمام مغربی ممالک نے بھی فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے سوڈان میں غیر فوجی حکومت کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد سوڈان میں پرتشدد مظاہرے جاری ہیں
اس کے علاوہ عرب لیگ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ سوڈان میں آئینی فارمولے کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ یہ تنظیم عموماً وہی کہتی ہے جو مصری حکومت کا موقف ہوتا ہے، جس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا جنرل برہان قاہرہ کی جانب سے کسی حمایت پر تکیہ کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جنھوں نے جنرل برہان کو سنہ 2019 میں معاشی امداد سے نوازا تھا، وہ دونوں ابھی تک خاموش ہیں۔
شاید ان دونوں کی ہمدردیاں طاقتور جرنیل کے ساتھ ہوں لیکن دونوں ممالک یہ بھی جانتے ہیں کہ سوڈان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے انھیں کس قدر اخراجات اٹھانا پڑیں گے۔
حالیہ بغاوت سے پہلے بھی جنرل برہان سوڈان کی سب سے طاقتور شخصیت تھے اور اگست 2019 میں فوج اور سویلین تنظیموں کے اتحاد، فورسز فور فریڈم اینڈ چینج، کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد سے مشترکہ حکومت میں ان کے کردار کو بھی جائز قرار دیا جا چکا تھا۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ اقتدار پر یوں کھلم کھلا قبضہ کرنے کا خطرہ کیوں مول لے لیں گے؟
کاروباری مفادات
اِس معاہدے کے تحت جنرل برہان کو اگلے ماہ ساورن کونسل سے سبکدوش ہو جانا تھا۔
معاہدے کے مطابق اُس وقت ایف ایف سی کے کسی منتخب نمائندے کو سربراہ مملکت بننا تھا جس کے بعد سویلین حکومت اپنے ایجنڈے کے بڑے بڑے نکات پر عمل کرنے کے قابل ہو جاتی۔
ان میں ایک بڑا نکتہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احتساب کرنا تھا۔ یاد رہے کہ سوڈان کی حکومت ماضی میں وعدہ کر چکی ہے کہ وہ سابق صدر عمرالبشیر کو جرائم کی بین الاقوامی عدالت (انٹرنیشل کرمنل کورٹ) کے حوالے کر دے گی۔
لیکن جنرل برہان اور پارلیمان کی ریپِڈ سپورٹ فورسز کے جنرل محمد ہمدان سمیت، سابق صدر عمرالبشیر کے تمام ساتھیوں کی خواہش رہی ہے کہ سابق صدر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ سوڈان میں ہی مقدمہ چلایا جائے۔
سابق صدر کے ان ساتھیوں کا یہ خوف بجا ہے کہ اگر عمرالبشیر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے کر دیا گیا تو وہ دارفور کی لڑائی میں کیے جانے والے مبینہ مظالم کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کا نام بھی لے لیں گے۔
جنرل برہان اور ان کے ساتھیوں کو یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر سنہ 2019 میں خرطوم میں ہونے والی قتل وغارت کی تفتیش کا معاملہ سامنے آیا تو اس سلسلے میں بھی ان ہی لوگوں پر انگلیاں اٹھیں گی۔
خرطوم میں یہ قتل وغارت فوج کی طرف سے عمرالبشیر کو اقتدار سے الگ کرنے کے دو ماہ بعد ہوا تھا جب پرامن مظاہرین ملک میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
جرنیلوں کو اس بات نے بھی پریشان کر دیا تھا کہ سویلین حکومت بدعنوانی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ دفاعی شعبے میں اصلاحات کے ایجنڈے پر بھی عمل کرنا چاہتی تھی۔
مثلاً اس مشکل نام کو ہی لے لیجیے: ’کمیشن برائے انہدامِ تین جون 1989 حکومت، انسدادِ اختیارات و بدعنوانی و وصولی سرکاری رقوم۔‘
یہ کمیشن نہ صرف سوڈان کی ان کمپنیوں کے جال کو جڑ سے اکھاڑنے کا کام کر رہا تھا جو ملک کی ان ’اسلام پسند‘ طاقتوں نے اپنے مفادات کے لیے بنائی ہوئی تھی جنھیں سنہ 2019 میں اقتدار سے الگ کر دیا گیا تھا، بلکہ اس کے تانے بانے ان بڑے بڑے کاروباری اداروں سے بھی ملتے تھے جن کے مالک فوجی جنرل تھے۔
گذشتہ عرصے میں مسٹر حمدوک نے معاشی معاملات میں فوج کی دخل اندازی کے خلاف کھل کے بولنا شروع کر دیا تھا۔
گذشتہ برسوں میں (اور اب بھی) نہ صرف سوڈان میں قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوج کو جاتا رہا ہے بلکہ فوج کی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ بھی حاصل رہی ہے اور انھیں اکثر ٹھیکوں میں کرپشن کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔
اس کے علاوہ یہ منصوبہ بھی اپنی جگہ موجود تھا کہ حکومت کے عبوری دور کے اگلے مرحلے میں فوج کو باقاعدہ سویلین کنٹرول کے تابع لایا جائے گا۔
بغاوت کا خطرہ
جرنل برہان اور وزیر اعظم حمدوک
جنرل برہان کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت کی جانب سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں اور انھوں نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ٹیکنوکریٹ افراد پر مشتمل سویلین حکومت بنائیں گے اور دو سال میں عام انتخابات بھی کرائیں گے۔
اکثر سوڈانی سمجھتے ہیں کہ یہ محض ایک دکھاوا ہے۔
گذشتہ دنوں میں ان مزدوروں اور دیگر غیر سرکاری ملازمین کی تنظیموں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جنھوں نے ماضی میں مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔ گذشتہ ہفتے سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو بند کر دیا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق مظاہرین پر فوجیوں کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں دس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دارفور کے علاقے میں عبدلواحد النوری کی قیادت میں سوڈان لبریشن موومنٹ جبکہ جنوبی کروفان میں نوبا کے پہاڑوں میں سوڈان لبریشن موومنٹ برسرپیکار ہے جس کی قیادت عبدالعزیز الہِلو کر رہے ہیں۔
ان دونوں کو عوامی حمایت حاصل ہے اور وہ مسلح مزاحمت کا مظاہرہ بھی کر چکی ہیں۔ دونوں رہنما حکومت کے ساتھ امن مذاکرات بھی کر رہے تھے اور انھیں مسٹر حمدوک پر اعتماد بھی تھا۔ لیکن اب بغاوت کے بعد خدشہ ہے کہ ان علاقوں میں ایک مرتبہ پھر شورش سر اٹھانے لگے گی۔
طاقت پر غیر آئینی قبضہ کر کے جنرل برہان ایک بڑا جُوا کھیل چکے ہیں۔
اور وہ سوڈان کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے پاس معیشت، جمہوریت کی بحالی اور ملک میں امن جیسے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے اور یوں وہ ملک کے اندر افراتفری اور قتل وغارت جبکہ ملک کے باہر مکمل تنہائی کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔
جب سنہ 2019 میں فوج نے جمہوریت کی بحالی کی تحریک کو بری طرح کچلا تھا تو اس وقت امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے چار رکنی اتحاد نے پس پردہ رہتے ہوئے افریقی یونین کے توسط سے مذاکرات کے ذریعے ایک حل نکال لیا تھا جس پر اگلے ہی ماہ عمل ہونا شروع ہو گیا تھا۔
شاید سوڈان کو کھائی میں گرنے سے بچانے کے لیے اس مرتبہ بھی اسی قسم کے کوشش کی ضرورت ہے، کیونکہ گذشتہ پیر کے واقعات کے بعد اب جنرل برہان پر کون اعتبار کر سکتا ہے؟
ایلکس ڈی وال امریکہ کی ٹفٹ یونیورسٹی سے منسلک ورلڈ پِیس فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔
Comments are closed.