سوئٹزرلینڈ کی جھیلوں میں چھپا اسلحہ نکلوائیں، ڈیڑھ کروڑ روپے انعام پائیں،تصویر کا ذریعہAFP

  • مصنف, ایموجن فولکس
  • عہدہ, بی بی سی جینیوا نامہ نگار
  • ایک گھنٹہ قبل

یورپ کے ملک سوئٹزرلینڈ کی خوبصورت جھیلوں کا نظارہ کرنے والے شاید یہ سن کر حیران ہوں کہ ان کے شفاف پانیوں کی گہرائی میں کیا چھپا کر رکھا گیا ہے۔کئی سال تک سوئس فوج ان جھیلوں کو پرانا اسلحہ ٹھکانے لگانے کے لیے استعمال کرتی آئی ہے جو ان کے نزدیک ایک محفوظ طریقہ تھا۔صرف ایک جھیل، لوسرن، میں 3300 ٹن اسلحہ موجود ہے جبکہ نیوشیٹل نامی جھیل کی تہہ میں 4500 ٹن اسلحہ پڑا ہوا ہے جسے سوئس فضائیہ 2021 تک بمباری کی تربیت کے لیے بھی استعمال کرتی رہی۔چند مقامات پر تو یہ اسلحہ 150 سے 220 میٹر کی گہرائی میں موجود ہے لیکن نیوٹشیل جھیل میں سطح سے صرف چھ سے سات میٹر تک کی گہرائی میں اسلحہ پڑا ہوا ہے۔ اسی لیے اب سوئس محکمہ دفاع نے 50 ہزار فرینکس، جو پاکستانی کرنسی کی مالیت میں ڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم بنتی ہے، کے کیش انعام کا اعلان کیا ہے۔

یہ انعام پانے کا طریقہ ایسا قابل عمل منصوبہ فراہم کرنا ہے جس کی مدد سے جھیل کے پانیوں سے اسلحہ نکالا جا سکے۔ایک محفوظ اور ماحول دوست طریقے کی نشان دہی کرنے والے تین بہترین خیالات کے حامل فرد اس رقم کو پا سکیں گے تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ یہ پورا کام اربوں ڈالر کی رقم خرچ کرنے کے بعد ہی مکمل ہو سکے گا۔

دہرا خطرہ

یہ بات دہائیوں سے سب کو پتہ تھی کہ ان جھیلوں میں اسلحہ چھپایا گیا ہے لیکن مقامی سطح پر حال ہی میں اس بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔سوئس جیولوجسٹ مارکس بوسر، جو حکومت کے مشیر بھی رہے ہیں، نے 10 سال قبل اس سے جڑے ممکنہ خطرات کے بارے میں ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔ان کے مطابق جھیل میں چھپے اسلحہ کے دو خطرات تھے۔ پہلا یہ کہ پانی کے نیچے موجود ہونے کے باوحود یہ پھٹ سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ فوج نے اسلحہ پھینکنے سے پہلے بہت سے فیوز نہیں ہٹائے تھے۔پھر ایک اور معاملہ یہ بھی ہے کہ ٹی این ٹی، یعنی بارودی مواد، جھیل کے پانی کو آلودہ کر سکتا ہے۔ سوئس حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ یہ اسلحہ ایک بڑا چیلنج ہے اور اسے نکالنا بھی ایک مسئلہ ہے۔2005 میں ممکنہ طریقوں کی جانچ پڑتال کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ کسی بھی طریقے کے استعمال سے جھیل کے ماحول کو خطرہ لاحق ہو گا۔

مسائل کی تاریخ

،تصویر کا ذریعہvbs

،تصویر کا کیپشندہائیوں تک ماہرین نے فوج کو یہی مشورہ دیا کہ ایسا کرنا محفوظ ہو گا
یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ سوئس فوج نے اسلحہ کے بارے میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہو۔ ایک گاؤں، مٹہولز، میں 1947 میں ایک بڑا دھماکہ ہوا تھا جب قریبی پہاڑی پر محفوظ کیا جانے والا اسلحہ اور بارودی مواد پھٹ گیا۔اس دھماکے میں نو افراد ہلاک ہوئے اور گاؤں تباہ ہو گیا جس کی گونج 160 کلومیٹر دور زیورچ میں بھی سنی گئی تھی۔تین سال قبل سوئس فوج نے انکشاف کیا تھا کہ 3500 ٹن اسلحہ اور بارودی مواد اب بھی اس پہاڑی میں موجود ہے جسے ہٹایا جائے گا۔خود کو نیوٹرل کہلانے والے ملک کی سرد جنگ کی حکمت عملی سے جڑے سکینڈل بھی سامنے آتے رہے ہیں کیوں کہ پلوں اور سرنگوں پر ممکنہ حملے کے پیش نظر بارودی مواد نصب کیا گیا تھا۔ چند پلوں سے اس وقت یہ مواد ہٹا لیا گیا جب بھاری بھرکم جدید گاڑیوں کے وزن سے دھماکہ ہونے کا خدشہ پیدا ہوا۔2011 میں یورپ کے ایک اہم شمالی راستے پر موجود سرنگ میں دو لاریوں کے درمیان ٹکر کے بعد آگ بھڑکنے سے 11افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اگرچہ اس آگ میں بارودی مواد کا کوئی ہاتھ نہیں تھا لیکن پتہ چلا کہ اس سرنگ کے اندر ایک ڈپو میں بارودی مواد موجود ہے کیوں کہ آگ بھجائے جانے کے کچھ ہی دیر بعد فوج بم ڈسپوزل ٹیم کے ساتھ موقع پر پہنچ گئی تھی۔رواں ہفتے سوئس فوج نے انکشاف کیا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں کسی عام شہری کو اسلحہ مل جانے کے واقعات میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کی وجہ سے برف پگھلنے کے باعث دہائیوں قبل پہاڑی علاقوں میں فوجی تربیت کے بعد چھوڑا جانے والا اسلحہ بھی سامنے آ رہا ہے۔واضح رہے کہ مسلح لیکن نیوٹرل سوئٹزرلینڈ کی فوج میں تمام مرد شہریوں کو کچھ وقت گزارنا ہوتا ہے جنھیں مکمل تربیت دی جاری ہے۔،تصویر کا ذریعہvbs
،تصویر کا کیپشنسوئس جھیلوں سے چھپا اسلحہ نکالنے کا عمل طویل اور پیچیدہ ہو سکتا ہے

طویل اور مہنگا عمل

سوئس جھیلوں سے چھپا اسلحہ نکالنے کا عمل طویل اور پیچیدہ ہو سکتا ہے لیکن سب سے پہلے کوئی قبل عمل منصوبہ سامنے آنا ضروری ہے۔چند لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج کو اس بات کا خیال پہلے رکھنا چاہیے تھا جب وہ یہ سامان پانی میں پھینک رہے تھے۔ دہائیوں تک ماہرین نے فوج کو یہی مشورہ دیا کہ ایسا کرنا محفوظ ہو گا۔لیکن اس وقت حل کی تلاش کی جا رہی ہے۔ سوئس محکمہ دفاع کی اپیل کے بعد عام لوگوں کے پاس منصوبہ پیش کرنے کے لیے آئندہ برس فروری تک کا وقت ہے جس کے بعد ماہرین ان کا جائزہ لیں گے۔اپریل 2025 میں جیتنے والوں کے نام کا اعلان کیا جائے گا۔سوئس حکومت نے کہا ہے کہ مجوزہ منصوبوں پر فوری عمل نہیں ہوگا لیکن ان کی مدد سے طقیل المدتی تحقیقی منصوبے تشکیل پا سکتے ہیں۔مرکس بوسر کہتے ہیں کہ برطانیہ، ناروے یا ڈینمارک سے مشورہ لیا جانا چاہیے کیوں کہ ان کا تجربہ زیادہ ہے۔لیکن کیا وہ خود کوئی مشورہ نہیں دیں گے؟ ’نہیں، میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں۔ لیکن اگر وہ کوئی مشورہ چاہتے ہیں تو میں خوشی سے دوں گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}