سواستکا: خوش قسمتی کی قدیم علامت کو ہٹلر نے کیوں چنا،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنہٹلر اور سواستکا
2 گھنٹے قبلصدیوں سے ’سواستک‘ یا ’سواستکا‘ ہندو، جین اور بدھ مت کے لیے ایک مقدس علامت رہی ہے۔ یہ نشان خوش قسمتی اور خوشحالی کی نمائندگی کرتا ہے جس کا استعمال تہواروں اور مذہبی تقریبات میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ سواستکا نہ صرف انڈیا بلکہ پوری دنیا میں ایک مقبول علامت ہے۔سنہ 1940 کی دہائی تک یہ علامت یا نشان مغربی ممالک میں بھی وسیع پیمانے پر نظر آتا تھا اور مقبول تھا۔ اسے وہاں بھی خوش بختی اور خوشحالی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔پھر ہٹلر نے نازی جرمنی کے جھنڈے پر ہیکنکروس (Hakenkreuz) یا مڑے ہوئے کراس کا استعمال کیا جس کی شکل سواستکا سے ملتی ہے اور آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ سمیت مغربی ممالک میں اب اسے اشتعال انگیز علامت کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ نشان مغربی ممالک کے باشندوں خصوصاً یہودیوں میں ہولوکاسٹ کی دردناک یادوں کی علامت بن گیا۔

لیکن سواستکا ہے کیا اور ہٹلر نے اسی علامت کو نازی پارٹی اور جرمنی کے لیے کیوں چنا؟ ،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنہندو اس کا استعمال مختلف مواقع پر کرتے ہیں جیسے نئے گھر میں آباد ہونے کے وقت

’سواستکا‘ کا کیا مطلب ہے؟

ہندو، جین اور بدھ مت میں مقبول لفظ ’سوستک‘ دو سنسکرت الفاظ ’سو‘ اور ’استی‘ یا ’استھی‘ سے ماخوذ ہے۔ ’سو‘ کا مطلب ’صحت‘ ہے اور ’استی‘ کا مطلب ’ہونے دو‘ ہے۔ اس کا علامتی نشان آٹھ دائیں زاویوں کے ساتھ کی ایک شکل ہے، جس میں ایک عمودی لکیر درمیان میں ایک افقی لکیر سے ایک دوسرے کو کاٹتی ہے، اور ان کے چار سروں سے پھیلی ہوئی لکیریں ہیں۔ سواستک بناتے وقت اس میں چار جگہیں چھوڑ دی جاتی ہیں اور ان میں نقطے لگا دیے جاتے ہیں۔اس علامت کو مقدس کتابوں، دکانوں، گاڑیوں، بچوں کے نام رکھنے اور شادی بیاہ کی تقریبات میں استعمال کیا جاتا ہے اور ہندو عقیدے کے مطابق بھگوانوں سے فلاح و بہبود کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں۔بہت سے تصورات جیسے چار سمتیں، چار موسم، چار یوگ، چار صحیفے، زندگی کے چار مقاصد (اچھائی، دولت، عیش و عشرت، گھر)، زندگی کے چار مراحل (بچپن، ازدواجی زندگی، بزرگی، سنیاسی) اس علامت سے وابستہ ہیں۔’دی لاسٹ وزڈم آف سواستک‘ کے مصنف اجے چترویدی کے مطابق ’ویدک ریاضی میں ستیو کا مطلب چار کونوں والا مکعب ہے۔ یہ ہندو فلسفہ کے مطابق جاگنے، سونے اور خواب دیکھنے کے علاوہ چوتھی حالت کی نمائندگی کرتا ہے۔‘جاپان میں بدھ مت کے ماننے والوں میں اس علامت کو ’مانسی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو گوتم بدھ کے قدموں کے نشانات کی نمائندگی کرتا ہے۔چترویدی کے مطابق ہٹلر نے ہندو فلسفے میں اس کی اہمیت یا معنی کو سمجھے بغیر اس سواستک علامت کو صرف سیاست کے لیے استعمال کیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنجرمنی کی نازی پارٹی نے سنہ 1920 میں اسے اپنے پرچم میں شامل کیا تھا

’ہیکنکروس‘

سنہ 1871 میں جرمن ماہر آثار قدیمہ ہینرخ سسلیمین نے قدیم شہر ٹرائے (موجودہ ترکی میں) کی کھدائی کے دوران مٹی کے برتنوں پر تقریباً 1,800 قسم کے ’سواستک‘ کے نشانات پائے۔ ماہر بشریات گیوینڈولین لیک نوٹ کرتے ہیں کہ ٹرائے کے باشندے آریائی تھے اور یہ کہ ان مٹی کے برتنوں میں پائی جانے والی مماثلتوں نے نازیوں کو یقین دلایا کہ وہ آریائی ہیں اور یہ ان کے درمیان نسلی تسلسل کے شواہد ہیں۔ہٹلر کا اپنی پارٹی کے نشان کے طور پر سواستک کو اپنانے کی بنیادی وجہ جرمن زبان اور سنسکرت کے درمیان مماثلت کو سمجھا جاتا ہے۔اسی مماثلت کے ذریعے نازیوں نے جرمنوں کو یہ باور کرایا کہ انڈین اور جرمن ایک ہی ’خالص‘ آریائی نسل کے ہیں۔سنہ 1920 میں جب ایڈولف ہٹلر اپنی نئی پارٹی کے لیے نشان تلاش کر رہے تھے تو انھوں نے ’ہیکنکروس‘ یا دائیں بازو والے سواستک کا استعمال کیا۔ 1933 میں ہٹلر کے پروپیگنڈا کے وزیر جوزف گوئبلز نے ایک قانون پاس کیا جس میں ’سواستک‘ یا ’سواستکا‘ کے تجارتی استعمال پر پابندی لگائی گئی۔جرمنی کے سپریم لیڈر ایڈولف ہٹلر نے اپنی سوانح عمری ’مین کیمف‘ کے ساتویں باب میں نازی پرچم کے انتخاب، اس کے رنگوں اور علامتوں کا ذکر کیا ہے۔ ہٹلر کے مطابق نیا جھنڈا ’تیسری (جرمن) ریخ‘ کی نمائندگی کرتا ہے۔نازی پارٹی کا پرچم 1920 کے موسم گرما کے وسط میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس میں سرخ پس منظر پر سفید دائرے کے اندر ایک سیاہ ’ہیکن کراس‘ نمایاں تھا جس کا سرخ رنگ سماجی تحریک کی علامت تھا، سفید رنگ قوم پرستی کے تصور کی نمائندگی کرتا تھا جبکہ سواستک آریاؤں کی جدوجہد اور فتح کی علامت تھا۔’فرام گلوٹنی ٹو جینوسائیڈ: دی سائن آف دی کراس‘ میں ڈاکٹر ڈینیئل رینکر لافرر نے لکھا ہے کہ ہٹلر نے اپنا بچپن آسٹریا میں ایک بینیڈکٹائن مونٹیسری میں گزارا جہاں ایسی کئی جگہیں ہیں جہاں ’سواستک‘ کندہ ہے۔ ان کے خیال میں اسی لیے انھوں نے اپنے بچپن کی یاد کے طور پر اس علامت کا انتخاب کیا ہوگا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے اس جھنڈے تلے تقریباً 60 لاکھ افراد کو قتل کیا، جن میں یہودی، معذور افراد، رومی اور سنٹی (یا رومانیہ کے لوگ)، سیاہ فام، سلاوک، ہم جنس پرست، سوویت اور پولش لوگ شامل تھے۔اسی لیے جرمنی اور نازیوں کے زیر قبضہ یورپ میں ہولوکاسٹ میں مرنے والے لاکھوں یہودیوں کے لیے ’ہیکنکروس‘ ایک ایسی علامت کا روپ دھار گیا جو خوفناک یادوں کو تازہ کرتا ہے۔حالیہ برسوں میں اس علامت کو ’نیو نازیوں‘ اور بہت سے سفید فام بالادستی کے حامی استعمال کرتے رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناس نشان کو بناتے وقت ہندو منتر بھی پڑھتے ہیں

سواستک کا استعمال

سنہ 1908 میں یوکرین میں ہاتھی دانت پر تراشا ہوا ایک پرندہ دریافت ہوا تھا جس پر سواستک کا نشان کندہ تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سواستک کی قدیم ترین شکل ہے۔ کاربن ڈیٹنگ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نمونہ کم از کم 1500 سال پرانا ہے۔یہ علامت قدیم عیسائی مقبروں، روم کے کیٹاکومبس، ایتھوپیا میں لالبیلا میں پتھر کے چرچ اور اسپین میں قرطبہ کی چرچ میں بھی پائی گئی ہے۔ہولوکاسٹ پر ایک انسائیکلوپیڈیا کے حوالے کے مطابق ’سواستک 7,000 سال قبل یوریشیا میں استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ آسمان میں سورج کی حرکت اور چال کی نمائندگی کرتا تھا۔‘ماہرین کا خیال ہے کہ یہ علامت کانسی کے زمانے میں یورپ بھر میں مقبول ہوئی ہوگی۔ موجودہ پاکستان میں ہڑپا تہذیب کے مقامات پر پائی جانے والی کچھ باقیات پر بھی سواستک کی علامتیں کندہ ملی ہیں۔19 ویں صدی میں، تھامس ولسن نے اپنی کتاب ’دی سواستک: دی ارلیئسٹ نون سمبل اینڈ اٹس مائیگریشن‘ میں لکھا ہے کہ سواستک کی علامت پوری قدیم دنیا میں استعمال ہوتی تھی۔ سواستک کی علامت چادروں، ڈھالوں اور زیورات پر بھی پائی جاتی ہے۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ اعداد و شمار اور دمدار تارے کی نمائندگی کرتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنیورپ اور دوسرے مغربی ممالک میں اب اس نشان یا علامت کی مخالفت ہوتی ہے

بیئر سے کوکا کولا تک

قدیم یونانیوں نے اپنے برتنوں اور گلدانوں پر سواستک کی علامت بنا رکھی تھی۔ ناروے کے قدیم عقیدے کے مطابق سواستک دیوتا ’تھور‘ کا ہتھوڑا ہے۔سواستک مغرب میں اشتہارات اور لباس میں آزادانہ طور پر استعمال ہوتا تھا۔ یہ ایک موقع پر کوکا کولا کے اشتہارات میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ نازیوں کے سواستک استعمال کرنے سے پہلے ڈنمارک کی بیئر کمپنی ’کارلسبرگ‘ کے لوگو میں سواستک کی علامت موجود تھی۔ چند سال پہلے تک فن لینڈ کی فضائیہ کی سرکاری مہر میں سواستک کی علامت نمایاں تھی۔انڈیا سے باہر مقیم ہند نژاد لوگ نازی کی سواستک نما مہر اور سواستک کی خوش بختی کی علامت کے درمیان فرق کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ‘Hakenkreuz’ بائیں جانب 45 ڈگری کے زاویے پر جھکا ہوا ہے لیکن سواستک سیدھا دائیں طرف ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}