صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے سرکاری اسکول خیبر پختونخوا اور پنجاب کے سرکاری اسکولوں سے بہت بہتر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو سندھ کے سرکاری اسکولوں کو خراب اور وہاں کے اسکولوں کو بہتر بتاتے ہیں وہ غلط اعداد و شمار پیش کرتے ہیں، کیونکہ اعداد و شمار پیش کرنے والے اداروں کا تعلق وفاق اور پنجاب سے ہوتا ہے۔
وہ منگل کو ڈائریکٹوریٹ برائے پرائیویٹ انسٹیٹیوشن کی رجسٹرار پروفیسر رفیعہ ملاح کے تحت نجی اسکولوں میں سندھی اور اردو پڑھانے کے سلسلے میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کررہے تھے۔
سیمینار سے زبیدہ مصطفیٰ، وسعت اللّٰہ خان، نور الہدیٰ شاہ، خوش بخت شجاعت، مہتاب اکبر راشدی، ڈاکٹر رومینہ قریشی، اسحاق سمیجو اور پروفیسر رفیعہ ملاح نے بھی خطاب کیا۔
سردار شاہ نے کہا کہ چاروں شہروں میں سندھی اردو سکھانے کے لیے لسانیات کے مراکز قائم کر رہے ہیں، 1972 میں سندھی اردو لازمی زبان پڑھانے کا ایکٹ پاس ہوا، جس میں کہا گیا کہ یہ دونوں زبانیں پڑھائی جائیں گی۔
صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ اس وقت بہت کم نجی اسکول تھے اور تعلیم تجارت نہیں بنی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ نجی اسکول بننے لگے، اچھی انگریزی ہماری کمزوری تھی جس کا فائدہ نجی اسکولوں نے اٹھایا۔ ویسے بھی ہم انگریزوں کے غلام رہے ہیں، چنانچہ اچھی انگریزی کو ہم کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں بھی ارکان چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو ٹاپ کے نجی اسکولوں میں داخلہ مل جائے۔ انہیں اس کا خیال نہیں کہ یہاں غریب بچے بھی پڑھیں۔
سردار شاہ نے کہا کہ انجمن ترقی اردو، سندھی لینگویج اتھارٹی جامعہ کراچی اور جامعہ اردو مل کر سندھی اردو تدریس کے لیے بہتر تجاویز دیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو اور سندھی زبانوں کو انگریزی سے خطرہ ہے۔
نور الہدیٰ شاہ نے کہا کہ سندھ ڈوب چکا ہے، لوگوں کا برا حال ہے، اندرون سندھ کا میڈیا درست حال بتا رہا ہے لیکن دوسرے میڈیا کی توجہ اس طرف نہیں کیوں کہ زبان کا فرق ہے، نفرت کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں 1948 میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تھا۔
سینئر صحافی وسعت اللّٰہ خان نے کہا کہ ہم غلام لوگ ہیں نہ اردو درست بولتے ہیں نہ سندھی، البتہ انگریزی درست بولنے کی ضرور کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مادری زبان صرف خواتین ہی پڑھائیں، زبان ایک امانت ہوتی ہے مگر انگریزی عدالتوں کی زبان ہے۔
اس سماج میں ہم دہری شخصیت کا شکار ہیں۔ پنجابی زبان خطرے سے دوچار ہے، پنجابی پرائمری اور سیکنڈری میں پڑھائی نہیں جاتی۔ بگٹی نے اردو زبان کا قانون 1973 میں بلوچستان سے منظور کرایا تھا۔ زبان وہی زندہ رہتی ہے جس کا معاشی فائدہ ہے، چین اور روس انگریزی کے بغیر کیسے زندہ ہیں؟
Comments are closed.