روس کی تاریخ کو تبدیل کرنے آنے والے اس شخص کو بیک وقت لوگ سراہتے بھی تھے اور ان سے ڈرتے بھی تھے۔لینن جس وقت پیدا ہوئے اس وقت روس میں بادشاہت کا نظام نافذ تھا اور انھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے ملک سے باہر گزارا۔لیکن سنہ 1917 میں ان کی روس واپسی نے اس ملک کو ہلا کر رکھ دیا جو اس وقت انقلاب کے دہانے پر کھڑا تھا۔لیکن وہ سات برس سے بھی کم عرصے میں روس میں انقلاب لانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ ان کے نظریات دراصل تھے کیا؟ ان سوالات کے جوابات آج بھی ڈھونڈے جا رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک جماعتی ریاست؟
لینن سنہ 1870 میں دریائے وولگا کے کنارے واقع ایک چھوٹے سے قصبے سمبرسک میں پیدا ہوئے تھے۔ بعدازاں لینن کے اعزاز میں اس قصبے کا نام تبدیل کرکے اولیانووسک رکھ دیا گیا تھا۔ایک امیر خاندان میں پیدا ہونے والے لینن کم عمری سے ہی باغی سوچ کے مالک تھے، لیکن ایک واقعے نے ان کے دماغ میں سامراج مخالف سوچ کو پروان چڑھایا، اور وہ واقعہ تھا ان کے بھائی الیگزینڈر کا قتل۔ان کے بھائی الیگزینڈر کو سنہ 1887 کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ ان پر روسی سلطنت کے اس وقت کے بادشاہ الیگزینڈر سوئم کو قتل کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔اس وقت کی روسی سلطنت میں شہریوں کے لیے زندگی گزارنا آسان نہیں تھا، خاص طور پر زراعت کے پیشے سے منسلک افراد انتہائی غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔اسی تناظر میں سنہ 1985 میں لینن نے پہلا انقلابی قدم اُٹھایا اور ’سوشل ڈیموکریٹک‘ تحریک کے پرچار اور فروغ دینے کے الزام میں جیل چلے گئے۔ لینن کو ایک برس بعد ہی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا لیکن اپنی رہائی کے بعد بھی انھیں تقریباً تین برس سائبیریا میں جلاوطنی میں گزارنے پڑے۔پھر وہ سنہ 1900 تک جنیوا پہنچ چکے تھے جہاں انھوں نے دیگر سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر ایک نئے منصوبے پر کام شروع کیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
تشدد اور جبر
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس زمانے میں واپس جانا پڑے گا جس نے روس کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا اور اس سب کی شروعات 1917 میں ہوئی تھی۔اس وقت لینن جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور روسی عوام کی حالت بد سے بدتر ہو رہی تھی۔ ملک کے دیہی علاقوں میں قحط پڑا ہوا تھا اور صنعتی کارکنان کو بھی مختلف اشکال میں جبر کا سامنا تھا۔ جنگِ عظیم اول میں روس کی شرکت نے عوام کی زندگیاں اور مشکل کر دی تھیں۔سنہ 1917 میں بغاوت کے سبب روسی بادشاہ نکولس دوئم انتہائی غیرمقبول ہو چکے تھے اور بالآخر انھیں بادشاہت ختم کرنا پڑی اور اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد وہاں ایک عارضی حکومت وجود میں آئی اور مینشیوکس بھی اس کا حصہ بنے۔لیکن جلد ہی اس حکومت کو نام نہاد پیٹروگراڈ سوویت کے ہاتھوں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پروفیسر جولین کیسانوا کے مطابق اس وقت پیٹروگراڈ سوویت بالشویک شخصیات کے زیرِ اثر تھا اور ان کا روس میں بادشاہت کے خاتمے میں کوئی خاص کردار بھی نہیں تھا۔فروری 1917 میں آنے والے انقلاب کی خبر سُن کر لینن سوئٹزرلینڈ سے ٹرین کے ذریعے جرمنی، سویڈن اور فِن لینڈ کو عبور کرتے ہوئے روس پہنچے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
- دنیا میں لینن کے پانچ مجسمے6 مار چ 2018
- مساجد کے چندے سے لینن کے مجسمے کی مرمت9 ستمبر 2018
- لینن کی لاش پر سالانہ خرچ دو لاکھ ڈالر14 اپريل 2016
روس کو پہلی عالمی جنگ سے باہر نکالنے کے ساتھ ساتھ لینن نے وہاں امن قائم کرنے کے وعدے کو بھی پورا کیا۔تین مارچ سنہ 1918 میں روس، جرمنی، آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جس کے تحت پہلی عالمی جنگ میں روس کی شرکت اختتام کو پہنچی۔لیکن یہ امن زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوا اور اکتوبر کے انقلاب کے بعد روس میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہاں بالشویک اقتدار کو ہر کوئی تسلیم نہیں کرتا تھا۔درحقیقت انقلاب کے بعد روس میں مختلف گروہوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہوگئی تھی اور یہ تمام گروہ روس کے مستقبل کو اپنے اپنے نظریات کے سائے تلے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔اس لڑائی میں ایک طرف لینن کی قیادت میں بالشویک کی ریڈ آرمی تھی جو کہ سوشل ازم کے لیے لڑ رہی تھی، دوسری طرف وہ گروہ تھا جو کہ ان کے مقابلے میں زیادہ روشن خیال تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
بین الاقوامی کمیون ازم
لینن اس وقت دُنیا بھر میں چلنے والی سوشلسٹ تحریکوں سے بہت متاثر تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں ’بین الاقوامی سوشل انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا تھا۔یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ لینن دراصل کارل مارکس کے پیروکار تھے اور وہ سوشل ازم کو روس سے باہر بھی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔اس خواب کو پورا کرنے کے لیے سنہ 1919 میں لینن اور کارل مارکس سے انسیت رکھنے والی دیگر شخصیات نے ’کمیونسٹ انٹرنیشل‘ کی بنیاد رکھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.