سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ’جدید ترکی کے بانی‘ کمال اتاترک کون تھے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, نوربرٹو پیریڈس
- عہدہ, بی بی سی نیوز
’حضرات، کل ہم ایک آزاد جمہوریہ کا اعلان کریں گے!‘ مصطفیٰ کمال اتاترک نے 29 اکتوبر سنہ 1923 کو قانون سازوں کے ایک گروپ کے ساتھ عشائیے میں یہ اعلان کیا اور اگلے روز ووٹنگ کے بعد، ترک پارلیمنٹ نے حکومت کی نئی شکل اختیار کی اور اتاترک ترکی کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔
’جمہوریہ زندہ باد! مصطفی کمال پاشا زندہ باد!‘، قانون سازوں نے چیخ چیخ کر یہ نعرے لگائے۔‘
تاہم ماہرین کے مطابق اس تاریخی اعلان کے 100 سال بعد جس نے مشرق وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیا تھا اب اتاترک کی میراث خطرے میں پڑ چکی ہے۔
اتاترک کو ’جدید ترکی کا بانی‘ سمجھا جاتا ہے جبکہ بہت سے لوگ انھیں سلطنت عثمانیہ میں اقلیتوں کے خلاف بدسلوکی کرنے والوں میں سے ایک کے طور پر بھی یاد کرتے ہیں۔ تاہم متضاد آرا کے باوجود اس بات پر اتفاق رائے ضرور ہے کہ اتاترک 20ویں صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے۔
وہ مقبولیت کے اعلیٰ درجے پر 15 سال تک ترکی کی صدارت میں رہنے میں کامیاب رہے اور اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد ملک کی نئی شناخت کیا ہو گی جس کی تقسیم پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں سنہ 1918 میں شروع ہوئی تھی۔
سنہ 1881 میں وہ تھیسالونیکی میں پیدا ہوئے، جب یہ یونانی شہر سابقہ عثمانی ریاست کا حصہ تھا، اتاترک کا تعلق فوجیوں کی اس نسل سے تھا جو سلطنت کے بارے میں فکر مند تھے۔
یورپ کی سب سے بڑی ریاستوں میں سے ایک کا علاقہ تیزی سے سکڑتا جا رہا تھا، جبکہ نسلی قوم پرستی اور مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔
یوسیل یانکداگ، امریکہ کی رچمنڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور ترکی کے ماہر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ سپاہیوں کا خیال تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کو روکنے یا اسے تبدیل کرنے کا ایک طریقہ اسے مغربی اور جدید بنانا ہو سکتا ہے۔‘
یعنی جنگجوؤں کے اس گروہ نے بھی سیکولرازم کی حمایت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے کہ وہ مذہب یا اسلام کو پسند نہیں کرتے تھے، لیکن ان کا خیال تھا کہ یہ کسی نہ کسی طریقے سے سماجی ترقی کو سست کر رہا ہے۔‘
لہٰذا اتاترک نے سلسلہ وار اصلاحات کے ساتھ اپنے ملک کو جدید بنانے کا آغاز کیا جس نے ترکی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
پہلی تبدیلیوں میں ترکوں کو جمہوریت کے ذریعے عوامی خودمختاری کا استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ جمہوریہ کے انقلاب کی بدولت ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی نے 29 اکتوبر 1923 کو جمہوریہ ترکی کے قیام کا اعلان کیا۔
،تصویر کا ذریعہCourtesy Bilal Mughal
کمالیت اور اس کے چھ تیر
نئے ملک کی بنیادی خصوصیات کمالیت کے چھ تیروں پر مبنی تھیں۔ اتاترک کے ذریعے نافذ کردہ نظریے کو ’اتاترکزم‘ بھی کہا جاتا ہے، جو ریپبلکنزم، پاپولزم، قوم پرستی، سیکولرازم، شماریات اور اصلاح پسندی کی علامت ہے۔
زیادہ تر مؤرخین کے لیے ان کی سب سے اہم میراث میں سے ایک خاص طور پر ملک کی سیکولرائزیشن تھی۔
یانکداگ کہتے ہیں کہ ’سلطنتِ عثمانیہ میں دراصل ’نسل اور مذہب‘ کی بنیاد پر جڑیں سلطنت میں بہت مضبوط تھیں اور وہ جانتے تھے کہ یہ اس کے ٹوٹنے کی ایک وجہ تھی۔‘
اتاترک کی سوچ یہ تھی کہ ان مختلف نسلوں اور مذہبی گروہوں کو جمہوریہ ترکی کا حصہ رہنے پر راضی کرنا تھا۔
ترکی نے گریگورین کیلنڈر کو اپنایا، 1926 کی آئینی ترمیم میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا فیصلہ کیا اور لاطینی حروف تہجی کے ترمیم شدہ ورژن نے عربی حروف تہجی کی جگہ لے لی۔
اسی طرح ’جدید ترکی کے بانی‘ نے 1926 میں ایک نیا سول کوڈ نافذ کیا جس نے ملک میں صنفی مساوات کا اعلان کیا۔ پھر ارجنٹائن، کولمبیا، میکسیکو یا وینزویلا جیسے دیگر ممالک سے پہلے خواتین کو 1934 میں ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ترکی میں قابل احترام
اتاترک نے انقرہ کو بھی ایک مرکز بنایا، جو اس وقت چند ہزار باشندوں پر مشتمل ایک چھوٹا شہر تھا۔ یہ ملک کا نیا دارالحکومت تھا جسے استنبول کی جگہ یہ حیثیت دی گئی تھی تاکہ دارالحکومت کو زیادہ مرکزی جغرافیائی مقام پر رکھا جائے۔
کمال اتاترک کو متعدد ایسی وجوہات کے باعث ملک میں ایک قابل احترام شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ترک مصنف نیدم گرسل بی بی سی منڈو کو بتاتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ جب میں پرائمری سکول میں تھا تو میں نے اتاترک کی شان میں نظمیں لکھنا شروع کیں۔
’ترکی میں بلاشبہ ان کی شخصیت سے متاثر لوگوں کا ایک بڑا گروہ اب بھی موجود ہے۔ کمال پسندی کی میراث نہ صرف ترکی کے لیے، بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے انتہائی اہم ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج ہمیں اس پر تنقید بھی کرنی چاہیے۔‘
ترکی کو تبدیل کرنے کے لیے اتاترک اور ان کے ساتھیوں نے سوچا کہ آمریت ہی ان تمام اصلاحات کو نافذ کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
علی یاسی اوگلو، جو کہ ایک تاریخ دان ہیں، بتاتے ہیں کہ ’تھوڑے ہی عرصے میں وہ ایک آمرانہ رہنما بن گئے اور بنیادی طور پر جمہوریت کے تمام آثار کو ختم کر دیا۔
’1932 میں جمہوری جھلک کو متعارف کرانے کی کچھ کوششیں کی گئی تھیں لیکن مجموعی طور پر وہ ایک آمرانہ رہنما تھے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
آرا تقیسم کرنے والا کردار
ترکی کی سرحدوں سے باہر، یوریشیائی قوموں کو تبدیل کرنے والے شخص کے بارے میں آرا کچھ زیادہ ہی منقسم ہے۔
اتاترک نے 1919 سے 1922 تک جاری رہنے والی گریکو-ترک جنگ کے دوران ترک فوج کی کمان سنبھالی جس میں وہ پہلی جنگ عظیم کے بعد کمزور ہونے کے باوجود جیت گئے۔
نام نہاد ایشیا مائنر جنگ کے دوران، دونوں اطراف سے مظالم کیے گئے اور لاکھوں لوگوں کو ملک بدر ہونا پڑا۔
اتاترک نے یونانی فوج کو اناطولیہ (اب ترکی) سے نکال باہر کیا اور بڑی تعداد میں نسلی یونانیوں کو بھی نکال دیا، جسے بعد میں ’یونان اور ترکی کے درمیان آبادی کا تبادلہ‘ کہا گیا۔
1923 کے لوزان کے معاہدے میں طے شدہ اس آبادی کے تبادلے کے ذریعے، تقریباً 15 لاکھ یونانی آرتھوڈوکس عیسائیوں کو جن میں سے اکثر ترکی سے باہر کبھی نہیں رہے تھے کو اس ملک سے نکال دیا گیا۔
مصطفیٰ کمال کے بارے میں آرمینیا میں بھی رائے منقسم ہے جو 1922 تک ایک آزاد ملک نہیں تھا۔
آرمینیائی عوام کا دعویٰ تھا کہ ان کے کچھ علاقوں پر ترکی اور کچھ پر سوویت یونین نے قبضہ کر رکھا ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے مؤرخ یاسیوگلو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ آرمینی باشندے مکمل طور پر اتاترک کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، لیکن ان کی بنائی ہوئی ریاست کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا گیا جس نے پہلی جنگ عظیم میں آرمینیائی نسل کشی کے دوران ہونے والے مظالم کو تسلسل بخشا۔‘
’اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ (ترکوں) کو اس حقیقت سے فائدہ ہوا کہ لاکھوں افراد مارے گئے اور یقینی طور پر 10 لاکھ سے زیادہ جلاوطن کیے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نسل کشی میں حصہ لیا اور جنگ کے بعد آرمینیائیوں کے خلاف لڑے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کرد کا سوال
خود ترکی میں ایک ایسا نسلی گروہ بھی ہے جو کمالسٹ نظریے کا ماننے والا ہے اور اس سلسلے میں خود کو مظلوم محسوس کرتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد حکومت نے ترکی میں کرد آبادی کی صورتحال کو تبدیل کر دیا۔
ایک زبان، ایک نسل اور ایک ثقافت کے تحت ایک سیکولر قوم بنانے کے نئے کمالسٹ نظریے کے نتیجے میں پرانی سلطنت میں جگہ رکھنے والی دوسری قوموں پر ظلم ہوا۔
یونیورسٹی آف رچمنڈ کے یوسیل یانکداگ بتاتے ہیں کہ کردوں کی شناخت سے انکار کیا گیا کیونکہ کمالیت کا تقاضا تھا کہ ترکی میں رہنے والا ہر شخص یہ قبول کرے کہ وہ اب ترک ہیں۔
1936 اور 1939 کے درمیان، درزم کے جنوب مشرقی علاقے کی کرد آبادی – جسے اب تونسیلی کے نام سے جانا جاتا ہے – نے ترک جمہوریہ کے خلاف مزاحمت کی اور اس کے نتیجے میں 13 ہزار سے زیادہ کرد ترک فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔
اس واقعے نے کرد شورش کی بنیاد ڈالی جو ابھی تک ترک ریاست کے خلاف جاری ہے۔
اس ملک کے قوم پرستوں کے لیے یہ ایک نازک واقعہ ہے، کیونکہ اس وقت قابل احترام اتاترک ابھی تک ترکی کے صدر تھے اور ان کی اپنی لے پالک بیٹی صبیحہ گوکن – جو ملک کی پہلی خاتون پائلٹ تھیں – نے حملوں میں حصہ لیا تھا۔
یانکداگ کہتے ہیں کہ ’سیکولرائزیشن کچھ لوگوں کے لیے ایک راحت تھی، لیکن دوسروں کے لیے اس کا مطلب کردوں اور آرمینیائی، یونانیوں، چیچن، عربوں وغیرہ کی شناخت سے انکار کرنا تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
میراث خطرے میں
کچھ ماہرین کے نزدیک، اتاترک کی میراث کا حصہ اور جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد جو کچھ بنایا گیا تھا، خاص طور پر ملک کی سیکولرائزیشن خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
جولائی 2020 میں ترک صدر رجب طیب اردوغان نے استنبول کے سب سے مشہور مقامات میں سے ایک آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا۔
آیا صوفیہ پہلے ایک باسیلیکا تھا اور بعد میں اسے 1453 میں سلطان محمد دوم کے حکم کے تحت ایک مندر میں تبدیل کر دیا گیا تھا، لیکن یہ اتاترک تھے جنھوں نے اسے گذشتہ دہائیوں کے دوران استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
1935 میں جدید ترکی کے بانی نے حکم دیا کہ آیا صوفیہ کو میوزیم میں تبدیل کر دیا جائے اور اس کمپلیکس کو عیسائی یا مسلم عقیدے کی عبادت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے منع کر دیا۔
لہٰذا موجودہ ترک صدر کا فیصلہ جس کی وجہ سے آیا صوفیہ میں کئی دہائیوں میں پہلی بار مسلمانوں نے نماز ادا کی گئی، تشویش کا باعث بنا۔
مورخ علی یاسی اوگلو کہتے ہیں کہ ’اردوغان ہمیشہ سے محتاط رہے ہیں کہ وہ اتاترک پر براہ راست حملہ نہ کریں لیکن اس کے ساتھ ہی اب کچھ سالوں سے انھوں نے (اتاترک) کی چھوڑی ہوئی پالیسیوں اور میراث کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ان کے مطابق، آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنا اس سمت کی طرف ایک ’علامتی اور بہت واضح قدم‘ تھا۔
ابتدائی سالوں میں عثمانی دور میں متعدد گرجا گھروں کو جو مساجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا، کو عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا۔ استنبول میں آیا صوفیہ کے علاوہ اسی شہر میں چرچ آف سینٹ سیویر اور ترابزون کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔
یاسیوگلو کہتے ہیں کہ ’گذشتہ 10 سالوں میں، اردوغان کی حکومت نے آہستہ آہستہ ان تمام جگہوں کو مساجد میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔‘
’یہ وہ اقدامات ہیں جو عوامی اور سیاسی زندگی میں اسلام کو دوبارہ متعارف کروانے کی طرف ایک عمومی اقدام کی طرف اشارہ کرتی ہیں جس سے یقینی طور پر مصطفی کمال اتاترک کی میراث کو نقصان پہنچا ہے۔‘
یاسیوگلو کا بہت سے دوسرے ماہرین کی طرح خیال ہے کہ اردوغان کا نقطہ نظر ایک وسیع پالیسی کا حصہ ہے جس میں عثمانی ماضی کے لیے ایک خاص پرانی یاد اور اس سلطنت کے ایک چھوٹے سے ورژن کو بحال کرنے کی کوشش شامل ہے جس میں اسلامیت نے بڑا کردار ہو اور یہ اس کے خلاف ہے جو اتاترک اپنے ملک کے مستقبل کے لیے چاہتے تھے۔
Comments are closed.