سندھ ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کہا ہے کہ قانون سازی کے ذریعے صوبائی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل قائم کرنے جا رہے ہیں جو کہ صوبے کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلوں کا طریقے کار طے کرے گی جب کہ اگلی حکومت میں پاکستان میڈیکل کمیشن برقرار نہیں رہے گا-
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی اور صوبائی سیکریٹری صحت ذوالفقار شاہ کے ہمراہ سندھ اسمبلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا تھا کہ میڈیکل کے اسٹوڈنٹس جب تک پاس آؤٹ ہو کر ڈاکٹر بنیں گے انہیں امید ہے کہ یہ حکومت نہیں رہے گی اور حکومت کے جاتے ہی یہ پاکستان میڈیکل کمیشن بھی نہیں رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ طب کی تعلیم اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبائی مسئلہ ہے، موجودہ حکومت نے پاکستان میڈیکل کمیشن کا بل اسمبلی کے جوائنٹ سیشن سے پاس کرا کر غیر اخلاقی کام کیا، یہ بل نیشنل اسمبلی اور سینیٹ علیحدہ علیحدہ مسترد کر چکے تھے، یقین ہے کہ جیسے ہی یہ حکومت تبدیل ہوگی، پاکستان میڈیکل کمیشن کو ختم کردیا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی اس کے ناجائز احکامات بھی ختم ہو جائیں گے۔
سندھ ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا مزید کہنا تھا سندھ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے تحت صوبے کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کا کرائیٹیریا یا طریقہ کار کیا جائے گا اور اس کونسل کو بیرون ممالک سے بھی تسلیم کروایا جائے گا کہ سندھ کے ڈاکٹر بیرون ملک آسانی سے پریکٹس کر سکیں۔
وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا سمیت پنجاب میں عوام کو مہیا کی جانے والی ہیلتھ انشورنس کی سندھ کے عوام کو فراہمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں اور فاؤنڈیشنز کو 57 ارب روپے سے زائد کی گرانٹس دے رہی ہے، سندھ میں دل اور دیگر اعضاء کی بیماریوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے، سندھ میں جگر، گردوں اور بون میرو ٹرانسپلانٹ بلا معاوضہ کیے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہیلتھ انشورنس اسکیموں کے ذریعے صرف پرائیویٹ اسپتالوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، انشورنس کے تحت مریضوں کو صرف داخلے کی سہولت مہیا ہے جبکہ سندھ میں داخلے اور اوپی ڈی سمیت ہر طرح کی سہولت عوام کو مفت فراہم کی جارہی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دے رہے ہیں، کے ایم سی کے تحت چلنے والے کراچی کے اسپتالوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلایا جائے گا تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کی جا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرے صوبوں بشمول بلوچستان پنجاب کے علاوہ افغانستان سے مریض علاج کے لیے سندھ آتے ہیں سندھ کو اس حساب سے فنڈز فراہم نہیں کیے جاتے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے تعلقہ اور ڈسٹرکٹ کرکٹ اسپتالوں میں ٹرامہ سینٹر اب تک فعال نہیں کئے جا سکے لیکن ان کا ارادہ ہے کہ ٹراما سینٹرز کو کراچی کے مرکزی ٹرامہ سینٹر سے منسلک کیا جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ میں عوام کو صحت کی سہولیات مہیا کرنے کے لئے اس سال صحت کی 36 اسکیمیں مکمل ہو جائیگی۔
ڈاؤ یونیورسٹی اور جامشورو اسپتال میں بائیو سیفٹی لیول تین کی لیبارٹریاں قائم کرنے جا رہے ہیں، کراچی میں ڈسپنسریاں فعال کرکے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے مریضوں کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔
Comments are closed.