سلطنت عثمانیہ میں جانشینی کی ’خونیں دنیا‘ جہاں طاقتور لونڈیاں بادشاہ گر تھیں

سلطنت عثمانیہ کے حرم میں ایک نوجوان عورت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سلطنت عثمانیہ کے حرم کا تصویری خاکہ

  • مصنف, ڈیزی روڈریگیز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ

اس مضمون کو پڑھنے کے بعد سلطنت عثمانیہ میں حرم کے تصور کے بارے میں آپ کا نظریہ بدل سکتا ہے۔

سلطنت عثمانیہ کے حرم کی بدولت تاریخ کی چند طاقتور ترین خواتین دنیا کے سامنے آئی تھیں۔

ییل یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ایلن میخائل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عثمانی تاریخ کے 600 سے زائد برسوں میں، تقریباً تمام سلطانوں کی مائیں تکنیکی اعتبار سے غلام تھیں‘ اور دنیا کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک میں سیاسی طاقت کے کھیل میں خواتین کا اثر و رسوخ قابل ذکر تھا۔

ایبرو بویار نے اپنی کتاب ’عثمانی خواتین اِن پبلک سپیس‘ میں لکھا کہ ان میں سے بہت سی خواتین اس کوشش میں کامیاب ہوئیں کہ وہ حرم میں اپنا وجود نہ کھو بیٹھیں یا سلطانوں کے لیے محض جنسی اشیا یا بچے پیدا کرنے والی عورتیں ہی نہ بن کر رہ جائیں۔

’وہ مختلف سطحوں اور مختلف کرداروں میں نظر آنے والی سیاسی کردار تھیں۔‘

تبدیلی

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سلطان سے قربت نے شاہی حرم میں غلام بن کر آنے والی کچھ خواتین کے لیے سماجی ترقی کے مواقع کھول دیے

اگرچہ سلطنت عثمانیہ کے کچھ شہزادوں اور سلطانوں نے محبت کی شادیاں کیں جبکہ بہت سے تعلق سیاسی اور سٹریٹیجک وجوہات کی بنا پر قائم ہوئے۔

مثال کے طور پر عثمانی حکمران سیاسی اتحاد قائم کرنے یا اسے مضبوط کرنے کے لیے خطے کے دیگر رہنماؤں کی بیٹیوں سے بھی شادیاں کرتے تھے۔

اس نکتے کی نشاندہی ایبرو بویار نے کی ہے، جو ترکی میں مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں۔

مگر پھر وقت کے ساتھ ایک نمایاں رجحان اُبھر کر سامنے آیا۔

میخائل کہتے ہیں کہ ’سلطان کی ترجیح ہوتی تھی کہ ان کے بچے، یعنی شہزادے اور مستقبل کے سلطان، ان کی بیویوں کے بجائے ان کی لونڈیوں کے بطن سے پیدا ہوں۔‘

یعنی اولاد پیدا کرنے کے لیے انھوں نے حرم میں سے ہی کسی ایک عورت کا انتخاب کیا۔ بویار کہتے ہیں کہ اس طرح وہ آزاد خواتین، جو ایک مخصوص خاندان یا اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں ایک طرف رہ گئیں۔

سلطانوں نے اپنے وارث کی ماں کے طور پر ایسی خواتین کا انتخاب کرنا شروع کیا جن کا کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا۔

بویار کہتے ہیں کہ اس دور میں ’اگر ایک بیٹا بیوی سے ہوا اور دوسرا لونڈی سے، تو دونوں کو تخت پر بیٹھنے کا یکساں حق تھا۔‘

ان کے مطابق حکمرانوں نے اس فکر کے بغیر لونڈیوں سے اولاد پیدا کی کہ انھیں ان سے شادی کرنی ہے۔

بہت سے امیدوار

1877 میں سلطنت عثمانیہ کے حرم میں خواتین کی تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

1877 میں سلطنت عثمانیہ کے حرم میں خواتین کا تصویری خاکہ=

عثمانی فتوحات کے نتیجے میں بہت سی خواتین کو زبردستی شاہی دارالحکومت لے جایا گیا۔

میخائل وضاحت کرتے ہیں کہ ’اگر ہم سلطنت کے کلاسیکی دور کی بات کریں تو ان میں سے بہت سی خواتین جنوبی اور مشرقی یورپ سے آئی تھیں۔ یعنی موجودہ رومانیہ اور یوکرین، نیز جنوبی روس، بحیرہ اسود کے علاقے اور قفقاز سے۔‘

’جب وہ ایک بار حرم میں آ جاتیں تو وہ سلطان کی ملکیت بن جاتیں جن کے ساتھ اسے جنسی تعلق قائم کرنے کا حق حاصل تھا۔‘

بویار کا کہنا ہے کہ لیکن جس چیز نے ایک عام لونڈی کو طاقتور بنا دیا وہ بچہ پیدا کرنا تھا، ’خاص طور پر اگر وہ لڑکا ہوتا۔‘

ایک ایسے وقت میں جب بہت سے بچے صحت کے مسائل کی وجہ سے کم عمری میں ہی وفات پا جاتے تھے، زیادہ مرد وارث پیدا کرنا اہم اور ضروری سمجھا جاتا تھا۔

میخائل کہتے ہیں کہ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ایک خاص عمر کے بعد شہزادے کو میدان جنگ میں جانا ہوتا جہاں اس کی ہلاکت کا امکان موجود ہوتا۔

’سلطنت عثمانیہ کی بنیاد موروثیت تھی اور اگر مرد وارث نہ ہوتے تو یہ ختم ہو جاتی۔‘

’اس لیے یہ ضروری تھا کہ مرد بچوں کی زیادہ تعداد موجود ہوتی تاکہ اگر کسی ایک کو کچھ ہو بھی جائے تو دوسرا بچہ اقتدار کرنے کے لیے موجود ہو۔‘

حرم سے اقتدار تک

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

حرم میں خواتین مختلف کام انجام دیتی تھیں، جیسے رقص، موسیقی بجانا، جگہ کی دیکھ بھال کا خیال رکھنا

پروفیسر میخائل کہتے ہیں کہ حرم میں ماں اور بیٹا ’ایک ٹیم‘ کی طرح ہوتے تھے۔

سلطان کا جانشین بننے کی دوڑ میں، مائیں اہم اس لیے ہوتی تھیں کہ وہ اپنے بچوں کو اس رتبے تک پہنچنے میں مدد فراہم کر سکتی تھیں۔

’کون سا بیٹا اپنے باپ کی طرف سے سب سے زیادہ پسند کیا جائے گا؟ کس کو بہترین تعلیم ملے گی؟ کون سا بیٹا بڑا ہو کر سلطنت میں اہم مقام حاصل کرے گا؟‘

اس طرح نہ صرف ورثا کے درمیان بلکہ ان کی ماؤں کے درمیان بھی ایک قسم کے مقابلے کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔

جب یہ بچے بڑے ہوتے، 10 اور 15 سال کی عمر کے درمیان، تو انھیں خود کو جانشینی کا اہل ثابت کرنے کا موقع ملتا اور انھیں ہونے مختلف عہدے یا کام سونپے جاتے: مثال کے طور پر، کسی ایک چھوٹے سے شہر پر حکومت۔

یہ بچے اپنے ماؤں کے ہمراہ جاتے تھے جبکہ اُن کے ساتھ مشیروں کا ایک دستہ بھی موجود ہوتا۔

میخائل کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ 11، 12، 13 سال کا بچہ، جسے کسی شہر کا گورنر مقرر کیا جاتا ہے، ایسی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہو گا، اس طرح یہ واضح ہے کہ ان چھوٹے شہروں کے انتظام میں مائیں بہت اہم کردار ادا کرتی تھیں۔‘

اگرچہ سرکاری طور پر، شہزادہ شہر کا گورنر ہوتا تھا، لیکن حقیقت کچھ اور تھی اور تاریخ دان اسے دستاویزات، عدالتی ریکارڈ اور اس دور میں لکھے گئے خطوط سے جانتے ہیں کہ درحقیت اُن کی ماں شہر کا انتظام سنبھالتی تھیں۔

لیکن سب سے بڑا انعام سلطنت کے دارالحکومت میں تھا۔

’یقیناً، اگر آپ کا بیٹا سلطان بن جاتا ہے، تو خاندان میں آپ کا مقام بدل جاتا ہے، آپ شاہی ماں ہیں، آپ خاندان کے اندر ایک اعلیٰ شخصیت بن جاتی ہیں۔‘

’یہ ایک بہت طاقتور عہدہ ہوتا اور عثمانی تاریخ کے مختلف اوقات میں ایسی ماؤں نے محل میں بہت زیادہ طاقت حاصل کی۔‘

’عثمانی تاریخ کے 600 سال سے زیادہ میں، تقریباً تمام سلطانوں کی مائیں تکنیکی طور پر غلام تھیں، جن کی ابتدا عام طور پر سلطنت عثمانیہ میں نہیں ہوئی تھی اور غالباً وہ کسی عیسائی خاندان میں پیدا ہوئیں اور پھر حرم میں داخل ہونے پر اسلام قبول کر لیا۔‘

محل میں

استنبول

،تصویر کا ذریعہGetty Images

استنبول میں سیاحوں کے لیے پرکشش مقامات میں سے ایک توپکپی محل ہے، جو تقریباً 1478 سے 1856 تک عثمانی شاہی دربار کا انتظامی مرکز اور رہائش گاہ تھا۔

’جب آپ محل میں داخل ہوتے ہیں، تو آپ دیکھتے ہیں کہ حرم عثمانی سلطنت کے سرکاری دفاتر کے بالکل ساتھ ہے۔‘

اس طرح یہ خواتین ’طاقت کے مرکز‘ میں موجود تھیں۔ سلطان، ان کے مشیر اور سینیئر وزرا کے بھی بہت قریب جو سلطنت کا ایسے اہم سیاسی عہدے تھے جو آج کے وزیر اعظم کے برابر ہیں۔

میخائل کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومتی کارروائی کو قریب سے دیکھ کر ہی وہ خود بھی اس میں ملوث ہوئیں ہوں گی۔‘

اس طرح ایک ایسا منظر نامہ وجود میں آیا جسے میخائل ’سب سے بہتر کی بقا‘ کا نام دیتے ہیں۔

’وہ ماں جو تیزی سے سیکھنے کے قابل تھی اور جو کچھ وہ اپنے بیٹے تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوئی، وہ دنیاوی اعتبار سے مفید ثابت ہوتا۔‘

اس کے بعد حرم مستقبل کے سلطانوں کی تربیت کے لیے ایک جگہ بن گیا، جیسا کہ ایک محقق نے 1470 سے 1520 تک راج کرنے والے سلطان سلیم اول کی سوانح حیات ’گاڈز شیڈو‘ میں بیان کیا ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ’تمام تر آسائشوں سے مزین حرم، جسے افسانوی حیثیت دی جاتی ہے، کسی عام مسلمان گھرانے کی نسبت ایک سکول جیسا تھا۔‘

درحقیقت، وہ کہتے ہیں، سلطان بایزید دوم کے بعد تین مضبوط ترین امیدوار لونڈیوں کے بیٹے تھے اور سب نے حرم میں ایک ہی قسم کی تعلیم حاصل کی: زبانیں، فلسفہ، مذہب، عسکری فنون۔

ان میں سے سلیم اول غالب رہے جن کے دور میں سلطنت کی توسیع ہوئی۔

جدوجہد

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

حرم میں مختلف نسلوں، ثقافتوں اور عمروں کی خواتین موجود ہوتی تھیں

جانشینی کی دوڑ میں اکثر سوتیلے بھائی حریف بن جاتے تھے، کچھ ایک دوسرے کے دشمن تک بن جاتے۔

’یہ ممکن ہے کہ ان کے درمیان بہت گہرے رشتے نہ ہوں، کیوںکہ اگرچہ ان کے والد ایک تھے، لیکن وہ ہمیشہ حریف رہیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کے طور پر، حرم میں، انھیں تربیت دی گئی تھی کہ وہ خود کو تخت کے دعویدار کے طور پر دیکھیں۔‘

برسوں بعد، نوعمروں کے طور پر، انھیں مختلف شہروں میں بھیج دیا گیا، جس سے ان کے کبھی قریبی تعلقات قائم کرنے کے امکانات کو مزید کم کر دیا گیا۔

’ایک بار جب ایک بیٹے نے تخت حاصل کر لیا، تو یہ عام بات تھی، خاص طور پر سلطنت کے ابتدائی ادوار میں، کہ وہ اپنے حریفوں کو ختم کر دیتا۔‘

مثال کے طور پر سلیم اول نے تخت سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے دو سوتیلے بھائیوں کو قتل کر دیا۔

پروفیسر میخائل اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ عموماً بڑے بیٹے کو تخت وراثت میں ملتا تھا مگر تکنیکی طور پر کوئی بھی مرد وارث اس کا حقدار تھا۔ لہذا، زیادہ تر جانشینوں میں خونریزی ہوا کرتی تھی۔

سب سے پسندیدہ

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روکسلانہ نے سلیمان کی محبت جیتی اور سلطنت عثمانیہ کی طاقتور ترین خواتین میں سے ایک بن گئیں

پروفیسر بویار کا کہنا ہے کہ سچ یہ ہے کہ جو لونڈیاں ’سلطان کی پسندیدہ‘ بنتی تھیں، وہ ’اپنے پیشروؤں سے زیادہ سیاسی طاقت‘ رکھتی تھیں۔

’سلطان کے دل میں داخل ہو کر، وہ سیاسی اقتدار میں داخل ہو گئیں۔‘

اور اس کی ایک مثال یوکرائنی نژاد غلام روکسیلینا ہے جس نے سلطان سلیمان کی محبت جیتی اور تاریخ میں ایک عظیم ملکہ کے طور پر گردانی گئیں۔

اغوا ہو کر غلامی میں بیچے جانے کے بعد، وہ نوعمری میں سلیمان کے حرم میں آئیں اور پھر پہلے سلطان کی پسندیدہ بنیں، پھر اس کی بیوی اور پھر ان کے کئی بچوں کی ماں۔

لیکن سلیمان، جس نے 1520 اور 1566 کے درمیان حکومت کی، کا پہلے ہی ایک اور عورت سے ایک بیٹا مصطفی تھا اور مصطفیٰ جانشینی کے لیے مضبوط امیدوار تھے۔

لیکن روکسیلینا، جو خود بھی کافی طاقتور بن چکی تھیں، چاہتی تھیں کہ اگلا سلطان ان کا بیٹا بنے اور اسی لیے انھوں نے سلطان سلیمان کو قائل کیا کہ مصطفیٰ ان کا تختہ الٹنے کی سازش کر رہا ہے۔

سلطان نے اپنے بیٹے کو غداری کے الزام میں قتل کر دیا اور یوں سیلم دوم، جو روکسیلینا کا بیٹا تھا، نے تخت سنبھال لیا۔

غلام

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بویار کا کہنا ہے کہ 16ویں صدی کے وسط سے لے کر تقریباً 17ویں صدی کے وسط تک، محل میں ایسی خواتین نمایاں تھیں جن کی حرم میں زندگی کی شروعات تو بطور غلام ہوئی لیکن پھر وہ سیاسی اعتبار سے طاقت ور بنیں۔

تاہم وہ واضح کرتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں غلام کا تصور کافی مختلف تھا۔

میخائل کہتے ہیں کہ جب ہم غلام کا لفظ سنتے ہیں، تو ہم ٹرانس ایٹلانٹک غلاموں کی تجارت کے بارے میں سوچتے ہیں، جو افریقہ سے امریکہ تک لے جائے گئے۔

وہ بتاتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں غلامی موروثی نہیں ہوتی تھی اور غلام آزاد ہو سکتا تھا۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ یقینا یہ خواتین آزاد نہیں تھیں۔ ’ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ، انھیں سلطان کے لیے جنسی طور پر دستیاب ہونا تھا۔‘

لیکن ان کے بچے آزاد پیدا ہو سکتے تھے۔

اپنی کتاب میں، میخائل نے بتایا ہے کہ سلیم اول کی والدہ گلبہار خاتون کے والد نے عثمانی فوج میں شامل ہونے کے لیے اسلام قبول کیا، لیکن ساتھ ہی اپنی بیٹی کو، ایک لونڈی کے طور پر، سلطان کو دے کر ایک بڑا سماجی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ۔

گلبہار یہ جانتی تھیں کہ وہ اپنے آبائی شہر کی نسبت محل میں زیادہ آرام دہ زندگی گزاریں گی اور یہ کہ ان کو ایک سلطان کی ماں بننے کا موقع بھی ملے گا اور اس وجہ سے وہ سلطنت کی سب سے اہم خاتون ہوں گی۔ دنیا کی طاقتور ترین خواتین میں سے ایک۔

اور ایسا ہی ہوا۔ انھوں نے حکومت میں اپنا اثر و رسوخ پھیلایا، جو کہ عثمانی شاہی ماؤں کی پہچان ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ