- مصنف, جیسیکا پارکر
- عہدہ, بی بی سی، برلن
- 8 منٹ قبل
سنگاپور میں تقریباً آدھی رات ہو رہی تھی اور دفاعی انڈسٹری کے ایک بڑے ایونٹ میں شرکت کے لیے آنے والے جرمن فضائیہ کے ایک سینیئر افسر ہوٹل میں اپنے کمرے میں موجود تھے۔جرمن فضائیہ کے افسر بریگیڈیئر جنرل فرینک گرافے نے آج ایک مصروف دن گزارا تھا لیکن پھر بھی وہ سو نہیں سکتے تھے کیونکہ انھیں ائیر فورس کے کمانڈر یعنی اپنے باس کو ایک فون کال کرنی تھی۔جرمن فضائیہ میں بطور ہیڈ آف آپریشنز خدمات سرانجام دینے والے بریگیڈیئر جنرل فرینک گرافے کے لیے ایسی فون کالز کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔وہ فون پر اپنے دو کولیگز سے بات کرتے ہوئے بہت پُرسکون لگ رہے تھے اور انھیں اپنے ہوٹل کے کمرے سے نظر آنے والے باہر کے منظر کے بارے میں بھی بتا رہے تھے۔
اس گفتگو کے دوران انھوں نے اپنے کولیگز کو بتایا کہ وہ قریب ہی واقع ایک ہوٹل سے ابھی شراب پی کر آئے ہیں اور وہاں ایک زبردست سوئمنگ پول بھی تھا۔ابھی گفتگو چل ہی رہی تھی کہ ان کے باس یعنی جرمین فضائیہ کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل انگو جرہرٹز بھی اس گفتگو میں شامل ہوگئے۔اگلے 40 منٹ جاری رہنے والی اس گفتگو میں انھوں نے انتہائی حساس عسکری معاملات پر گفتگو کی۔ یہ معاملہ بھی زیرِغور آیا کہ جرمنی کو یوکرین ’ٹورس‘ کروز میزائل بھیجنے چاہییں یا نہیں۔لیکن اس فون کال میں شامل کسی بھی فرد کو ایک بات کا علم نہیں تھا اور وہ یہ تھی کہ اُن کی یہ فون کال کہیں اور بھی نا صرف سُنی جا رہی ہے بلکہ ریکارڈ بھی کی جا رہی ہے۔فون کال پر ہوئی گفتگو کو ابھی دو ہفتے ہی گزرے تھے کہ اس کی آڈیو روس کے سرکاری ٹی وی ’آر ٹی‘ نے نشر کردی۔جرمنی کی جانب سے یہ تو نہیں بتایا گیا کہ لیک ہونے والی کال ریکارڈنگ کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی کی گئی ہے یا نہیں، لیکن حکومت نے یہ ضرور تصدیق کی ہے کہ فون پر ان تمام معاملات پر گفتگو ہوئی تھی اور ان کا خیال ہے کہ فون پر ہونے والے بات چیت روسی جاسوسوں نے ریکارڈ کی تھی۔جرمن حکومت کے مطابق سنگاپور میں موجود روسی آلہٰ کاروں نے یہ کال ’لیک‘ کی ہے۔جرمنی کی طرف سے سرکاری طور پر بریگیڈیئر جنرل فرینک گرافے کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ انھوں نے حادثاتی طور پر جاسوسوں کو اس فون کال تک رسائی دی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
جاسوس اس انتہائی حساس فون کال کو ریکارڈ کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟
اور پھر جلد ہی اس فون پر ہونے والی ’انتہائی خفیہ گفتگو‘ روسی ٹی وی چینل کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گئی۔اس فون پر جو گفتگو ہوئی اب وہ زبان زدِ عام ہے۔اس فون کال میں شریک چار افراد یہ گفتگو کر رہے تھے کہ اگر یوکرین کے چانسلر اولاف شولز ’ٹورس‘ میزائل یوکرین بھیجنے پر رضامند ہوجاتے ہیں تو یوکرین ان سے کن اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔دورانِ گفتگو فرانس اور برطانیہ کی جانب سے یوکرین بھیجے جانے والے عسکری ساز و سامان پر بھی اظہارِ خیال کیا گیا اور یہ اشارہ دینے کی بھی کوشش کی گئی کہ برطانیہ کے کچھ فوجی مبینہ طور پر یوکرین میں موجود ہیں۔یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جاسوس اس انتہائی حساس فون کال کو ریکارڈ کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟جو جوابات اب تک ہمارے سامنے آئے ہیں وہ ایک ہی نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ ہے ’ہیومن ایرر‘ یعنی انسانی غلطی۔جرمن حکام کے مطابق یہ ’ڈیٹا لیک‘ صرف اس لیے ہوا کیونکہ فون کال میں شریک ایک شخص نے غیرمحفوظ لائن پر کال کی اور اس کے لیے انھوں نے اپنے فون کے انٹرنیٹ یا ہوٹل کے وائی فائی کا استعمال کیا۔جرمن حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایسا کس نے کیا یہ ابھی بھی واضح نہیں ہے۔برطانیہ میں جرمنی کے سفیر میگویل برجر نے رواں ہفتے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ سب کے لیے ایک اچھا سبق ہے کہ اگر آپ ایک محفوظ کال کرنا چاہتے ہیں تو ہوٹل کے انٹرنیٹ کا استعمال ہرگز نہ کریں۔‘لیکن کچھ افراد سمجھتے ہیں کہ جرمن سفیر نے ایک مفید مشورہ دینے میں تاخیر کردی۔جرمن حکام اس وقت مزید تنقید کی زد میں آئے جب یہ بات منظرِ عام پر آئی کہ ایک انتہائی حساس کال کرنے کے لیے ان کی جانب سے ’ویب ایکس‘ نامی پلیٹ فارم کا استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن جرمن حکام کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے اس پلیٹ فارم کا محفوظ اور سرٹیفائیڈ ورژن استعمال کیا گیا تھا۔سرے سینٹر فار سائبر سکیورٹی سے منسلک پروفیسر ایلن وڈورڈ کہتے ہیں کہ ’ویب ایکس‘ اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن مہیا کرتی ہے لیکن صرف اسی صورت میں ’اگر آپ ان کی ایپ کا استعمال کر رہے ہیں۔‘لیکن اگر فون کال کرنے کے لیے لینڈ لائن، موبائل فون یا ہوٹل کے وائی فائی کا استعمال کیا جا رہا ہے تو آپ کی گفتگو محفوظ ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی اور ایسا لگتا ہے کہ روسی جاسوس اسی بات کا انتظار کر رہے تھے۔پروفیسر وڈورڈ کہتے ہیں کہ جاسوس ’شاید سنگاپور ایئر شو میں ہی بیٹھے تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
’آپ ایک ڈائنامائٹ تالاب میں پھینکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس کی زد میں کون سی مچھلی آتی ہے‘
دو سال میں ایک مرتبہ ہونے والا ’سنگاپور ایئر شو‘ اس برس 20 سے 25 فروری تک جاری رہا تھا جس میں اعلیٰ سطح کے سرکاری، عسکری اور دفاعی انڈسٹری کے حکام شریک ہوتے ہیں۔پروفیسر وڈورڈ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ ایک جاسوس ہیں تو ایسی تقریبات کے موقع پر آپ اکثر باہر کسی گاڑی میں بیٹھے ہوتے ہیں یا ہوٹل کا کوئی کمرہ کرائے پر لے لیتے ہیں۔‘ان کے مطابق روسی جاسوسوں نے گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے ایک لانگ رینج انٹینا اور ایک ایسے کمپیوٹر پروگرام کا استعمال کیا ہوگا جس کے پاس برقی نیٹ ورک کو ٹریس کرنے کی صلاحیت موجود ہوگی۔پروفیسر وڈورڈ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ کام اسی طرح ہوتا ہے جیسے آپ بار بار دروازے کھول کے دیکھتے ہیں کہ کاش ان میں سے کوئی ایک کُھلا ہوا مل جائے اور بالآخر آپ کو ایک دروازہ کُھلا ہوا مل جاتا ہے۔‘اس حوالے سے جرمن ریسرچر ہیننگ سیڈلر کہتے ہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ جرمن افسر نے اپنے موبائل سے کال ملائی ہو اور جاسوسوں نے اینٹینا کے ذریعے اُسے کیچ کیا ہوا اور پھر اسے ایک علیحدہ مگر سرکاری اینٹینا پر منتقل کردیا ہو۔’اور اس دوران وہ صرف کال سُن رہے ہوں اور لکھ رہے ہوں کہ کیا بات چیت ہو رہی ہے۔‘جرمن ریسرچر کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ بم لے کر مچھلی کا شکار کرنے نکلے ہوئے ہیں۔ آپ ایک ڈائنامائٹ تالاب میں پھینکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس کی زد میں کون سی مچھلی آتی ہے۔‘ان کے مطابق جرمن حکام کی بات چیت جاسوسوں کے لیے ایسی ہوگی جیسے ان کے ہاتھ کوئی قیمتی’انعام‘ لگ گیا ہو۔جرمن دارالحکومت برلن میں حکام کو یہ خدشات بھی تھے کہ شاید کوئی روسی جاسوس ان کے فون نیٹ ورک تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہو اور کسی کی توجہ حاصل کیے بنا چُپ چاپ گفتگو سُنتا رہا ہو۔جرمن حکومت کا اسرار ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات تو کر رہے ہیں لیکن انھیں لگتا ہے کہ یہ سب کسی ایک شخص کی غلطی کے سبب ہوا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جاسوس ایک ’فشنگ ایکسرسائز‘ میں مصروف تھے اور خوش قمستی سے اُن کے ہاتھ جرمن فضائیہ کے حکام کی گفتگو لگ گئی۔جرمی کے سابق سینیئر فوجی افسر روڈرک کیزویٹر سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کا یہ کہہ کر دفاع کرنا کہ ’یہ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے‘ ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسی کوتاہی پر پردہ ڈالنے کے لیے آپ کو خاص بہانہ ڈھونڈنا چاہیے تھا۔‘،تصویر کا ذریعہReuters
جرمن حکومت کی پریشانی
وہ سمجھتے ہیں کہ ’پرُامن وقت کی عادت پڑ جانے سے‘ جرمن افسران سے ایسی غلطی سرزد ہوئی ہے۔کیزویٹر کہتے ہیں کہ ’یہ ایک ذاتی غلطی ہے لیکن یہ منظم ناکامی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔‘ان کے مطابق جرمنی ایک ’سوفٹ ہدف‘ ہے جس کی وجہ روس کے لیے دوسری جنگِ عظیم سے جاری پھیلنے والے ’نرم جذبات‘ ہیں۔لیکن جرمن حکومت ان الزامات پر پریشان نظر آ رہی ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ یورپ میں اگر کسی ملک نے سب سے زیادہ ہتھیار یوکرین کو بھیجے ہیں تو وہ جرمنی ہے۔جرمنی کے وزیرِ دفاع بورس پسٹوریس کہتے ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن ایک ’بے ایمانی‘ پر مبنی کھیل کر رہے ہیں اور ’ہمیں ان کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے۔‘روس کی جانب سے جرمن فضائیہ کے افسران کی گفتگو ریکارڈ یا لیک کیے جانے کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔لیکن جو بھی اس لیک کے پیچھے تھا اس نے جرمنی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے ملک میں اندرونی اختلافات بھی کُھل کر سامنے آئے ہیں اورایک بحث نے جنم لیا ہے کہ جرمنی کو یوکرین ٹورس میزائل بھیجنے چاہییں یا نہیں۔جرمن دارالحکومت برلن میں یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ آڈیو لیک صرف ایک حادثہ ہو نا کہ ایک وسیع سازش کا حصہ۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.