سمگلروں کے درمیان فائرنگ اور وہ مہلک حادثات جو یورپ پہنچنے کے راستوں کو مزید پُرخطر بنا رہے ہیں

Hungry

،تصویر کا ذریعہHUNGARIAN GOVERNMENT

  • مصنف, نک تھاپ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

سمگلروں کے درمیان شدید فائرنگ اور مہلک کار حادثات سے حالیہ مہینوں میں یورپ پہنچے کے خواہشمند افراد کی جانب سے اپنائے گئے زمینی راستوں کو اور بھی پُرخطر بنا دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود یورپ جانے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

گذشتہ ہفتے حریف گروہوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے شہری تھے جو غیرقانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ فائرنگ کا یہ واقعہ ہنگری کی سرحدی باڑ سے چند سو میٹر دور سربیا کی حدود میں پیش آیا۔

پولیس کے مطابق سربیا کے ساتھ ہنگری کی سرحد پر متحارب گروہوں میں لڑائی میں یہ تارکین وطن مارے جا رہے ہیں۔ مراکش، افغانستان اور شام سے تعلق رکھنے والے یہ گروہ سرحد پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔

سربیا کے سرحدی دیہات ہورگوس اور ہجدوکوو کے ساتھ ساتھ سبوتیکا شہر کے رہائشیوں نے پولیس سے امن بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔ سرحد کی دونوں جانب ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ پولیس بھی ان جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔

آسٹریا اور سلواکیہ کی حکومتوں نے ہنگری سے احتجاج کیا ہے کہ بہت زیادہ تارکین وطن ہنگری کے راستے ان کی سرحدوں تک پہنچتے ہیں۔

سرحد پر بھاری مضبوط باڑ، روزانہ کی نظر بندیوں اور ان تارکین وطن کو واپس بھیجنے جیسے اقدامات کے باوجود بھی ہنگری انھیں روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

خیال رہے کہ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان ان تارکین وطن کے خلاف بہت سخت بیانات بھی دیتے رہے ہیں۔

ایک 33 برس کے سابق افغان فوجی، جنھوں نے اپنا نام صدر بتایا، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بعض اوقات ایجنٹ (سمگلرز) بہت ظالم ہوتے ہیں، بہت غصے میں ہوتے ہیں، اور وہ ہمیں مارتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’باقی اوقات میں وہ مہربان ہوتے ہیں، ہمارے لیے کھانا لاتے ہیں، اور ہمیں اچھی رہائش دیتے ہیں۔‘

میں صدر سے ہنگری کی باڑ کے قریب سربیا والی طرف ملا۔

انھوں نے کہا کہ وہ سربیا، بلغاریہ کی سرحد پر پیروٹ سے بس کے ذریعے بلغاریہ کا 25 دن کا تھکا دینے والا سفر طے کر کے پہنچے تھے۔

وہ استنبول سے آئے تھے، جہاں انھوں نے جرمنی کے ذریعے ٹکٹ کے لیے دس ہزار ڈالر کی رقم دی تھی۔

بی بی سی نے سبوتیکا میں ایک ویڈیو دیکھی جس میں دکھایا گیا ہے کہ سمگلرز ان خوفزدہ نوجوان افغان شہریوں کو مار رہے ہیں جنھوں نے انھیں سرحد پار کرنے کے لیے پیسے نہیں دیے۔

ایک اور ویڈیو میں سبوتیکا کے قریب گروہوں کی آپس میں لڑائی اور فائرنگ دکھائی گئی ہے۔

یورپ

175 کلومیٹر طویل سرحد کے ساتھ مضبوط، برقی تار سے لیس ہنگری کی باڑ نہ صرف سمگلروں کو یہ کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہے کہ کون کب اس سرحد کو پار کرتا ہے بلکہ انھیں اپنے طور پر اس سرحد کو پار کرنے والوں کو روکنے میں بھی مدد دیتی ہے۔

نوجوان تارکین وطن اسے ’دی گیم‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ کئی گروہ بیک وقت مختلف مقامات پر باڑ کو کاٹ پھینکتے ہیں۔ انھیں یہ معلوم ہے کہ زیادہ تر تارکین وطن سرحد پار نہیں کر سکیں گے مگر پھر بھی کچھ کے لیے یہ رستہ صاف ہو جائے گا۔

مگر ٹھہریے۔۔۔ یہ کھیل اب ختم ہو چکا ہے۔

کوسوو سے بھیجے جانے والی خودکار رائفلوں اور پستولوں نے اس خطرے کو مزید بڑھا دیا ہے۔

گذشتہ سال جولائی میں مبینہ طور پر مراکشی اور افغان گروہوں کے درمیان مسلح لڑائی میں سبوتیکا کے مضافاتی علاقے ماکووا سیڈمیکا میں ایک 16 برس کی لڑکی ہلاک اور سات تارکین وطن زخمی ہوئے تھے۔

ہورگوس میں باڑ کے قریب گذشتہ جمعے کی فائرنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب شام کے ایک گروہ نے ایک معروف افغان گینگ پر حملہ کیا۔

شمالی سربیا سے گزرنے والے تارکین وطن زیادہ تر شامی اور افغان شہری ہیں، لیکن وہاں کرد، پاکستانی اور دیگر ملکوں کے بھی شہری ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے تارکین وطن کے برعکس سمگلرز مسلح ہوتے ہیں۔

سبوتیکا کے صحافی ویراگ گیورکووکس کا کہنا ہے کہ ’میں مقامی لوگوں کے خوف کے بارے میں ادراک رکھتا ہوں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ عام آدمی سمگلروں اور تارکین وطن میں فرق نہیں کرتا۔ حالانکہ یہ تارکین وطن خود اس طرح کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔‘

کار حادثہ

،تصویر کا ذریعہREUTERS

مقامی کارکن ولادیمیر پولووینا کا کہنا ہے کہ سرحد پر تار کا صرف ایک مقصد ہے۔۔ اور وہ ہے پیسے وصول کرنا نہ کہ غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کا رستہ روکنا۔

وہ سرحد پار کرنے والے ہر آدمی سے پیسے لینا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس باڑ پر تار ہے تو آپ یہ کام آسانی سے کر سکتے ہیں۔

حکومت کی طرف سے مرتب کی گئی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ لوگ باڑ کے دوسری طرف سیڑھیاں پھینکتے ہیں اور پھر نیچے کودتے ہیں۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ پولیس کی گاڑیوں پر لمبے ڈنڈوں کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں۔ سکیورٹی کیمروں کے ذریعے حاصل کی گئی اس انفراریڈ فوٹیج میں ان لوگوں کے ہاتھوں میں بندوقیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

سمگلروں کے ایک طبقے میں اب ہتھیاروں کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ دن کی روشنی میں سبوتیکا میں بنائی گئی ایک ویڈیو میں سمگلروں کی کار کی فرنٹ سیٹ کے درمیان والی جگہ پر ایک کلاشنکوف دیکھی جا سکتی ہے۔

ہنگری پولیس کے انسداد سمگلنگ یونٹ کے سربراہ گیبور بالوگ کا کہنا ہے کہ باڑ کو مسلسل نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ وہ مختلف پاور ٹولز استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے باڑ کاٹ کر بڑے بڑے سوراخ بنا دیے۔ ان میں سے سینکڑوں سوراخ تو دروازوں کے سائز کے ہیں، جن سے آسانی سے کوئی گزر کر سرحد عبورکر سکتا ہے۔

ایک اور پولیس اہلکار نے تارکین وطن کے ایک گروپ کے خلاف بھی بندوق کی نوک پر باڑ سے دھکیلنے جیسے ناروا سلوک کی تصدیق کی ہے، جس سے ان مسلح سمگلروں کے ان تارکین وطن کے ساتھ ناروا سلوک کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔ سربیا کی رپورٹ کے مطابق ان افراد کو ہنگری میں زبردستی داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ہنگری کی پولیس کا کہنا ہے کہ ہر رات تقریباً 80 افراد باڑ عبور کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ بہت سے دوسرے لوگ بعد میں ملک کے اندر گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔

تارکین وطن

،تصویر کا ذریعہREUTERS

تارکین وطن کو ہنگری پولیس اور سرحد پر تعینات اہلکار بھی مارتے پیٹتے ہیں۔ ان واقعات سے متعلق سربیا کے طبی شعبے کے اہلکار اور ہنگری کے صحافی بھی رپورٹ کرتے ہیں۔ تاہم ہنگری کی پولیس ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

یہاں سے فرار ہونے والوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے، لیکن حراست میں لیے گئے زیادہ تر افراد کو ہورگوس کے قریب باڑ کے دروازے سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

تارکین وطن کو اس طریقے سے واپس بھیجنا بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے، جس کی ’یورپین کورٹ آف جسٹس‘ نے مذمت کی ہے۔

حکام نے ہنگری کی طرف سرحد پر سمگلروں کے زیر استعمال رہنے والی جلی ہوئی تباہ شدہ کاریں بھی قبضے میں لی ہیں۔

ہنگری سے دور دراز سلوواکیہ کے ساتھ شمالی سرحد کے قریب واقع ’ماتراویریبیلی‘ گاؤں میں ایک چوک میں گھاس میں ٹوٹے ہوئے کار کے شیشے اور پلاسٹک کے ٹکڑے پڑے ہوئے ملے ہیں۔

یہ وہ جگہ تھی، جہاں 12 تارکین وطن کو لے کر جانے والی ایک وین پولیس کے تیز رفتار تعاقب کے دوران قابو سے باہر ہو گئی اور حادثے سے تباہ ہو گئی۔

اس میں سات تارکین وطن زخمی ہوئے۔ یہ واقع گذشتہ برس ہنگری میں تارکین وطن کے کم از کم 20 حادثات میں سے ایک تھا۔

آسٹریا کی سرحد کے اس پار پولیس کے پاس صرف مشرقی ریاست برگن لینڈ میں 70 واقعات کی فہرست ہے، جب سمگلروں نے پولیس کی گرفتاری سے بچنے کی کوشش کی۔

آسٹریا کی پولیس ان واقعات کا ذمہ دار گینگ باسز کی جانب سے متعارف کرائے گئے ایک نئے بزنس ماڈل کو قرار دیتی ہے۔ اب ان گروہوں کی طرف سے ڈرائیوروں کو صرف اس صورت میں ادائیگی کی جاتی ہے جب وہ ان تارکین وطن کو لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ ماضی میں انھیں ان کی آدھی رقم پہلے ہی ادا کر دی جاتی تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ