- مصنف, کرسٹینا جے آرگاز
- عہدہ, بی بی سی
- 45 منٹ قبل
سنہ 1630 میں فروری کی 14 تاریخ کو برازیل میں پرنامبوکو کے ساحل پر 60 جنگی بحری جہاز دیکھے گئے تھے اور کہا جاتا ہے کہ ان میں 80 ہزار جنگجو سوار تھے۔ ان جہازوں کے بادبانوں پر نارنجی اور سفید رنگ کے جھنڈے نظر آ رہے تھے جنھیں دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ ان جنگی مشینوں کا تعلق متحدہ صوبوں (موجودہ نیدرلینڈز) سے ہے۔ برازیل کا یہ علاقہ ان علاقوں میں شامل تھا جس پر پرتگالیوں نے ہسپانوی بادشاہ فلپ چہارم کے دور میں قبضہ کیا تھا اور متحدہ صوبے اب ان علاقوں پر اپنا تسلط چاہتے تھے۔اس علاقے کے مکین اس حملے کا دفاع بہت مشکل سے کر پائے اور انھیں سپین کی جانب سے بھی کم ہی مدد ملی۔ اسی لیے ڈچ جنگجو اس خطے کے صدر مقام اولینڈا اور اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ریسیف بندرگارہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔فیڈرل یونیورسٹی آف پرنامبوکو میں برازیل کی نوآبادیاتی تاریخ کے پروفیسر جارج کیبرال کہتے ہیں کہ ’وہ مشکل سال تھے۔ چار برس تک وہ حقیقتاً علاقے کے گرد عسکری حصار ختم نہ کرسکے۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ آہستہ آہستہ مزید علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور وہاں 24 سال تک رہے۔ یہ ان کا سب سے طویل تسلط تھا۔‘
برازیل کے شمال مغرب میں ڈچوں کی قائم کردہ کالونی پر بے تحاشا رقم خرچ ہوئی کیونکہ وہاں اس کے دفاع کے لیےفوجیوں اور جہازوں کی ضرورت تھی۔ 17 ویں صدی کے دوران پرنامبوکو چینی کی تجارت کی بدولت اقتصادی طاقت کا ایک بڑا مرکز تھا، یہ کاروبار اتنا ہی منافع بخش تھا جیسے چاندی کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس زمانے میں ہسپانوی سلطنت کا پوٹوسی (موجودہ بولیویا) کی چاندی کی کانوں پر بھی قبضہ تھا۔ چاندی کی ایسی ہی کانیں میکسیکو میں زکاٹیکاس اور گواناجواتو میں بھی سپین کے زیرِ اثر تھیں۔نیدرلینڈز کے اس حصے پر کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ نیدرلینڈز کو ویسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے تمباکو، مصالحہ جات، برازیلی لکڑی یا غلاموں کی تجارت کا بھی موقع مل گیا تھا۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہسپانوی سلطنت کو کمزور کرنا
یہ ڈچ افواج کا برازیل پر دوسرا حملہ تھا۔ اس سے قبل 1624 اور 1625 کے درمیان انھوں نے سلواڈور، باہیا پر قبضہ کرلیا تھا۔ لیکن صرف ایک برس بعد ہی ڈچ فوج کو اس علاقے سے بےدخل کردیا گیا تھا لیکن اس حملے سے ڈچ افواج کے برازیل کے حوالے سے ارادے ظاہر ہو گئے تھے۔یورپ میں اس وقت بے پناہ دلچسپی تھی اور ہر کوئی اس علاقے کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔مؤرخین کے نزدیک پرنامبوکو میں ڈچ افواج کی فتح اور اس خطے میں موجود پانچ مزید کپتانوں کا مقصد دراصل ہسپانوی سلطنت کو کمزور کرنا اور اس علاقے میں بحر اوقیانوس کے تجارتی راستوں پر غلبہ حاصل کرنا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب نیدرلینڈز کے متحدہ صوبے اپنی ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہمراہ پوری دنیا میں ایک عالمی تجارتی طاقت کے طور پر ابھر رہے تھے۔لیکن ہسپانویوں اور ڈچوں کے درمیان اس تنازع کا ایک ماضی بھی تھا اور وہ ایک انتہائی دلچسپ کہانی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
1580 میں پرتگال میں کوئی جانشین نہیں تھا اور طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سپین کے بادشاہ فلپ دوئم نے پرتگال پر حق کا دعویٰ کیا اور وہ پرتگال کے فلپ اوّل بن گئے۔برسوں تک ڈچ چینی کے کاروبار میں پرتگالیوں کے شراکت دار رہے ہیں۔ کیبرال نے بتایا کہ ’ان کا یورپ میں نقل و حمل، فنانسنگ اور شوگر ریفائننگ کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ جب سپین اور ہالینڈ کے درمیان جنگیں ہوتیں تو پُرتگال اور سپین کے اتحاد سے ڈچ حکمرانوں کے لیے مسائل پیدا ہوتے تھے۔‘دوسری چیزوں کے علاوہ ڈچوں نے پرتگالیوں کے ساتھ تجارت میں جو منافع حاصل کیا، اس نے انہیں سپین کے ساتھ جنگ کے لیے مالی مدد فراہم کی۔ اسی سبب سنہ 1621 میں شہنشاہ فلپ نے برازیل اور ہالینڈ کی کالونیوں کے درمیان کاروبار پر پابندی عائد کر دی اور ڈچ جہازوں کا یہاں کی بندرگاہوں پر داخلہ بند کر دیا۔فیڈرل یونیورسٹی آف پرنامبوکو سے منسلک مؤرخ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر برونو فریرا مرانڈا کا کہنا ہے کہ ’ہسپانوی سلطنت نے ان پر پابندیاں عائد کر دیں اور اس طرح نہ صرف چینی بلکہ دیگر اشیا تک ان کی رسائی کو بھی ختم کر دیا۔‘
کالونیوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ
پرنامبوکو پر حملہ کرنے کا فیصلہ اس وقت ہوا جب ڈچ حکمران امریکہ میں سپین کے زیرِ تسلط اپنی کالونیوں پر قبضہ چھڑوانے کے منصوبوں کو فروغ دے رہے تھے اور ان منصوبوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے ایک تجارتی کمپنی بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔کیبرال کہتے ہیں کہ ’ڈچ حکمران امریکہ میں سپین کی تمام کالونیوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، پرنامبوکو سے اپنی مہم شروع کرنے کے بعد وہ پیرو، میکسیکو، کیریبین اور باقی ممالک کی طرف دیکھ رہے تھے۔‘’وہ ان مقامات سے اپنی مہم کا آغاز کرتے ہیں جو کہ عسکری طور پر سب سے کمزور معلوم تھے۔‘پروفیسر کیبرال کا کہنا ہے کہ ’یہ مہم آسان نہیں تھی۔ ڈچوں کی یہاں موجودگی کے پہلے مرحلے میں – 1630 سے 1637 تک – انھوں نے اپنے غلبے کو مستحکم کرنے کے لیے بہت لڑائیاں لڑیں۔ ‘ان کا کہنا ہے کہ ڈچ اس دور کو مسحور کن بنانے کی بات ضرور کرتے تھے لیکن یہ ایک بھوک اور تشدد کا وقت تھا۔بھوک نے ڈچ سپاہیوں کو مسلسل ستائے رکھا۔ جب ان کے پیٹ بھرے ہوتے تھے تب انھیں بینائی، چیچک، ڈراپسی یا تپ دق جیسی بیماریوں کا سامنا رہتا تھا۔فریرا مرانڈا بتاتی ہیں کہ ’برازیل میں اپنی برسوں کی سرگرمیوں کے دوران ویسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو جن بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان میں سے چند کا موازنہ بیماریوں سے کیا جا سکتا ہے۔‘
’نیو ہالینڈ‘
1637 اور 1644 کے درمیان کا وقت ایک پرسکون دور تھا۔ یہ امن کا کوئی سنہری دور تو نہیں تھا لیکن اس زمانے تنازعات بہت کم تھے۔ ان برسوں میں ڈچ کمپنی کے ذریعہ ملازمت پر رکھے گئے ایک جرمن رئیس نے پرنامبوکو میں حکومت کی تھی۔ ’نیو ہالینڈ‘ پر حکومت کرنے کا کام جوہان موریتس وان ناساؤ کو سونپا گیا تھا جو 1637 میں ریسیف پہنچے اور 1644 میں اپنے استعفیٰ اور روانگی تک وہیں رہے۔ یہ ناساؤ ہی تھے جنھوں نے جنوبی امریکہ کے بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع ریسیف کو ایک حقیقی کائناتی شہر میں بدلا۔ انھوں نے اپنے پیچھے ایک تخلیقی میراث چھوڑی جو یورپ کے عجائب گھروں، سائنسی تحقیق اور کتابوں میں آج بھی موجود ہے۔ریسیف ان کے دور میں فنِ تعمیر کے نمونوں اور یادگار کاموں سے بھرا ہوا تھا۔ مثال کے طور پر انھوں نے دو بڑے محل بنوائے تھے، ان میں سے ایک مینار 60 میٹر اونچا تھا۔کیبرال یاد کرتے ہیں کہ ’یہاں تھوڑی زیادہ مذہبی آزادی بھی تھی، یعنی کیتھولک ایک بار پھر اپنے مذہب پر عمل کرنے کے قابل تھے، یہودیوں کو عوامی مقامات پر عبادت کے ساتھ ساتھ، ایک کھلی عبادت گاہ میں بھی عبادت کی اجازت تھی۔‘ ،تصویر کا ذریعہGetty Images
ریسیف کا بہترین میئر
وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں کی یادداشت اتنی مضبوط ہے کہ آج بھی اگر آپ سڑک پر کسی سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ ریسیف کا اب تک کا بہترین میئر ناساؤ تھا۔ وہ دوسرے نوآبادیاتی منتظمین کے مقابلے میں ایک بہت مختلف کردار تھے اور انھوں نے اپنے پیچھے بہت اچھی یادیں چھوڑی ہیں۔‘ برازیل میں ڈچوں کی موجودگی کا خاتمہ لاکھوں کلومیٹر دور ایمسٹرڈیم میں شروع ہوا تھا۔ یہاں بازار چینی سے بھرے ہوئے تھے لیکن اس کی قیمت انتہائی تیزی سے گِر رہی تھی۔کیبرال نے یہ بھی کہا کہ ’قیمتیں اس حد تک گر رہی تھیں کہ چینی کے بہت سے تاجر دیوالیہ ہوگئے تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
سورینام، ایسکیبو اور بیلیز کی طرف
سنہ 1645 میں ولندیزیوں کی شکست تک وہاں خدمات انجام دینے والے افراد پر پابندی کہ وہ شہر سے باہر نہ نکلیں کیونکہ جو لوگ یہاں سے باہر نکلتے تھے ان پر پُرتگالی فوج حملہ کر دیتی تھی۔’ان سالوں میں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ڈچوں کے پاس اتنی جنگی صلاحیت نہیں تھی کہ اس مقامی مزاحمت کا مقابلہ کریں۔‘’جب ڈچوں نے برازیل میں اپنی کالونی کھو دی تو انھوں نے کیریبین کے ساحل پر واقع جنوبی امریکی براعظم کے ایک اور حصے کو فتح کر لیا۔‘کیبرال اور سینتوس پیریز اپنی کتاب ’17ویں صدی میں برازیل میں آئبیرین تسلط کے لیے ڈچ چیلنج‘ میں لکھتے ہیں۔ کہ: ’شاید سورینام، ایسکیبو اور بیلیز بارباڈوس یا جمیکا جیسے جزیرے نہیں تھے، لیکن وہاں انھیں دیگر فوائد حاصل تھے جیسے کہ آب و ہوا، کشتیوں کے ذریعے آسان رسائی، ملاحوں کو طاقت دینے کے لیے تجارتی ہوائیں اور اچھی مٹی۔‘وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ان عوامل نے اس علاقے کوگنّے کی کاشت کے لیے ایک مثالی جگہ بنا دیا تھا۔‘ڈچوں نے پرنامبوکو کھو دیا، لیکن انھوں نے اپنے چپّو اٹھائے، سمندر میں ڈالے اور استحصال کے لیے دوسرے غیر دریافت شدہ علاقے تلاش کر لیے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.