روس، یوکرین تنازع: بحیرہ اسود کا ’سنیک آئی لینڈ‘ جو اس جنگ میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے
- سوفی ولیمز اور پال کربی
- بی بی سی نیوز
روس کا کہنا ہے کہ یوکرین جزیرے کو واپس حاصل کرنے میں ناکام رہا لیکن برطانیہ کا کہنا ہے کہ جزیرے پر قبضے کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی
یوکرین پر روسی حملے کے آغاز کے بعد سے سنیک آئی لینڈ یا سانپوں کے جزیرے کو جنگ میں ایک اہم حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ بحیرہ اسود میں اس جزیرے کو روس نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور یہ سٹریٹیجک (تزویراتی) اعتبار سے ایک انتہائی اہم میدان جنگ بن گیا ہے۔
روس نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین کو جزیرے پر دوبارہ قبضے کی کوشش میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس آپریشن میں سپیشل فورسز، لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹر اور ڈرون شامل ہیں۔
یوکرین کا اصرار ہے کہ اس نے اپنی مہم کو جزیرے اور بحری جہازوں پر حملوں تک محدود رکھا ہے۔
برطانیہ کی وزارت دفاع کے مطابق اس جزیرے پر کنٹرول کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور روس کو بار بار اپنی پوزیشنوں کو مضبوط کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ جزیرہ صرف ایک مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے اور اس کے نام کے برعکس اب وہاں کوئی سانپ نہیں بچا لیکن مغربی بحیرہ اسود کو کنٹرول کرنے میں اس کی اہمیت کے بارے میں کوئی شک نہیں۔
عسکری تجزیہ کار اولے زہدانوف نے بی بی سی یوکرین کو بتایا کہ ’اگر روسی فوجی سانپ جزیرے پر اپنے قبضے کو برقرار رکھ سکتے ہیں تو وہ وہاں طویل فاصلے تک مار کرنے والے فضائی دفاعی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ بحیرہ اسود کے شمال مغربی حصے اور یوکرین کے جنوب میں سمندر، زمین اور فضا کو کنٹرول کر لیں گے۔‘
یہی وجہ ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے چند گھنٹوں بعد اس کا بحری جنگی جہاز موسکوا یہاں پہنچا اور جزیرے پر موجود یوکرینی فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا گیا۔
روسی اہلکار نے کہا کہ ’میرا مشورہ ہے کہ آپ غیر ضروری جانی نقصان سے بچنے کے لیے ہتھیار ڈال دیں، ورنہ آپ پر بمباری کی جائے گی۔‘
جواب میں یوکرینی فوجیوں نے روسیوں کو گندی زبان میں جواب دیا۔ روس نے اس جزیرے پر قبضہ کر لیا تھا لیکن ہفتوں بعد موسکوا ڈوب گیا۔
برطانیہ کا کہنا ہے کہ موسکوا کے تباہ ہونے کا مطلب ہے کہ اب جزیرے پر پہنچنے والے روسی سپلائی جہازوں کو بہت کم تحفظ حاصل ہے تاہم اگر روس اس جزیرے پر اپنی پوزیشن مستحکم کر سکتا ہے تو اسے بحیرہ اسود کے ایک بڑے حصے پر غلبہ حاصل ہو سکتا ہے۔
یہاں پر بھرپور کُمک کے ساتھ روس کی موجودگی یوکرین کے لیے سٹریٹجک اور اقتصادی دونوں ہی اعتبار سے تباہ کُن ثابت ہو سکتی ہے۔
یوکرین کو پہلے ہی اوڈیسہ میں اپنی ایک بندرگاہ بند کرنی پڑی جس سے اجناس کی اہم برآمدات بھی بند ہو گئیں مگر ژدانوف کو خوف ہے کہ اس جزیرے کو دوسری صف کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کہ ’اگر روسی طویل فاصلے تک مار کرنے والے فضائی دفاعی نظام نصب کرنے میں کامیاب رہے تو وہ اپنے سکواڈرنز کا دفاع کر سکیں گے جس سے پھر وہ یوکرینی ساحل تک پہنچ جائیں گے۔‘
اس سے روس کو خطہ ٹرانسنستریا میں داخل ہونے کا بھی موقع مل جائے گا۔ یہ مولڈووا کا علیحدہ ہو چکا خطہ ہے اور اب روس کے زیرِ انتظام ہے۔ یوکرین کے پڑوس میں واقع اس خطے سے اوڈیسہ کچھ ہی دور ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مگر سنیک آئی لینڈ نیٹو کے رکن ملک رومانیہ کے ساحل سے صرف 45 کلومیٹر دور ہے۔ برطانوی بحری تجزیہ کار جوناتھن بینٹھم کو یقین ہے کہ اس جزیرے پر روس کے ایس 400 میزائل سسٹم کی موجودگی ’بازی پلٹ دے گی۔‘
اس کے علاوہ رومانیائی مؤرخ ڈورن ڈوبرینچو کے مطابق اگر روسی یہاں پر میزائل سسٹم نصب کر پائے تو اوڈیسہ خطرے کی زد میں تو ہو گا ہی مگر ساتھ ہی ساتھ نیٹو کا جنوبی دستہ بھی خطرے کی زد میں آ جائے گا۔
اُن کے مطابق ’یہ رومانیائی حکومت اور لوگوں کے لیے بہت اہم ہے اور ساتھ ہی ساتھ پورے اتحاد کے لیے بھی۔ روس کے لیے ہمارے مشرقی علاقوں میں شہروں اور فوجی تنصیبات کو تباہ کرنا ممکن ہو جائے گا۔‘
نیٹو نے رومانیہ کی سرحدوں کو اس تنازع کی شروعات سے ہی بیلجیئن اور فرانسیسی فورسز تعینات کر کے مزید محفوظ بنا دیا تھا مگر اس کے باوجود رومانیہ کے لیے خاصے اقتصادی خطرات موجود ہیں۔
یہ جزیرہ دریائے دنوب کے دہانے پر واقع ہے اور یہی دریا یوکرین کے ساتھ اس کی سرحد کا کام دیتا ہے۔
رومانیہ کی بحرِ اسود پر بندرگاہ کونسٹینٹا یہاں سے زیادہ دور نہیں اور یہاں اب وہ کنٹینر بردار جہاز جمع ہو رہے ہیں، جو اب اوڈیسہ نہیں جا سکتے۔
روس کے سیاسی و عسکری تجزیہ کار ایلیگزینڈر میخائلوف کا ماننا ہے کہ سنیک آئی لینڈ پر موجود سپاہی شمال مغربی بحیرہ اسود اور دنوب ڈیلٹا میں بحری ٹریفک کنٹرول کر سکتے ہیں جو جنوب مشرقی یورپ کی راہداری ہے۔
ایلیگزینڈر میخائلوف نے روسی میڈیا کو بتایا کہ کہ ’اگر کوئی فوجی اڈہ یا فوجی تنصیبات ہوئیں تو دریا میں جہازوں کا داخلہ یا نکلنا روکا جا سکتا ہے۔‘
ایندھن کا کیا ہو گا؟
رومانیہ کے تھنک ٹینک یورو اٹلانٹک ریزیلیئنس سینٹر کا خیال ہے کہ روس شاید اس علاقے کو اپنے ملک میں شامل کرنے اور ترکی کے باسفورس تک جانے والے زیادہ سے زیادہ بحری جہازوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے۔
تاریخی اعتبار سے سنیک آئیلینڈ ایک رومانیائی خطہ تھا اور سنہ 1948 میں رومانیہ اس سے سویت یونین کے حق میں دستبردار ہو گیا تھا جس نے اسے پھر ریڈار بیس کے طور پر استعمال کیا۔
رومانیہ سنہ 1989 تک سوویت یونین کے ماتحت تھا اس لیے اس نے اس سمجھوتے کو تسلیم کر لیا۔
کمیونزم کے زوال کے بعد یوکرین نے اس کنٹرول حاصل کر لیا اور بالآخر سنہ 2009 میں عالمی عدالتِ انصاف نے اس جزیرے کی حد بندی کی اور رومانیہ کو بحیرہ اسود کی طرف والا 80 فیصد حصہ ملا اور باقی یوکرین کو سونپ دیا گیا۔
سنیک آئی لینڈ نہ صرف سٹریٹجک اعتبار سے اہم ہے بلکہ یہ ایندھن کے وسائل سے بھی مالامال ہے چنانچہ عالمی عدالتِ انصاف کے حکم کے تحت دونوں ممالک کے ہی یہاں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔
لہٰذا یہ صرف پتھروں اور چٹانوں پر مبنی جزیرہ نہیں بلکہ روس کی یوکرین میں جنگ میں بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
Comments are closed.