سمندر کی گہرائی میں ٹائٹن کے ساتھ کیا ہوا ہو گا؟

ٹائٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آبدوز ٹائٹن کا حادثہ ایک افسوسناک سانحہ ہے جو بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے۔

اوشیئن گیٹ کمپنی نے پہلے ہی بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر جانے والی آبدوز ٹائٹن میں سوار پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔

امریکی حکام نے جمعرات کو ٹائٹن کے ممکنہ طور پر بھیانک حادثے کی اطلاع دی۔ یہ مقام شمالی بحر اوقیانوس میں چار ہزار میٹر کی گہرائی میں واقع ہے۔

کینیڈا کے کوسٹ گارڈ کے مطابق انھیں ملبہ ملا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ آبدوز سمندر کے پانی کے دباؤ سے انتہائی بھیانک طریقے سے تباہی ہوئی۔ انھوں نے اس واقعے میں مرنے والوں کے لیے تعزیت کا اظہار کیا۔

اب ماہرین اس بات کی تحقیقات کریں گے کہ کیا ہوا اور اس سے بچنے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے تھا۔

وہ اپنی تحقیق میں ٹائٹینک کے قریب سے ملنے والے ٹکڑوں کا جائزہ لیں گے۔

برطانوی رائل نیوی کی آبدوز کے سابق کپتان ریان رمسی کے مطابق حکام اس سانحے کو ہر پہلو سے سمجھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ملبہ اکٹھا کریں گے۔

ان کے مطابق ’یہ ہوائی جہاز کے حادثے سے مختلف نہیں ہو گا۔ بس فرق یہ ہے کہ یہاں کوئی بلیک باکس نہیں ہے، اس لیے آپ آبدوز کی آخری حرکات کو خود نہیں دیکھ پائیں گے، لیکن وہ جتنے پُرزے جمع کر سکتے ہیں جمع کریں گے۔

ان کو ’سٹریکچرل رپچر‘ (ساختی ٹوٹ پھوٹ) کا تجزیہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے، ٹائٹن آبدوز میں کسی بھی ممکنہ دراڑ پڑ جانے کی صورت میں وہ کسی خاص نتیجے تک پہنچ جائیں کہ آخری لمحات میں کیا ہوا ہوگا۔

Sub

،تصویر کا ذریعہOceanGate Expeditions

ٹائٹن کے سمندر سے ملنے والے ملبے کے پانچ ٹکڑوں میں اس کا پچھلا ڈیک اور آبدوز کے سامنے کا ایک حصہ ملا ہے۔

یہ حصے ٹائٹینک سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے سے ملے ہیں۔

کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماؤگر نے کہا کہ بحر اوقیانوس میں دھماکے کے وقت کا تعین کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔

تاہم ملبے کو تلاش کرنے کے چند گھنٹے کے بعد امریکی بحریہ نے کہا کہ کچھ دن پہلے اس نے ٹائٹن کا سطح سے رابطہ ختم ہونے کے بعد ایک دھماکے کی آواز کا پتا لگایا۔ اتوار کو ٹائٹن آبدوز کا باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

اس تفریحی سفر کا انتظام کرنے والی اوشیئن گیٹ کمپنی، جس کے بانی بھی ٹائٹن آبدوز میں سوار تھے، نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے 61 برس کے سی ای او سٹاکٹن رش، 48 برس کے پاکستانی تاجر شہزادہ داؤد اور ان کے 19 برس کے بیٹے سلیمان داؤد، 58 برس کے ہمیش ہارڈنگ اور 77 پال ہینری، کو ہم کھو چکے ہیں۔‘

Titen

،تصویر کا ذریعہOCEAN GATE EXPEDITIONS

ساخت کی خرابی

تحقیقات میں کاربن فائبر کے ان ٹکڑوں کا کلیدی کردار ہو گا جو اس ٹائٹن آبدوز کی ساخت میں استعمال کیے گئے تھے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس آبدوز کی ساختی خرابی ہی تھی جس کی وجہ سے یہ پاش پاش ہو گئی۔

کاربن فائبر فلیمینٹس کی سمت کا تجزیہ کرنے کے لیے ہر ٹکڑے کا ایک خوردبین کے ذریعے باریک بینی سے جائزہ لیا جائے گا اور اس حادثے کے درست مقام کا پتا چلایا جائے گا۔

یونیورسٹی آف ساؤتھمپٹن ​​کے پروفیسر بلیئر تھورنٹن نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی رائے دی کہ اس آبدوز کے ساتھ کیا ہوا ہو گا؟

انھوں نے کہا کہ آبدوز میں خرابی پیدا ہونے کے بعد یہ سمندر میں ناقابل یقین حد تک دباؤ کا شکار ہوئی ہو گی، جس نے ایفل ٹاور کے وزن کے برابر یعنی دسیوں ہزار ٹن کے دباؤ سے اس آبدوز کو کچل دیا ہو گا۔

ان کے مطابق ’ہم اس آبدوز کے مرکزی حصے میں ایک بہت ہی طاقتور دھماکے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘

تفتیش کاروں کو یہ بھی تجزیہ کرنا پڑے گا کہ آیا اس آبدوز کا سفر پر روانہ ہونے سے قبل ضروری معائنہ نہ ہونے کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔

امپیریل کالج لندن کے پروفیسر روڈرک اے سمتھ نے کہا کہ اس سوال کا جواب دینے میں ملبے کے سب سے اہم ٹکڑوں میں سے آبدوز کے ٹوٹنے والی جگہ کا کاربن فائبر والا حصہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

Titen

،تصویر کا ذریعہOCEANGATE

ان کے مطابق ’کاربن فائبر اپنی تعمیر میں اندرونی نقائص کی وجہ سے ناکام ہو جاتا ہے۔ کاربن فائبر اور ٹائٹینیم کے درمیان جوڑوں کو بہت محتاط معائنہ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’بھیانک حادثے کا مطلب یہ ہے کہ اس آبدوز کو پیش آنے والے واقعات کی ترتیب کا تعین کرنا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ اس لیے آبدوز کے ان حصوں کی ’ریکوری‘ اور اگر ممکن ہو تو مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘

اس مرحلے پر یہ واضح نہیں ہے کہ کون سی ایجنسی تحقیقات کرے گی کیونکہ آبدوز کے ساتھ اس قسم کے واقعات کا کوئی پروٹوکول نہیں ہے۔

ریئر ایڈمرل ماگر نے کہا کہ یہ خاصا پیچیدہ ہے کیونکہ یہ واقعہ سمندر کے ایک دور دراز حصے میں پیش آیا اور اس میں مختلف ممالک کے لوگ شامل تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ