سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شاہراہ فیصل پر ٹاور کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شاہراہ فیصل کے اطراف سروس روڈ انکروچمنٹ کیا گیا، کمشنر بھی کہہ رہے ہیں قبضہ ہے ، کنٹونمنٹ بورڈ حکام پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیاکہ نیول برج ، دہلی کالونی سے لے کر سب تعمیرات غیر قانونی ہیں، کنٹونمنٹ مقاصد کے لیے زمین نہیں چاہیے تو واپس کریں، سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بناؤ ۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر کے مسائل سے متعلق مختلف کیسز کی سماعت کی ۔
شاہراہ فیصل کا روڈ کبھی کم نہیں ہو، چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں شاہراہ فیصل پر ٹاور کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وکیل ٹاور الاٹیز عابد زبیری نے کہاکہ شاہراہ فیصل کا سائز 1957 ء میں کم کیا گیا تھا ،اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ شاہراہ فیصل کا روڈ کبھی کم نہیں ہوا بڑھا ہی ہے ،شاہراہ فیصل کے دونوں اطراف کا سروس روڈ انکروچمنٹ کیا گیا ہے، کمشنر بھی کہہ رہے ہیں قبضہ ہے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سارے رفاہی پلاٹس ہیں، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے، پیسے دیں جو چاہے کریں، سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں ہے، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پر اظہار برہمی بھی کیا۔
سندھ حکومت کینیڈا سے چلائی جارہی ہے، چیف جسٹس
عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران یونس میمن نام کے شخص کا تذکرہ ہوا ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کراچی کو یونس میمن کینیڈا سے آپریٹ کررہا ہے، یونس میمن ساری بڈنگ وہاں بیٹھ کر دیکھ رہا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ بتائیںان حالات میں صوبہ کیسے گزارا کرے گا، آپ سب جانتے ہیں بتائیں ہمیں، آپکی حکومت کیسے کوئی اور چلا سکتا ہے کسی کو تو کھڑا ہوکر اس کو روکنا ہوگا۔
آپ نالہ صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے؟، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ پارلیمانی طرز حکومت کا کچھ مطلب ہوتا ہے پارلیمانی حکومت مضبوط حکومت ہوتی ہے ،جب آپ نالہ صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے؟ سال پہلے نالہ صاف کرنے کا حکم دیا، روزانہ نئے نئے بہانے کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ صوبہ میں ایک تعلیم کا پروجیکٹ 2600 بلین روپے کا 2014 ء میں شروع ہوا 2017 میں ختم ہوا، ان پیسوں سے دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی جاسکتی تھی ، آر او پلانٹس کا پیسہ 15 سو بلین روپے ہے، تھر کے لوگ آج بھی پانی کو ترستے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بناؤ ،آپ لوگ فیصلہ کرلیں کرنا کیا ہے اس طرح حکومت نہیں چلتی بلکہ حکومت ہے ہی نہیں۔
لوگ جھنڈے لہراتے ہوئے آتے ہیں آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ صاحب کل تک بتائیں کیا کرنا ہے، کل مجھے کسی نے کلپ بھیجا ایک خاتون کو ٹرالی میں لے جارہے تھے ایمبولینس نہیں تھی، پتہ نہیں کہاں سے لوگ جھنڈے لہراتے ہوئے آتے ہیں آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ بجٹ کا مطلب اپنے لئے فنڈ مختص کرنا ہوتا ہے عوام کے لئے نہیں،لوگوں کو تو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوتا،ایڈووکیٹ جنرل صاحب ہمارے سامنے ایسی بات کیوں کرتے ہیں،چھوٹے چھوٹے ادارے ہیں آپ کے شہر کے آپ کے بس میں نہیں ہیں۔
اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے چیف جسٹس پاکستان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ سوری مائی لارڈ
سماعت کے دوران بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہاکہ منیر اے ملک صاحب پیش ہوتے ہیں وہ ملک سے باہر ہیں، جسٹس اعجاز الاحسننے ریمارکس میں کہاکہ ملک میں غیر یقینی صورتحال ہے ، عدالت نے منیر اے ملک کی عدم موجوگی کے باعث سماعت 16 جون تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.