- مصنف, ٹریسی ٹیو
- عہدہ, بی بی سی، ٹریول
- 2 گھنٹے قبل
جب میں بحر اوقیانوس اور خلیج میکسیکو کے درمیان میلوں کے سمندری راستے سے گزر رہی تھی تو سیگل اوپر چِلا رہے تھے۔ بظاہر آسمان پگھل کر سمندر میں مل رہا تھا۔ تا حد نگاہ نیلے رنگ کا منظر تھا۔جیسے ہی میں نے اپنے دھوپ کے چشمے ایڈجسٹ کیے، مجھے اپنی آنکھ کے کونے سے پانیوں میں ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی۔ وہاں ایک بوٹل نوز ڈولفن تھی۔ اس کے ساتھ اس کے دوست بھی تھے اور جلد ہی اس گروہ نے آبی بیلے ڈانس کا مظاہرہ کیا، انھوں نے لہروں میں واپس گرنے سے پہلے خوبصورت قوس بنائی۔مچھلی پکڑنے والی کشتیاں میرے اردگرد گھوم رہی تھیں اور میرا بھی مچھلی پکڑے کے لیے کانٹا ڈالنے کا جی چاہا لیکن ہائی وے پر 50 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے ایسا کرنا مشکل ہوتا۔میامی سے کی ویسٹ، فلوریڈا کے جزیرے تک کا سفر کرنا، کبھی بھی آج جتنا آرام دہ نہیں تھا۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں براعظم امریکہ کے جنوبی مقام تک سفر کرنے کا واحد راستہ کشتی پر ایک دن کا سفر تھا اور یہ بھی موسم اور لہروں پر منحصر تھا۔
’اوورسیز ہائی وے‘ کے نام سے مشہور انجینیئرنگ کے ایک حیرت انگیز عجوبے کی بدولت جو مین لینڈ کے جنوبی سرے سے 42 پلوں پر 44 ٹراپیکل جزیروں پر 113 میل تک پھیلا ہوا ہے، جب میں ایک ایسی جگہ پر جا رہا تھا جہاں شمالی امریکہ اور کیریبین ملتے ہیں تو میں بظاہر مینگرووز کے جنگلات اور کیز (چٹانوں) کے درمیان تیر رہا تھا۔اوورسیز ہائی وے دراصل اوور سی ریل روڈ کے طور پر شروع ہوئی تھی اور یہ دور اندیش ڈویلپر ہنری موریسن فلیگلر (جنھیں’جدید فلوریڈا کے باپ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے) کے دماغ کی پیداوار تھی۔ 1870 میں فلیگلر نے کاروباری شخصیت جان ڈی راک فیلر کے ساتھ مل کر سٹینڈرڈ آئل کمپنی کی مشترکہ بنیاد رکھی اور یہ 20ویں صدی کے آغاز میں دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور کارپوریشنوں میں سے ایک بن گئی۔فلوریڈا کا دورہ کرنے اور ’دی سن شائن سٹیٹ‘ کی سیاحتی صلاحیت کو تسلیم کرنے کے بعد فلیگلر نے اس خطے میں اپنی زیادہ تر دولت خرچ کی، پرتعیش ریزورٹس تعمیر کیے جس نے امریکہ کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک کو شمال مشرقی امریکہ کے مسافروں کے لیے موسم سرما کی جنت میں تبدیل کردیا۔ اس کے باوجود، مہمانوں کے لیے فلیگلر کے شاندار لیکن دور دراز تفریحی مقامات تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔،تصویر کا ذریعہRobert Zehetmayer/Alamyلہٰذا 1885 میں فلیگلر نے فلوریڈا کے بحر اوقیانوس کے ساحل کے ساتھ فلوریڈا کے شمالی سرے پر جیکسن ویل سے ریاست کے جنوبی سرے کے قریب میامی تک الگ الگ ریلوے لائنوں کا ایک سلسلہ منسلک کیا۔میامی کو لائن کا اختتام ہونا چاہیے تھا لیکن جب امریکہ نے 1904 میں پانامہ نہر پر تعمیر شروع کی تو فلیگلر نے کی ویسٹ کے لیے زبردست صلاحیت دیکھی، نہر کے قریب ترین زمین کا ٹکڑا اور جنوب مشرقی امریکہ میں سب سے گہری بندرگاہ۔سگار اور ماہی گیری کی صنعتوں کی بدولت یہ مصروف مرکز پہلے ہی پھل پھول رہا تھا (کی ویسٹ 1900 تک فلوریڈا کا سب سے بڑا شہر تھا) لیکن جزیرے کے دور دراز مقام پر ہونے کی وجہ سے سامان کو شمال کی طرف منتقل کرنا مشکل اور مہنگا بن گیا۔لہٰذا فلیگلر نے اپنے ٹریک کو 156 میل جنوب میں کی ویسٹ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا، جس کا زیادہ تر حصہ کھلے سمندر پر تھا۔اس نام نہاد کی ویسٹ ایکسٹینشن کو ان کے بہت سے ہم عصروں نے ناممکن قرار دیا تھا اور ان کے نقطہ نظر کو ان کے ناقدین نے ’فلیگلر کی حماقت‘ کا نام دیا تھا۔ 1905 اور 1912 کے درمیان تین سمندری طوفانوں نے تعمیراتی مقام کو متاثر کیا، جس میں 100 سے زیادہ مزدور ہلاک ہو گئے۔بے خوف ہو کر فلیگلر آگے بڑھتے رہے اور اس میں سات سال لگے۔ پانچ کروڑ ڈالر(آج کے 1.56 ارب ڈالر) اور ریلوے کی تعمیر کے لیے چار ہزار افریقی امریکی، بہامین اور یورپی تارکین وطن نے مگرمچھوں، بچھوؤں اور سانپوں سے مقابلہ کیا۔جب ریلوے بالآخر 1912 میں مکمل ہوئی تو اسے ’دنیا کا آٹھواں عجوبہ‘ کہا جاتا تھا۔،تصویر کا ذریعہState Archives of Florida / Florida Memory/Alamy
،تصویر کا ذریعہJeffrey Isaac Greenberg 8+/Alamyسٹاپس کا ایک سلسلہ مسافروں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ انجینئرنگ کا یہ معجزہ کیسے آیا۔ میامی سے 69 میل جنوب میں واقع کی لارگو فلوریڈا کیز کا سب سے شمالی اور پہلا سٹاپ ہے۔مگر مچھ، سانپ اور دیگر پانی کی مخلوقات نے فلیگلر کے تعمیراتی عملے کو خوفزدہ کر دیا ہو گا لیکن ان دنوں، مسافر کی لارگو (خود ساختہ ’دنیا کا غوطہ خور دارالحکومت‘) آتے ہیں تاکہ اس کی سمندری زندگی کو دیکھ سکیں۔جان پینی کمپا کورل ریف سٹیٹ پارک سے متصل فلوریڈا کیز نیشنل میرین سینکچوری شمالی امریکہ کی واحد زندہ کورل ریف میں غوطہ خوروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔یہاں سمندری گھاس کے فرش مچھلیوں، مینیٹس (سمندرے گائے) اور سمندری کچھوؤں کے لیے اہم رہائش گاہ فراہم کرتے ہیں لیکن سب سے بڑی کشش ’کرائسٹ آف دی ڈیپ‘ کا بازو پھیلائے 9 فٹ اونچا کانسی کا مجسمہ ہے جو 1965 سے سیاحوں کو آتے دیکھ رہا ہے۔ایک بار جب آپ خشکی پر آ جائیں تو اسلاموراڈا کا رخ کریں، میامی اور کی ویسٹ کے درمیان ایک کمیونٹی جو کبھی سمندر کے اوپر ریلوے سٹیشن کا مقام ہوا کرتی تھی۔یہاں عجائب گھر میں ٹرین کے سنہری دور کے نوادرات بھی پیش کیے گئے ہیں، جن میں کار میں پیش کیے جانے والے پکوان بھی شامل ہیں، ساتھ ہی ایک اصل مینو بھی دکھایا گیا ہے جس میں ایک سرلوئن سٹیک کی قیمت 1.60 ڈالر ہے۔سنہ 1908 سے 1912 تک تقریباً 400 مزدور اسلاموراڈا سے 35 میل جنوب میں واقع ایک چھوٹے سے مرجان کے جزیرے پیجن کی میں ایک کیمپ میں رہتے تھے، انھوں نے سمندر کے اوپر ریلوے کا سب سے مشکل حصہ تعمیر کیا، مشہور سات میل برج (جسے عام طور پر اولڈ سیون کہا جاتا ہے) جو وسطی اور لوئر کیز کو جوڑتا تھا۔سنہ 1909میں سول انجینیئر ولیم جے کروم کو کھلے پانی کی 6.8 میل کی وسعت کو عبور کرنے کا مشکل کام سونپا گیا تھا۔ تعمیراتی عملہ چوبیس گھنٹے کام کرتا رہا اور اس راستے کا سب سے لمبا پل تعمیر کرنے کے لیے سمندر کے وسط میں 700 سے زائد معاون پائلنگز (ستون) چلا رہا تھا، جو بعض اوقات سطح سمندر سے تقریبا 30 فٹ نیچے ہوتا تھا۔انھیں غوطہ خوروں کی مدد حاصل تھی جنھوں نے ریلوے ٹریک کے وزن کو سہارا دینے کے لیے زیر آب کنکریٹ پیڈسٹل بنانے میں مدد کی۔،تصویر کا ذریعہFL Stock/Alamy
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.