سندھ ہائی کورٹ نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
دورانِ سماعت آئی جی سندھ، الیکشن کمشنر سندھ، چیف سیکریٹری سندھ، امیرِ جماعتِ اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، ایم کیو ایم رہنماء وسیم اختر اور خواجہ اظہار الحسن عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ صوبائی الیکشن کمشنر کہاں ہیں؟
آئی جی سندھ نے نفری کی تعداد اور تعیناتی کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ رینجرز کی رپورٹ کہاں ہے؟
جس کے بعد رینجرز کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرا دی گئی۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ہمیں پولیس اور رینجرز کے جواب کی کاپی فراہم کی جائے۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے الیکشن کمشنر سندھ سے استفسار کیا کہ الیکشن کب کرائیں گے؟
الیکشن کمشنر سندھ نے جواب دیا کہ جی ہم الیکشن کرانے کو تیار ہیں۔
عدالت نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کر کے کیوں توہینِ عدالت کر رہے ہیں؟ ایک ساتھ الیکشن نہیں ہو سکتے تو مراحلہ وار کروائے جائیں۔
الیکشن کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ دونوں ڈویژنز میں 13 سو 7 حساس پولنگ اسٹیشنز ہیں۔
عدالت نے استفسارکیا کہ حساس پولنگ اسٹیشنز کا کیا مطب ہے؟ کیا فورس تعینات نہیں ہو گی؟
الیکشن کمشنرسندھ نے کہا کہ الیکشن کرانے کو تیار ہیں، پولیس اور وزیرِ داخلہ سیکیورٹی فراہم کریں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کراچی ڈویژن میں کتنے دنوں میں الیکشن کرا دیں گے،آئندہ 15 دنوں میں الیکشن کرا دیں گے؟
عدالت نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ الیکشن کے لیے کتنی فورس فراہم کریں گے؟
آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ جتنی فورس کہیں گے اتنی فراہم کر دی جائے گی؟
ایم کیو ایم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کل الیکشن کمیشن نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اسلام آباد طلب کیا ہے، ہم بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں، جس وقت الیکشن کا اعلان ہوا الیکشن کمیشن کا کورم پورا نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے ایم کیو ایم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ الیکشن نہ ہوں ؟
ایم کیو ایم کے وکیل نے جواب دیا کہ جب الیکشن کا اعلان کیا گیا اس وقت الیکشن کمیشن کے اراکین کی تعداد پوری نہیں تھی، ہماری الیکشن کمیشن کے اختیارات اور فیصلے سے متعلق اہم درخواست زیرِ التواء ہے، الیکشن کمیشن نے نامکمل کورم کے باوجود اہم فیصلے کیے، یہ اقدام غیر قانونی اور بلا جواز ہے۔
عدالت نے ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن کو بولنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ دلائل دیں یا وکیل کو بات کرنے دیں، دونوں کو اجازت نہیں دے سکتے۔
ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ قوانین میں ترامیم کے لیے سلیکٹ کمیٹی بن چکی، ایم کیو ایم بھی کام کر رہی ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ آپ کا کہنا ہے کہ ترامیم سے پہلے الیکشن نہ ہوں؟
ایم کیو ایم کے وکیل نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے فیصلے پر عمل کیا جائے۔
عدالت نے چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ کو روسٹرم پر بلا لیا۔
آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے پاس مکمل فورس 1 لاکھ 18 ہزار ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ دفاعی نمائش میں کتنی نفری ہے؟
آئی جی سندھ نے بتایا کہ ایکسپو سینٹر میں 3 ہزار نفری تعینات ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ دو اہم مسائل ہیں، جن کی وجہ سے پولیس اور رینجرز سیکیورٹی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
جسٹس یوسف علی سعید نے سوال کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ ہم ٹیوشن کلاسز کرائیں؟ کوچنگ بھی دیں؟
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، صوبائی حکومت کا نہیں، ہم پہلے مرحلے کا الیکشن کرا چکے ہیں اب بھی کرانے کے لیے تیار ہیں، الیکشن کل کرا دیں تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں، ہم نے زمینی حقائق بتا دیے، الیکشن کمیشن تمام فریقین اور زمینی حقائق کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے، الیکشن کمیشن کے پاس آئینی اختیار ہے وہ خود فیصلہ کرے۔
عدالتِ عالیہ نے تمام فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
Comments are closed.