’سقوط اوڈیفکا‘: کیا اس یوکرینی شہر کی فتح ظاہر کرتی ہے کہ روس جنگ کا پانسا اپنے حق میں پلٹ رہا ہے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, جیمز واٹر ہاؤس
  • عہدہ, نامہ نگار برائے یوکرین، کیؤ
  • ایک گھنٹہ قبل

’عام لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ اور گھیرا تنگ ہونے سے بچنے کے لیے، میں نے اوڈیفکا سے تمام فوجی یونٹ واپس بُلا لیے ہیں۔‘جب رواں ماہ جنرل اولکسندر کو یوکرین کی مسلح افواج کا سربراہ تعینات کیا گیا تھا تو انھوں نے کہا کہ ’جانوں کے ضیاع اور قربانیاں دینے کے بجائے میں فوجی دستے واپس بُلا لوں گا۔‘ اس اعلان کے بعد انھوں نے یوکرین کے مشرقی شہر ’اوڈیفکا‘ میں کچھ ایسا ہی کیا۔ روس نے اس جنگ میں بھاری نقصان برداشت کیا ہے۔ تاہم روس کے چار مہینوں کے مسلسل حملوں کے بعد یوکرین کا دفاع کرنے والے فوجی دستے کم پڑ گئے ہیں اور اس کا اسلحہ و گولہ بارود ختم ہو گیا ہے۔ ’اوڈیفکا‘ میں جو کچھ ہوا اُسے یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے ماسکو کی سب سے بڑی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

روس نے سنہ 2014 میں اوڈیفکا پر پر مختصر دورانیے کے لیے قبضہ کیا تھا۔ مگر پھر یوکرین نے دوبارہ اس کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔تو اوڈیفکا کی شکست یوکرین، روس جنگ کی مجموعی صورتحال کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ اس جنگ کی رفتار اب دھیمی پڑ چکی ہے مگر اس کے باوجود دونوں اطراف نقصانات کا سلسلہ جاری ہے۔ ماسکو نے اس جنگ میں اپنے ہزاروں فوجی کھوئے ہیں۔ اس کے باوجود اس نے اپنے سائز کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے جہاں مرنے والوں کی جگہ لینے کے لیے فوری طور پر نئے فوجی دستیاب ہوتے ہیں۔ یوکرین کی افواج نے بھی نقصانات جھیلے ہیں مگر اس کی شدت ویسی نہیں۔ دوسری سرحدی یوکرینی آبادیوں کی طرح روس نے مکمل طور پر تباہ ایک اور شہر ’اوڈیفکا‘ پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہاں یوکرین کی ’تھرڈ اسالٹ بریگیڈ‘ تعینات تھی جس کا کہنا ہے کہ اسے چاروں طرف سے روسی حملوں کا سامنا تھا۔ روس نے اپنے بہترین تربیت یافتہ جنگجو اوڈیفکا میں اکٹھے کیے تھے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ یوکرینی پوزیشنز پر روزانہ 60 بم گراتے تھے۔ اس سے قبل روس نے ایک اور یوکرینی شہر پر قبضہ کیا تھا۔ اس وقت یوکرینی آرمی چیف اسے طویل عرصے تک نہ چھڑوا پانے کے باعث تنقید کی زد میں رہے تھے۔ اُن پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ علامتی فتح کے لیے غیر ضروری ہلاکتوں کی وجہ بنے ہیں۔ بظاہر اس تجربے نے چیزیں بدل دی ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہReuters

قلیل مدتی حکمت عملی

روس کی پیش قدمی راتوں رات نہیں ہوئی۔ گذشتہ اکتوبر سے ماسکو نے اوڈیفکا پر مسلسل حملے کیے ہیں۔ صنعتی شہر میں اپنی اونچی پوزیشنز اور مضبوط دفاع کے باعث یوکرین ان ٹارگٹڈ حملوں کو روکنے میں کامیاب رہا۔ دنباس میں روسی فوجیوں کی لاشیں اور تباہ شدہ بکتر بند گاڑیاں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ مگر ماسکو نے اپنی 10 سالہ جارحیت کے نتیجے میں یوکرینی دفاع بالآخر توڑ دیا۔ یوکرین کو اس بات کی پریشانی ہے کہ وہ کہیں بھی روس کا مضبوط دفاع عبور نہیں کر سکا جو اس نے گذشتہ چند مہینوں میں تعمیر کیا ہے۔ یوکرینی تھرڈ اسالٹ بریگیڈ کے جنرل روڈیون نے کہا ہے کہ ’روس اپنے علاقائی اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ صرف ٹیکٹیکل اہداف حاصل کر سکتا ہے۔‘اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے دستے بہت کم ہیں اور روس کے مقابلے سات کے تناسب سے ایک ہیں۔ فون پر گفتگو کے دوران انھوں نے کہا ’یہ ایسا ہے جیسے دو فوجوں کے خلاف لڑنا۔‘انھیں اعتماد ہے کہ روسی دیگر شہروں کی طرف مزید نہیں بڑھ سکیں گے مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس سے ڈونیسک شہر پر دباؤ کم ہو گا جو 15 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ روس نے اس پر سنہ 2014 سے قبضہ جما رکھا ہے۔ ،تصویر کا ذریعہReuters

طویل مدتی حکمت عملی

یوکرین پر پہلے بھی پیچھے ہٹنے کے لیے دباؤ ڈالا جا چکا ہے، جیسے 2022 کے موسم گرما میں ہوا تھا۔ روس کے بڑے اور بھاری اسلحہ بردار یونٹ اہم شہروں میں گرد گھومتے تھے اور یوکرین انھیں روکنے کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ مگر پھر مغربی ہتھیاروں کی ترسیل اور فوج کے اعتماد میں بحالی نے سال کے اواخر میں جنگ کا رُخ پلٹا۔ یوکرینی دستوں نے خیرسون اور خارخیو کے بعض علاقے آزاد کروائے۔ تاہم اب یہ ایک مختلف جنگ ہے۔ عالمی سیاست کے میدانِ جنگ پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مغربی مدد میں رکاوٹوں نے اوڈیفکا میں یوکرین کے پیچھے ہٹنے کی راہ ہموار کی۔ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے میں امریکہ سرفہرست رہتا ہے کیونکہ وہی انھیں اس وسیع پیمانے اور رفتار سے مہیا کر سکتا ہے۔ واشنگٹن نے تاحال یوکرین کے لیے 95 ارب ڈالر کا امدادی پیکج منظور نہیں کیا۔ دیگر اتحادیوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔اس کا مطلب ہے یوکرینی افواج کو ہتھیار سوچ سمجھ کر اور کم تعداد میں استعمال کرنے پڑیں گے۔ اس سے ان کا مورال گِرے گا۔ کیؤ کے لیے اوڈیفکا وہ واحد جگہ نہیں جس سے پیچھنے ہٹنے کا سوچا جا رہا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن اب بھی پوری طرح یوکرین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ قبضہ پورا ہوتا ممکن بھی ہے۔ ان ارادوں کے خلاف مغربی اتحاد بحال ہو سکتا ہے یا پھر مزید یہ رائے قائم ہوسکتی ہے کہ یوکرین کبھی یہ جنگ نہیں جیت سکتا تھا، اس سے قطع نظر کہ یوکرین نے اوڈیفکا اور دیگر جگہوں پر غیر معمولی دفاع کا مظاہرہ کیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}