- مصنف, وقارمصطفیٰ
- عہدہ, صحافی و محقق
- 58 منٹ قبل
ابو عبد اللہ محمد سنہ 1459 میں سپین کے الحمرا محل میں پیدا ہوئے تو نجومی نے پیش گوئی کی کہ وہ بڑے ہو کر مسلم غرناطہ کے حکمران بنیں گے۔ لیکن آٹھویں صدی کی ابتدا سے اگلے 300 سال تک سپین میں علم و ایجاد کو فروغ دیتی اموی خلافت رہی، پھر 40 سال تک سپین چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا رہا۔مراکش سے آنے والے مرابطون نے انھیں متحد کر کے 1086 سے1147 تک چلایا۔ ان کے بعد موحدون نے شمالی افریقہ اورسپین کے بڑے حصے پر حکومت قائم کی۔تیرھویں صدی میں عرب کے بنو خزرج قبیلے کے نصر خاندان کے محمد اول نے جب غرناطہ سنبھالا تب تک مسلم سپین کا رقبہ کافی سمٹ چکا تھا۔
نصریوں نے مراکش کے مرینوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم کیا۔ ان کے دور میں غرناطہ اسلامی ثقافت کا مرکز رہا جس میں علم، دست کاری اورسرامکس کو فروغ ملا۔ 14ویں صدی میں نصری اپنے فن تعمیر کے لیے مشہورتھے۔ الحمرا اسماعیل اول اور محمد پنجم کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔سوا دو سو سال سے حکومت کرتے اسی خاندان کے سلطان ابوالحسن علی کے ہاں، تاریخ میں بوعبدل کہلاتے، ابوعبداللہ کی پیدائش ہوئی تھی۔
خاندانی جھگڑے اور سوتن کا حسد
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesایلزبتھ ڈریسن اپنی کتاب ’دی مورز لاسٹ سٹینڈ‘ میں بتاتی ہیں کہ ابوالحسن علی، جنھیں مولائے حسن بھی کہا جاتا تھا، کے دور میں غرناطہ کو اندرونی اور بیرونی دباؤ اور سیاسی خلفشار کا سامنا تھا۔ریکونکوِسٹا کے نام سے جانے جاتے تقریباً آٹھ صدیوں پر محیط مہمات کے ایک سلسلے میں پندرہویں صدی کے اواخر میں تیزی آ گئی۔ ان مہمات سے مسیحی سلطنتوں کا مقصد مسلمانوں کے زیرِاثر آیبیرین علاقوں پر دوبارہ حکومت کرنا تھا، جنھیں اجتماعی طور پر الاندلس کہا جاتا تھا۔سنہ 1469 میں آراغون کے بادشاہ فرڈینینڈ دوم کی قشتالہ کی حکمران ازابیلا اول سے شادی ایسے اتحاد کا باعث بنی جس کا مقصد اس مسلم سلطنت کو فتح کرنا تھا جہاں نصری غرناطہ کے تخت کے لیے آپس میں لڑ رہے تھے۔اس خانہ جنگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے قشتالی مضبوط نصری قلعوں پر قبضہ کرتے رہے۔ڈریسن لکھتی ہیں کہ ’نصری سلطان کا یہ علاقہ ایک عظیم مسلم سلطنت کا آخری ہسپانوی گڑھ تھا جو کبھی (فرانس اور سپین کی سرحد پر پھیلے اور جزیرہ نما آئبیریا کو باقی یورپ سے الگ کرتے پہاڑی سلسلے) پیرینی اور اس سے بھی آگے تک پھیلی ہوئی تھی اور اس میں بارسلونا اور پامپلونا جیسے شمالی ہسپانوی شہر بھی شامل تھے۔‘سٹینلے لین پُول ’دی مُورز ان سپین‘ میں لکھتے ہیں کہ مولائے حسن کا دور خاندانی جھگڑوں سے عبارت تھا اور سلطنت کے زوال کی سمت اشارہ کررہا تھا۔
’داخلی تنازعات اور مخالفین کی بڑھتی طاقت‘
سنہ 1482 میں بوعبدل نے اپنی والدہ عائشہ الحُرہ کے اکسانے پر اپنے والد ابو الحسن علی کے خلاف بغاوت کر دی۔ تب وہ لوشہ کے میدان میں فرڈینینڈ کی فوجوں سے لڑ رہے تھے۔تاریخ دان ایل پی ہاروے، اپنی کتاب ’اسلامی سپین 1250 سے 1500 تک‘ میں لکھتے ہیں کہ اپنے بیٹے کو اقتدار میں لانے کی خواہش کے پیچھے وجہ عائشہ کی مولائے حسن کی دوسری بیوی زورایا (ثریا) کے ساتھ دشمنی تھی۔لین پول کے مطابق ثریا اسلام قبول کرنے سے پہلے مسیحی غلام ازابیل ڈا سولِس تھیں جنھوں نے ان کے شوہر کا دل جیت لیا تھا۔’ثریا سے ان کے حسد کی کوئی حد نہیں تھی۔ وہ انھیں نہ صرف اپنی حیثیت بلکہ اپنے بیٹے کے تخت پر حق کے لیے بھی خطرہ جانتیں۔‘ہاروے نے لکھا ہے کہ ’عائشہ کو اپنے بیٹے کے اقتدار میں مولائے حسن اور زورایا (ثریا) کے خلاف اپنے انتقام کا امکان نظر آیا۔‘ڈریسن لکھتی ہیں کہ عائشہ کے حسد نے خاندانی جھگڑوں میں ایک اہم کردار ادا کیا جو بالآخر نصریوں کے زوال کا باعث بنے۔ ’بیٹے کی وراثت کی حفاظت کی خواہش کے تحت ان کے اقدامات نے پہلے ہی سے کمزور سلطنت کو مزید غیر مستحکم کردیا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
بیٹے کی باپ سے بغاوت
ایک بااثر خاندان کی حمایت سے بو عبدل نے الحمرا محل پر قبضہ کر لیا اور خود کو غرناطہ کا سلطان قرار دے دیا۔ڈریسن لکھتی ہیں کہ بوعبدل جب نصری خاندان کے 23 ویں سلطان کے طور پر تخت پر بیٹھے تو وہ 20 سال کے ایک ناپختہ نوجوان تھے جو بمشکل الحمرا محل سے نکلے ہوں گے اور انھیں اپنے غیر فعال خاندان سے باہر کی دنیا کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا ۔تاہم مولائے حسن نے جلد ہی دارالحکومت پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ دو سال بعد ان کے بھائی الزغل نےانھیں تخت سے ہٹا دیا ۔ایک ہی سال میں بو عبدل پھر سے غرناطہ کے حکمران تھے۔اپنی کتاب ’مورِش (مسلم) سپین‘ میں مورخ رچرڈ فلیچر لکھتے ہیں، ’نصری بادشاہت ایک منقسم گھر کی عکاس تھی، جس میں حریف دھڑے قبضے کے لیے کوشاں تھے، جس کی وجہ سے بڑھتی مسیحی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی اس کی صلاحیت کمزور ہو گئی تھی۔‘
قید اور قرطبہ کا معاہدہ
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesبوعبدل کی سنہ 1483 میں قشتالہ کے خلاف پہلی فوجی مہم ناکام ہوئی اور وہ پکڑے گئے۔ کیتھولک حکمرانوں، ملکہ ازابیلا اور بادشاہ فرڈینینڈ، نے انھیں ’قرطبہ معاہدہ‘ کے تحت رہا کر دیا۔ اس معاہدے کی رُو سے بوعبدل کو اپنے چچا الزغل کے خلاف ان کی حمایت کے بدلے میں اپنے کچھ علاقے قشتالہ کو دینا تھے۔ مورخ ہیو کینیڈی ’مسلم سپین اور پرتگال: الاندلس کی سیاسی تاریخ‘ میں قرطبہ کے معاہدہ کو ’ایک فاسٹین سودا‘ قراردیتے ہیں۔یہ اس شیطانی سودے کی جانب اشارہ ہے جس میں واپسی مشکل ہوتی ہے لیکن اس کی جسمانی، روحانی اور نفسیاتی قیمت چکانا لازم۔ کینیڈی کہتے ہیں کہ ’بوعبدل نے رہائی کے لیے اپنے خون اور زمین سے بے وفائی کی، جس سے نصری مزاحمت کومزید نقصان پہنچا۔‘رہائی کے بعد، بوعبدل کو نصری سلطنت کے مغربی حصے پر حکومت دے دی گئی، جب کہ ان کے چچا الزغل نے مشرقی علاقے کا کنٹرول برقرار رکھا۔ قرطبہ کے معاہدے کے مطابق، بوعبدل نے مؤثر طریقے سے اپنی زمینوں کی خودمختاری فرڈینینڈ اور ازابیلا کو سونپ دی۔الزغل کی ثابت قدم مزاحمت کے باوجود ’مسیحی افواج نے رفتہ رفتہ پیش قدمی کی اور بالآخر مشرقی غرناطہ اور المیریا میں ان کے علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ یوں بوعبدل، صرف غرناطہ شہر کے سلطان رہ گئے۔ اب ریکونکوسٹا کی تکمیل ’اگر، نہیں، کب‘ کا سوال رہ گئی تھی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جب آخری بار ہتھیار ڈالے گئے
سنہ 1491 کے موسمِ بہار میں مسلمانوں کے لیے غرناطہ حکومت کے خاتمے کا آغاز ہوا۔قشتالوی افواج کے کئی مہینوں کے محاصرے کے بعد، بوعبدل نے محسوس کیا کہ مزید مزاحمت بیکارہے۔ نومبر میں مذاکرات کے آغاز کے بعد، اسی ماہ کی 25 تاریخ کو معاہدہ غرناطہ پر دستخط ہوئے۔اس معاہدہ کے تحت بوعبدل کا عہدہ برقراررہنا تھا اورمسلمانوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنایا جانا تھا۔دو جنوری 1492 کو بوعبدل نے غرناطہ کو کیتھولک بادشاہوں کے حوالے کر دیا جو ڈریسن کے مطابق ،سپین کے کارڈینل فرانسسکو سیسنیروس اور ریشمی لباس پہنے درباریوں اور رئیسوں، جن میں سیاح کرسٹوفر کولمبس بھی تھے، کے ہمراہ غرناطہ پہنچے تھے۔شاندار لباس پہنے کئی گھڑسواروں کے ہمراہ، شہر کی چابیاں حوالے کرتے ہوئے بوعبدل نے نئے حکمرانوں کے ہاتھ چومے اور کہا کہ ’یہ جنت کی چابیاں ہیں۔‘معاہدے کے مطابق بوعبدل ہاتھ چومنے کی خفت سے بچ سکتے تھے۔واشنگٹن ارونگ نے ’دی الحمرا‘ میں بیان کیا ہے ’بوعبدل الحمرا پر آخری نظر ڈالنے کے لیے ایک چٹانی اونچائی پر رکے۔ الحمرا کو دیکھ کر ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ ان کی ماں نے ڈانٹا کہ تم عورتوں کی طرح اس کے لیے روتے ہو جس کا مردانگی سے دفاع نہ کر سکے۔‘یہ قصہ خواہ مفروضہ ہو یا نہ ہو، نقصان اور شکست کے گہرے احساس کا بیان ہے اور بوعبدل کے ایک پہاڑی درے سے الحمرا پرآخری نظر ڈالنے کا یہ منظر بہت سی پینٹنگز کا موضوع بنا۔
بوعبدل جلاوطنی میں
ہتھیار ڈالنے کے بعد، بوعبدل کو ایک چھوٹی سی جاگیر دی گئی تھی لیکن انھوں نے مراکش میں جلاوطنی اختیار کر لی۔وہ اپنے شاہی ماضی سے بہت دور فیض میں مرینی حکمران کے دربار کا حصہ بن گئے۔مورخ الزبتھ ڈریسن بوعبدل کے انجام کو یوں بیان کرتی ہیں کہ ’جلاوطن اور بے اختیار، بوعبدل نے اپنے دن گمنامی میں گزارے، کھوئی ہوئی عظمت اور بے تکمیل صلاحیت کی ایک نمایاں علامت کے طورپر۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک دور کا خاتمہ اور عدم برداشت کا آغاز
بوعبدل کے رخصت ہونے کا مطلب جزیرہ نما آئبیریا میں تقریباً آٹھ صدیوں پر محیط مسلم حکمرانی کا خاتمہ تھا کہ جس میں ثقافتی اور مذہبی تکثیریت کی ایک بھرپور رنگا رنگی پروان چڑھی تھی۔مورخ ماریا روزا مینوکل،’دی آرنمنٹ آف دی ورلڈ ‘ میں لکھتی ہیں کہ ’مسلم سپین ایک ایسی سرزمین تھی جہاں مسیحی، یہودی اور مسلم ثقافتوں کے باہمی تعامل نے ایک منفرد اور پائیدار میراث پیدا کی۔ غرناطہ ایسے اکٹھ کا آخری گڑھ تھا۔‘سقوط غرناطہ سے مذہبی عدم برداشت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔غرناطہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیتھولک بادشاہوں نے ایسی پالیسیاں شروع کیں جن کا مقصد مذہبی تنوع کو ختم کرنا تھا۔ مسلمانوں اوریہودیوں کے مذاہب کی زبردستی تبدیلی معمول بن گیا۔ہنری کامن اپنی کتاب ’دی سپینش انکوئزیشن: اے ہسٹوریکل ریویژن‘ میں لکھتے ہیں کہ سقوط ِغرناطہ دوبارہ مسیحی قبضے کا آخری باب تھا لیکن یہ منظم ظلم و ستم اور جبری انضمام کا آغاز بھی تھا۔ڈریسن کا کہنا ہے کہ سنہ 711 کے بعد سے تقریباً 800 سالوں تک ، ہسپانوی جزیرہ نما ایسے لوگوں کا مسکن رہا جو آئے تو حملہ آور کے طور پر تھے لیکن انھوں نے ایک ایسی منفرد اور نفیس تہذیب کی تخلیق کی جس نے سپین کو ایک پائیدار ثقافتی ورثہ عطا کیا۔ مسلم فتح سے پیدا ہونے والی زرخیز ثقافتی تخلیقی صلاحیت اور تجدید، بو عبدل کی شکست میں کھو گئی۔’مسیحیوں، مسلمانوں اور یہودیوں کی بقائے باہمی قرون وسطیٰ کی ہسپانوی زندگی کا ایک اہم حصہ رہا تھا۔ اس کی جگہ سنگین تصادم اور تنازعات نے لے لی جس کے نتیجے میں 1609 میں موریسکو(جبری طورپرمسیحی بنائے گئے مسلمانوں ) کو بھی نکال دیا گیا۔‘’1492 کے بعد سپین، ایک ایسے معاشرے کی بجائے جہاں تین مختلف مذاہب کے افرادایک ساتھ رہتے تھے، یک مذہبی اور یک زبان معاشرہ بن گیا، ایک ایسی جگہ جہاں فرق کو دبایا اور ختم کیا گیا۔‘’بوعبدل اور غرناطہ مذہبی عدم برداشت، جنونی طاقت اور ثقافتی جہالت کے خلاف ایک آخری رکاوٹ تھے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.