’سمگلروں نے میرے بیٹے کا برین واش کیا‘ یونان کشتی حادثے کے بعد پاکستان میں ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کا حکم
’سمگلروں نے میرے بیٹے کا برین واش کیا‘ یونان کشتی حادثے کے بعد پاکستان میں ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کا حکم
پاکستانی شہری شہریار سلطان کے والد کا کہنا ہے کہ انسانی سمگلروں نے ان کے بیٹے کو جھانسے سے اس کشتی میں بٹھایا جو یونان کے قریب الٹ گئی
’سمگلروں نے میرے بیٹے کا برین واش کیا۔۔۔‘
یونان کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والے پاکستانی شہریار سلطان کے والد شاہد محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایجنٹ نے ایسا اس کا برین واش کیا ہوا تھا کہ ہم اس طرح دو دن میں (یورپ) پہنچ جاتے ہیں۔ تین دن میں پہنچ جاتے ہیں۔‘
مندرہ سے تعلق رکھنے والے شاہد محمود کہتے ہیں کہ ’بس یہ ناسمجھ تھا، اس نے یہ کام کر دیا۔ اس نے جاتے ہوئے پیغام ایسے بھیجا کہ میں جا رہا ہوں۔ 500 کی کشتی ہے اور پانچ، چھ دن لگیں گے۔‘
انھوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ’ایسے ایجنٹس کے خلاف کریک ڈاؤن‘ ہونا چاہیے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے واقعے کی تحقیقات کی ہدایات جاری کرتے ہوئے ’انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کرنے‘ کا وعدہ کیا ہے۔
وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’انسانی سمگلنگ جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کریک ڈاؤن اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔‘
گذشتہ بدھ (14 جون) کو جنوبی یونان کے ساحل پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں کم از کم 78 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں۔
اس واقعے کے بعد ہونے والے ریسکیو آپریشن میں 104 افراد کو بچا لیا گیا تھا مگر بعض اندازوں کے مطابق اس کشتی پر 750 سے زیادہ افراد سوار تھے جن میں سے 100 کے لگ بھگ بچے ہو سکتے ہیں۔
گذشتہ روز پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں تصدیق کی تھی کہ حادثے میں 78 بچنے والوں میں 12 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جن کا تعلق گجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گجرات اور ضلع کوٹلی سے ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ لاپتہ افراد میں سے کتنے پاکستانی ہیں۔ تاہم اخبار گارڈین کے مطابق بعض اندازوں کے مطابق ’کشتی پر سوار پاکستانیوں کی تعداد قریب 400 تک ہوسکتی ہے۔‘
’انسانی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹ گرفتار‘
گارڈین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بچنے والے تارکین وطن نے کوسٹ گارڈز کو دیے بیان میں کہا ہے کہ پاکستانیوں کو کشتی کے نچلے حصے میں سوار کروایا جا رہا ہے جبکہ دوسری شہریت کے لوگ اوپر والے حصے میں سوار تھے لہذا کسی حادثے کی صورت میں پاکستانیوں کے بچنے کے امکان کم تھے۔
صحافی ایم اے جرال کے مطابق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے میرپور ڈویژن سے تین سے چار ماہ کے دوران لیبیا اور اٹلی جانے والے افراد کی فہرستیں ضلعی انتظامیہ نے مرتب کی ہیں جو تاحال لاپتہ ہیں۔
ایم اے جرال کے مطابق ابھی تک 27 افراد کی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں نوجوانوں کی اکثریت کی تعداد تحصیل کھوئیرٹہ سے ہے جبکہ مزید افراد کی چھان بین کی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے میرپور ڈویژن کے کمشنر چوہدری شوکت کا کہنا ہے کہ ’انسانی سمگلنگ میں ملوث مرکزی ایجنٹ کی معاونت کرنے والے نو مقامی افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم کو وفاقی ادارے (ایف آئی اے) نے کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا تھا۔‘
اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ڈوبنے والی کشتی میں چار سو سے ساڑھے سات سو افراد سوار تھے۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم وزیرِ اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے تمام انسانی اسمگلروں کی نشاندہی کرنے کی ہدایات کی ہیں جو لوگوں کو جھانسہ دے کر خطرناک اقدامات پر مجبور کرتے ہیں۔‘
’کوسٹ گارڈ نے مذاکرات کے لیے کشتی سے رسی باندھنے کی کوشش کی‘
خیال رہے کہ یونان کی کوسٹ گارڈ فورس پر کشتی الٹنے سے قبل مدد فراہم نہ کرنے اور اس کے ڈوبنے میں ملوث ہونے کے حوالے سے الزام عائد کیے جا رہے ہیں اور اس واقعے کے تناظر میں یہی موضوعِ بحث ہے۔
یونان کے نگران وزیرِ اعظم ایونس سارمس کا کہنا تھا کہ ’اصل حقائق اور تکنیکی امور کی جامع تحقیقات کی جائیں گی‘ تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ کشتی کیوں ڈوبی۔
یونان کی وزارتِ مائیگریشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’کوسٹ گارڈز کی کشتی حادثے کا شکار ہونے والی کشتی سے ایک مناسب فاصلے پر موجود تھی۔‘
تاہم وزارتِ مائیگریشن کے ایک اہلکار مانوس لوگوٹھیٹس نے چینل فور سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یونان کے کوسٹ گارڈ کی جانب سے حادثے کا شکار ہونے والی کشتی کے ساتھ حادثے سے دو گھنٹے قبل رسی باندھنے کی کوشش کی تاکہ ان سے مذاکرات کیے جا سکیں۔‘
انھوں نے اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کشتی کے بالکل قریب آنے کے لیے کیا گیا تاکہ دونوں کشتیاں برابر موجود ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ایسا ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی تاہم کشتی میں موجود افراد کی جانب سے ’مزاحمت کی گئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کوسٹ گارڈز نے جہاز کے کپتان یا ان افراد میں سے جو بھی بات کرنے کے لیے تیار تھا اس سے بات کی کیونکہ کسی نے یونیفارم نہیں پہنا ہوا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کشتی کے ڈوبنے میں کوسٹ گارڈ ملوث نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ یونان کے کوسٹ گارڈز پر اس سے قبل بھی غیر قانونی طور سمندر کے ذریعے نقل مکانی کرنے والے افراد کو واپس بھیجنے کے حوالے سے الزامات لگائے گئے تھے۔ تاہم مانوس لوگوٹھیٹس نے چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونان کے کوسٹ گارڈ اپنی اور یورپ کی سرحد کی حفاظت کر رہے تھے۔‘
اقوامِ متحدہ کے دو اداروں کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے اور ایک مشترکہ اعلامیے میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’سمندر میں مشکلات میں گھرے افراد کو ریکسیو کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ بین الاقوامی میریٹائم قانون کا بنیادی اصول ہے۔‘
گذشتہ برس اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انھوں نے 540 ایسے واقعات ریکارڈ کیے ہیں جن میں یونان کی جانب سے کشتیوں کو واپس بھیجا گیا تھا۔
تاحال اس حوالے سے تفصیلات سامنے آنا باقی ہیں کہ یونان کشتی حادثے کی وجوہات کیا بنیں اور کیا اس میں یونانی حکام ملوث ہیں یا نہیں۔
’باپ یورپ کے سفر پر روانہ ہوا تو بیٹے کی وفات ہو گئی‘
کیل سے تعلق رکھنے والے خوشحال خان کے مطابق ان کے ایک پڑوسی چوہدری ناصر کی کہانی کافی دل دکھا دینے والی ہے۔
انھوں نے صحافی محمد زبیر خان سے بی بی سی کے لیے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ناصر اپنے علاقے میں ویلڈنگ کا کام کرتا تھا مگر پھر ہمارے علاقے کے چند نوجوان کچھ عرصہ قبل یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو وہ بھی ان سے متاثر ہوا اور اُدھار پکڑ کر ایک ایجنٹ کو پیسے دے دیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’وہ کوئی دو ماہ پہلے یورپ جانے کے لیے نکلا تھا۔ اس کے گھر سے نکلنے کے چند ہفتوں بعد اس کے پانچ سالہ بیٹے کی وفات ہو گئی۔ ہمارے سارے علاقے میں تو مشہور ہے کہ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کے ساتھ بہت محبت کرتے تھے کیونکہ وہ کام کے دوران بھی اپنے والد کے ساتھ دکان پر ہی ہوتا تھا اور علاقے میں مشہور ہو گیا کہ بیٹا باپ کی جدائی برداشت نہیں کر سکا۔‘
خوشحال خان نے دعویٰ کیا کہ جب بیٹے کی وفات ہوئی تو اس وقت چوہدری ناصر لیبیا میں تھے اور چاہتے تھے کہ وطن واپس آ جائیں مگر ان کا پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات ایجنٹ کے پاس تھے۔ ’ناصر کو اس کے بیٹے کی نماز جنازہ لائیو کال کے ذریعے دکھائی گئی۔ اس موقع پر وہ رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ جس بیٹے کے لیے اتنی مشکلات سہہ رہا ہوں اب وہ ہی نہیں رہا تو میں یورپ جا کر کیا کروں گا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ناصر کی یورپ جانے والی کشتی میں سوار ہونے سے دو دن پہلے اپنے رشتہ داروں سے بات ہوئی تھی مگر اب وہ لاپتہ ہے۔
Comments are closed.