سمندر کی گہرائیوں میں موجود معدنی خزانے کے حصول کی دوڑ جس کے باعث عالمی طاقتوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے
- مصنف, نوین سنگھ کھڑکا
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- 26 منٹ قبل
دُنیا کی تاریخ زمین اور سمندروں پر ہونے والے تنازعات سے بھری پڑی ہے لیکن اب یہ تنازعات شاید سطح سمندر سے نکل کر اس کی عمیق گہرائی میں جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔سطح سمندر سے ہزاروں میٹر نیچے ایسے معدنیاتی وسائل کے بڑے ذخیرے موجود ہیں جس کی مدد سے ناصرف دُنیا میں توانائی کا شعبہ ترقی کر سکتا ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ اِن معدنیات کا استعمال عسکری ساز و سامان اور ہتھیار بنانے میں بھی کیا جا سکتا ہے۔سمندر کی گہرائیوں میں پائی جانے والی یہ معدنیات تاحال کسی ملک نے نہیں نکالی ہیں، تاہم چین، انڈیا اور روس کی نجی اور سرکاری ایجنسیاں اب اِن معدنیات کو حاصل کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔متعدد ممالک اور ایجنسیوں نے اقوامِ متحدہ سے منسلک ادارے ’انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی‘ سے سمندر میں ان معدنیات کی تلاش کے لیے لائسنس حاصل کر لیے ہیں۔
ان معدنیات کے حوالے سے ان تمام ممالک اور کمپنیوں کی نظریں شمالی بحیرہ الکاہل کے کلیرین کلپرٹن زون، شمالی بحیرہ اوقیانوس کے مڈ اٹلانٹک رِج اور بحیرہ ہند پر ہیں۔امریکہ بھی اپنی حدود میں موجود سمندری علاقے سے یہ معدنیات نکالنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے سمندری قوانین کے کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں اس لیے ان کی جانب سے اپنے ملک کی حدود میں موجود سمندر سے آگے نکل کر بین الاقوامی سمندری حدود میں معدنیات کی تلاش کی کوشش نہیں کی جا رہی۔’انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی‘ کی جانب سے اب تک سمندر میں معدنیات کی تلاش کے 31 اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 17 اجازت نامے کلیرین کلپرٹن زون، جو کہ ہوائی اور میکسیکو کے درمیان واقع ہے، میں معدنیات کی تلاش کے لیے جاری کیے گئے ہیں۔کلیرین کلپرٹن زون میں ’پولی میٹیلک‘ کے ذخائر موجود ہیں جو کہ آلو کی شکل کا ایک پتھر ہے اور اس میں منگنیز، کوبالٹ، نِکل اور تانبہ وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ان معدنیات میں موجود لیتھیم اور گریفائٹ کا استعمال الیکٹرک گاڑیاں، سولر پینلز، پن چکیوں اور بیٹریاں بنانے میں ہوتا ہے۔
ان معدنیات کی اتنی مانگ کیوں ہے؟
دنیا میں گہرے پانیوں میں موجود معدنیاتی ذخائر میں دلچسپی اُس وقت بڑھی جب یہ بات سامنے آئے کہ ان کا استعمال دنیا کو ماحول دوست توانائی کی طرف منتقلی میں مدد دے سکتا ہے۔انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق الیکٹرک گاڑیوں کو عام گاڑیوں کے مقابلہ میں ان معدنیات کی ضرورت چھ گُنا زیادہ ہوتی ہے، جبکہ پن چکیوں کو بنانے میں جس ٹیکنالوجی کا استعمال ہوتا ہے اس کی تیاری کے لیے بھی یہ معدنیات درکار ہیں۔ورلڈ بینک کے ایک اندازے کے مطابق 2050 تک دُنیا کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سمندر میں موجود معدنیاتی ذخائر کو نکالنے کی کوششوں میں پانچ گُنا اضافہ کرنا پڑے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا کی توانائی کی ضروریات کو پورے کرنے کے لیے سمندر کی تہہ سے تقریباً تین ارب ٹن معدنیات اور دیگر دھاتیں نکالنی ہوں گی۔زیرِ سمندر کان کُنی کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ زمین پر روایتی کان کُنی کے طریقوں سے دُنیا کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی کیونکہ سطح زمین پر موجود معدنیات کا معیار دن بدن گِرتا جا رہا ہے۔ لیکن زیرِسمندر معدنیات کی تلاش سے ماحولیاتی آلودگی پھیلنے اور مختلف نئے تنازعات کے پیدا ہونے کے خطرات بھی موجود ہیں۔اس وقت دنیا میں سطح زمین پر موجود معدنیات نکالنے والے ممالک میں آسٹریلیا، چلی اور چین شامل ہیں۔آسٹریلیا بڑے پیمانے پر لیتھیم، چلی تانبہ اور چین گریفائٹ پیدا کرتا ہے۔ گریفائٹ کا استعمال سمارٹ فونز اور کمپیوٹرز بنانے میں ہوتا ہے۔جبکہ کانگو، انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ بھی کوبالٹ، نکل، پلاٹینم اور اریڈیم کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑے کھلاڑی تصور کیے جاتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
چین کی سمندر میں بڑھتی ہوئی دلچسپی
چین اپنی زمینی حدود سے باہر بھی ان معدنی ذخائر کو تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے جس کے سبب اس کے علاقائی حریفوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اب چین نے زیرِ سمندر بھی معدنیات کی تلاش پر نظریں مرکوز کر رکھی ہیں۔’انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی‘ کے مطابق چین کے پاس زیرِ سمندر معدنیات کی تلاش کے لیے پانچ لائسنس موجود ہیں جبکہ روس کے پاس چار لائسنس ہیں۔انڈیا ’انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی‘ سے دو لائسنس حاصل کر چکا ہے جبکہ اس کی جانب سے مزید دو لائسنس حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔امریکہ میں واقع ادارے ’ہوریزن ایڈوائزری‘ کے شریک بانی ناتھن پکارسک اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ان معدنیات کے حصول کی کوششوں میں اضافے کے سبب علاقائی تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی کے مطابق چین دہائیوں سے ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے جس سے ان معدنیات کو حاصل کرنے اور ان کو استعمال شدہ بنانے میں اسے کافی مدد مل رہی ہے۔ چین کے پاس اس وقت اچھے معیار کی گریفائٹ اور ڈسپروزیم کی 100 فیصد، کوبالٹ کی 70 فیصد اور لیتھیم اور منگنیز کی 60 فیصد سپلائی موجود ہے۔اس کے علاوہ چین نے ان معدنیات اور ان کو بہتر بنانے والی ٹیکنالوجی کی برآمدات پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد چین کی قومی سلامتی اور مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔اس حوالے سے امریکہ کی انرجی سیکریٹری جینیفر گرانہوم نے اگست 2023 میں ایک اجلاس کے دوران کہا تھا کہ ’ہمارا مقابلہ ایک ایسی بڑی طاقت سے ساتھ ہے جو کہ سیاسی طاقت کے حصول کے لیے مارکیٹ کو عدم توازن کا شکار کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔‘
دو مہینے قبل امریکہ کی آرمڈ سروسز کمیٹی نے محکمہ دفاع کو یہ ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ ملک کی زیرِ سمندر کان کُنی کی صلاحیتوں کا جائزہ لیں۔کمیٹی کا کہنا تھا کہ ’حالیہ برسوں میں چین نے قومی سلامتی اور سٹریٹیجک منصوبہ سازی کے لیے زیرِ سمندر معدنیات پولی میٹیلک نوڈیلوز کے حصول کی کوششوں کے لیے جارحانہ اقدامات کیے ہیں۔‘آرمڈ سروسز کمیٹی نے مزید کہا تھا کہ بین الاقوامی سپلائی پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے امریکہ کو زیرِسمندر معدنیات کے حصول کے لیے خود بھی کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ اسے ان معدنیات کو حاصل کرنے کے لیے غیرملکی حریفوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔امریکہ نے 2022 میں آسٹریلیا، کینیڈا، فن لینڈ، فرانس، جرمنہ، جاپان، جنوبی کوریا، سویڈن، برطانیہ اور یورپی کمیشن کے ساتھ مل کر ’منرلز سکیورٹی پارٹنرشپ‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ اب اٹلی اور انڈیا بھی گروپ کا حصہ بن گئے ہیں۔
زیرِسمندر معدنیات کے حصول میں رُکاوٹ کیا ہے؟
سمندر کی تہہ میں موجود ان معدنیات کو نکالنے کا کام تاحال نہیں شروع کیا جا سکا ہے اور اس حوالے سے ’انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی‘ قواعد و ضوابط مرتب کر رہی ہے۔سائنسدانوں اور سمندری ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ماہرین دُنیا کو خبردار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ زیرِ سمندر کان کُنی کے ماحول پر منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے منسلک پروفیسر لیسا لیون کہتی ہیں کہ ممکنہ طور پر زیرِ سمندر کان کُنی کے حوالے سے قواعد و ضوابط اگلے برس تک تیار کر لیے جائیں گے، لیکن اس کے باوجود بھی ایسے بہت سے سوالات باقی ہیں جن کے جوابات کسی کے پاس موجود نہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ زیرِ سمندر معدنیات کی تلاش کے دوران سمندر کے ماحول، پانی اور آبی حیات پر کیا اثرات پڑیں گے۔دنیا کے 20 ممالک بشمول برازیل، کینیڈا، کوسٹا ریکا، فن لینڈ اور سوئٹرزلینڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے پر مزید تحقیق ہونے تک زیرِ سمندر کان کُنی پر پابندی عائد کی جائے۔اس کے باوجود بھی رواں سال جنوری میں ناروے کی پارلیمنٹ نے حکومت کو آرکٹک ریجن میں معدنیات کی تلاش کی اجازت دے دی ہے۔،تصویر کا ذریعہThe Metals Company
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.