گوشت ہماری غذا کا ایک بڑا اور اہم حصہ ہے، کم از کم ہفتے میں دو سے تین بار گوشت کا عام استعمال کیا جاتا ہے، ایسے میں جاننا ضروری ہے کہ کونسا اور کس قسم کا گوشت انسانی صحت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
غذائی و طبی ماہرین کی جانب سے سبزی پھلوں سمیت گوشت کا استعمال بھی تجویز کیا جاتا ہے کیوں کہ انسانی صحت کا براہ راست تعلق غذا سے ہوتا ہے، ہر غذا صحت کے لیے کچھ نہ کچھ افادیت کی حامل ہے بشرطیکہ اُسے اعتدال میں رہ کر کھایا جائے.
گوشت پروٹین حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، گائے، بھینس، بچھیا اور بکرے کا گوشت لال ہوتا ہے اور ان کے گوشت میں کولیسٹرول کی مقدار بھی زیادہ ہوتا ہے جس کے سبب ان کے زیادہ استعمال سے دل کی بیماریوں سمیت دیگر بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسری جانب مچھلی اور مرغی کے گوشت (وائٹ میٹ) سے انسانی جسم کو پروٹین، منرلز اور وٹامنز حاصل ہوتے ہیں اور وائٹ میٹ میں کیلوریز اور چکنائی کی مقدار کم پائی جاتی ہے۔
غذائی ماہرین کی جانب سے ’ریڈ میٹ ‘ یعنی کہ چھوٹا گوشت (مٹن، بکرا) اور بڑا گوشت (گائے، بیف ) کو عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھانا تجویز کیا جاتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق گوشت کھانے میں غیر معمولی زیادتی سنگین قسم کے صحت کے مسائل کا سبب بن جاتی ہے، مٹن میں چکنائی کی مقدار، چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جبکہ بیف (بڑے گوشت) میں چکنائی کی زیادہ مقدار مرغی، مچھلی اور بکرے کے گوشت سے زیادہ پائی جاتی ہے اور دوسرے غذائی اجزا مثلاً پروٹین، زنک، فاسفورس، آئرن اور وٹامن بی کی مقدار بھی موجود ہوتی ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق گائے کے گوشت کی 100 گرام مقدار میں 250 کیلوریز ، 15 گرام فیٹ ، 30 فیصد کولیسٹرول ، 3 فیصد سوڈیم ، 14 فیصد آئرن ، 20 فیصد وٹامن بی 6، 5 فیصد میگنیشیم ، 1 فیصد کیلشیم اور وٹامن ڈی اور 43 فیصد کوبالا من پایا جاتا ہے جبکہ بکرے کے گوشت کے 11 گرام مقدار میں 294 کیلوریز، 32 فیصد فیٹ ، 45 فیصد سیچوریٹڈ فیٹ، 32 فیصد کولیسٹرول ، 3 فیصدسوڈیم ، 8 فیصد پوٹاشیم ، 50 فیصد پروٹین ، 10 فیصد آئرن ، 5 فیصد وٹامن بی 6، 5 فیصد میگنیشیم ، اور 43 فیصد کوبالامین پایا جاتا ہے ۔
اسی طرح مرغی کے گوشت کی 100 گرام مقدار میں 239 کیلوریز پائی جاتی ہیں، 14 گرام گیٹ، 3.8 گرام سیچوریٹڈ فیٹ، 29 فیصد کولیسٹرول ، 3 فیصد سوڈیم ، 6 فیصد پوٹاشیم، 27 گرام پروٹین ، 20 فیصد وٹامن بی 6، 5 فیصد میگنیشیم اور 7 فیصد آئرن پایا جاتا ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق مچھلی کے 100 گرام گوشت میں 206 کیلوریز، 18 فیصد فیٹ، 12 فیصد سیچوریٹڈ فیٹ، 21 فیصد کولیسٹرول ، 2 فیصد سوڈیم ، 10 فیصد پوٹاشیم ، 44 فیصد پروٹین ، 6 فیصد وٹامن سی ، 1 فیصد آئرن ، 30 فیصد وٹامن بی 6، 7 فیصد میگنیشیم ، اور 46 فیصد کوبالا مین پایا جاتا ہے ۔
غذائی ماہرین کے مطابق سفید اور لال گوشت کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں، اس لیے انہیں اعتدال میں رہ کر استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ لال گوشت خصوصاً گائے کے گوشت سے احتیاط ہی تجویز کی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق گوشت کو اپنی غذا کا حصہ بنانے سے پہلے اس کی مقدار کا تعین ضرور کر لیں، اگر لال گوشت کھا رہے ہیں تو اعتدال کے ساتھ اس کا استعمال کریں اور ساتھ میں سبزی وغیرہ سلاد کی شکل میں ضرور کھائیں، اس بات کو یقینی بنائیں کے لال گوشت کے استعمال کے دوران اس میں موجود چربی اچھی طرح سے صاف کی گئی ہو۔
پروٹین حاصل کرنے یا وزن میں کمی کے لیے ماہرین کی جانب سے مچھلی اور مرغی کا گوشت تجویز کیا جاتا ہےجبکہ اس کا استعمال بھی بغیر اضافی تیل کے سبزی کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔
سفید گوشت خاص طور پر مچھلی، سرخ گوشت سے زیادہ صحت کے لیے مفید ہے کیونکہ ان میں چربی اور کولیسٹرول کم ہوتا ہے اور ہضم کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔
سرخ گوشت کا ضرورت سے زیادہ استعمال صحت کو نقصان پہنچا سکتا ہے جیسے کہ دل سے منسلک شریانوں اور جگر میں چربی کا جمع ہو جانا، بلند فشار خون۔
ماہرین کے مطابق سفید گوشت جیسے کہ مرغی، مچھلی اور دیگر سمندری غذاؤں میں کولیسٹرول کی سطح کم پائی جاتی ہے اور ان کے استعمال سے بیماریاں جنم نہیں لیتی بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھلی کا استعمال ہفتے میں دو سے تین بار لازمی کرنا چاہیے۔
گوشت کی سب ہی اقسام میں سب سے زیادہ مچھلی کھانا تجویز کیا جاتا ہے۔
غذائی ماہرین کی جانب سے مچھلی کو دماغ کی غذا قرار دیا جاتا ہے، مچھلی میں پروٹین، آیوڈین، سلینیم، زنک، وٹامن D اور وٹامن B12 جیسے مفید اجزا پائے جاتے ہیں، اس کے استعمال سے متعدد بیماریوں سے لڑنے کے خلاف قوت مدافعت مضبوط ہوتی ہے جبکہ جسمانی اور دماغی پٹھے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔
ایک تحقیق کے نتائج کے مطابق مچھلی میں پایا جانے والا اومیگا تھری فیٹی ایسڈ خون کو جمنے یا لوتھڑے بننے سے روکتا ہے اور ساتھ ہی یہ دل کی شریانوں میں جمع ہونے والی چربی ٹرائی گلیسرائڈز کو بھی کم کرتا ہے جس کے نتیجے میں ہارٹ اٹیک، کینسر اور فالج جیسی بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہو پاتا ہے۔
Comments are closed.