بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سندھ اسمبلی: اپوزیشن کی نسلہ ٹاور پر قرارداد پیش کرنے کی ضد

سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن کی طرف سے نسلہ ٹاور پر مشترکہ قرار داد پیش کرنے کی ضد کی گئی۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کی ندا کھوڑو نے تجاوزات کے حوالے سے قرار داد پیش کر دی، جس کے متن میں کہا گیا ہے کہ شہریوں نے اپنی جمع پونجی رہائشی منصوبوں میں لگائی۔

قرار داد کے متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت تعمیراتی منصوبوں کے تحفظ کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کرے۔

قرار داد پر تنقید کرتے ہوئے جی ڈی اے کے رکن شہر یار مہر نے کہا کہ حکومتی اراکین بھول گئے ہیں کہ سندھ میں ان کی حکومت ہے۔

کراچی میں شاہراہِ فیصل پر نرسری کے قریب واقع نسلہ ٹاور کو سپریم کورٹ کے حکم پر گرانے کے لیے 4 کمپنیاں میدان میں آگئیں۔

انہوں نے کہا کہ قرار داد میں سندھ اسمبلی کا غلط استعمال نہ کیا جائے، یہ قرار داد ان افسران کو تحفظ فراہم کرنا ہے جنہوں نے غلط کام کیا۔

رکنِ پیپلز پارٹی ندا کھوڑو نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ چھت سب کے پاس ہو، کسی کو چھت سے محروم کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے، کراچی کا نسلہ ٹاور ہو یا وزیرِ اعظم کا بنی گالہ ہی کیوں نہ ہو۔

شہر یار مہر نے کہا کہ یہ تو آپ ایک غیر قانونی کام کو قانونی قرار دینا چاہتی ہیں، جتنے ممبرز نے اس پر سائن کیا ہے ان کو جیل میں ہونا چاہیئے، ایسی قرار داد لا کر اپنے کالے کرتوت کو کور دے رہے ہیں۔

رکنِ پیپلز پارٹی مکیش چاؤلہ نے کہا کہ 2002ء سے 2008ء تک یہ بھی چائنہ کٹنگ کے ساتھ تھے، میں سب کے بارے میں بعد میں بات کروں گا۔

سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور گرانے کے لیے جدید آلات کا استعمال کرنے کی ہدایت کردی۔

رکنِ پیپلز پارٹی ذوالفقار شاہ نے کہا کہ نسلہ ٹاور کے لوگ ہماری حکومت کی طرف دیکھتے ہیں، جبکہ سندھ حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، لوگ ساری زندگی کی جمع پونجی لگا کر گھر بناتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، عدالتیں نظرِ ثانی کریں، جن کے بڑے گھر ہیں ان کو ضرور گرائیں۔

ایم کیو ایم کے رکنِ سندھ اسمبلی محمد حسین نے کہا کہ ناصر حسین شاہ نے کہا تھا کہ ہم نسلہ ٹاور کے لیے قرار داد لا رہے ہیں، پوری قرار داد میں نسلہ ٹاور کا ذکر نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں نے گورنمنٹ اداروں سے پراپرٹی کے کاغذات لیے، ان کو نہیں ہٹایا جاتا ہے، افسران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.