سوئٹزرلینڈ میں جسمانی معائنے کے بغیر جنسی شناخت کی تبدیلی کی اجازت
سوئٹزر لینڈ میں آئندہ ماہ یکم جنوری سے لوگ سول رجسٹری آفس جا کر قانونی طور پر اپنی جنسی شناخت تبدیل کروا سکیں گے۔ اس طرح یورپ میں اپنی مرضی سے اپنے جنس کے تعین سے متعلق جاری تحریک میں سوئٹزر لینڈ صفِ اول کے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔
سوئٹزرلینڈ بھی آئرلینڈ، بیلجیئم، پرتگال اور ناروے کے ساتھ ایسے چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں کسی ہارمون تھراپی، طبی معائنے اور تشخیص یا دیگر طبی کارروائیوں کے بغیر کوئی بھی انسان قانونی طور پر اپنی جنسی شناخت تبدیل کروا سکتا ہے۔
یعنی کوئی بھی شخص سول رجسٹری آفس میں جا کر یہ لکھوا سکتا ہے کہ وہ آج سے مرد نہیں عورت ہے یا عورت نہیں مرد ہے یا دونوں میں سے کوئی نہیں ہے یا ٹرانسجینڈر ہے۔
سوئٹزر لینڈ کے قانون میں شامل کیے جانے والے نئے قواعد کے تحت 16 برس یا اس سے زیادہ عمر کا کوئی بھی انسان جو کسی قانونی سرپرستی یا گارڈین شپ میں نہیں، وہ سول رجسٹری آفس میں اپنی نیا جنس اور قانونی نام رجسٹر کروا سکتا ہے۔ ایسے نوجوان جو بڑی عمر کے افراد کی دیکھ بھال میں رہ رہے ہوں انھیں اس مقصد کے لیے اپنے سرپرست کی اجازت درکار ہو گی۔
ان نئے قواعد کے بعد سوئٹزرلینڈ میں موجودہ طریقۂ کار تبدیل ہو جائے گا جس کے تحت ٹرانسجینڈر برداری کو کسی طبی ماہر سے اپنی جنسی شناخت کے لیے سرٹیفیکٹ حاصل کرنا پڑتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے کچھ نیم خودمختار علاقوں میں قانونی طور پر جنس کی تبدیلی کے لیے ہارمونل علاج یا جسمانی تبدیلی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ نام تبدیل کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ نیا نام کتنے سال سے غیر سرکاری طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔
سوئٹزرلینڈ معاشرتی طور پر ایک قدامت پسند ملک سمجھا جاتا ہے جہاں گذشتہ ستمبر میں ہم جنس پرست جوڑوں کو قانونی طور پر شادی اور بچے گود لینے کے حق میں عوام کی اکثریت نے ووٹ دیا تھا۔ اس طرح یہ ملک مغربی یورپ کے ان آخری ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں ایسا کرنے کی قانونی اجازت ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سوئٹزرلینڈ جنس سے متعلق ان نئے قوانین کے ساتھ دنیا بھر میں ایسے ممالک میں شامل ہو گیا ہے جن کی تعداد صرف دو درجن ہے اور جو چاہتے ہیں کہ جنس کے انتخاب کو طبی معائنوں اور طریقوں سے منسلک نہ کیا جائے۔
کچھ دوسرے یورپی ممالک بشمول ڈنمارک، یونان اور فرانس میں جنس تبدیل کرنے کے آپریشن، نس بندی اور نفسیاتی تشخیص سمیت دیگر طبی طریقۂ کاروں کی شرائط کو ختم کر دیا گیا ہے۔ تاہم ان ممالک میں قواعد میں مزید ترامیم کی ضرورت ہے۔
گذشتہ جون میں سپین میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس کے تحت 14 سال سے زیادہ عمر کا کوئی بھی شخص کسی طبی تشخیص یا ہارمون تھراپی کے بغیر قانونی طور پر اپنی جنس تبدیل کر سکتا ہے۔
سنہ 2018 میں جرمنی یورپ کا وہ پہلا ملک بن گیا تھا جس نے تیسری جنس کا خانہ متعارف کیا تھا۔ تاہم جون 2021 میں اپنی جنسی شناخت خود متعین کرنے سے متعلق دو مختلف بِل روک دیے گئے تھے۔
اب جرمنی کی پارلیمنٹ کے ایک نئے ٹرانس جینڈر رکن سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ان قوانین کا معاملہ دوبارہ اٹھائیں گے۔
Comments are closed.