محمد بن سلمان: سعودی عرب کے پبلک انوسٹمنٹ فنڈ میں اتنا پیسہ کہاں سے آیا اور اس کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟
انگلش فٹ بال کلب نیو کاسل یونائیٹڈ کی 300 ملین پاؤنڈز میں فروخت کے معاہدہ کا عالمی سطح پر کلب کے حامیوں کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا ہے۔
مگر چند فٹ بال شائقین کو سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ کے باعث اس معاہدے میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے عمل دخل پر خدشات ہیں۔
لیکن کچھ لوگوں کو شاید یہ علم نہیں ہے کہ وہ جو بھی مصنوعات استعمال کر رہے ہیں وہ سعودی عرب کے سرکاری عوامی سرمایہ کاری کے فنڈ یعنی پبلک انوسٹمنٹ فنڈ ( پی آئی ایف) کے تحت فنڈ کی جاتی ہیں۔
ڈزنی، اوبر، فیس بک اور سٹاربکس یہ وہ چند کمپنیاں ہیں جنھیں سعودی عرب کے پبلک انوسٹمنٹ فنڈ کے ذریعہ سینکڑوں ملین پاؤنڈز ملے ہیں۔
سعودی عرب کا پی آئی ایف فنڈ ہی فٹ بال کلب نیو کاسل یونائٹیڈ کی 80 فیصد ملکیت کا حامل ہے۔
سعودی عرب کے پی آئی ایف کے پاس اتنا پیسا کیسے ہے؟
سعودی عرب کا پبلک انوسٹمنٹ فنڈ دراصل سعودی حکومت کا سرکاری بچت اکاؤنٹ ہے۔ یہ لاکھوں ڈالر تیل سے کماتا ہے جو سعودی عرب پوری دنیا کو فروخت کرتا ہے۔ مگر تیل ہمیشہ نہیں رہے گا اور اس سرکاری فنڈ کو رقم کمانے کے نئے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ایملائن بزنس سکول میں یورایشین سپورٹس کے ڈائریکٹر اور فٹبال معشیت کے ماہر پروفیسر سائمن چاڈوک کا کہنا ہے کہ ’وہ (سعودی عرب) اپنی معیشت کا انحصار تیل اور گیس کی آمدنی سے ہٹا کر اسے متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
’وہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک اور ذریعہ آمدن بنا سکیں جس کا مطلب یہ ہو گا کہ سعودی معیشت کا تیل کی آمدن پر انحصار کم ہو سکے۔‘
سعودی عرب نے پی آئی ایف کے ذریعے کہاں کہاں سرمایہ کاری کی ہے؟
ایسی بہت سی کمپنیوں کے متعلق آپ نے سُنا ہو گا۔ سعودی عرب کے پبلک انوسٹمنٹ فنڈ نے بڑے برانڈز اور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہے جن میں ڈزنی، اوبر، فیس بک، سٹاربکس اور دنیا کی بڑی ادویہ ساز کمپنی فائزر بھی شامل ہے۔
مگر سائمن کے خیال میں پی آئی ایف شمال مشرقی انگلینڈ میں ونڈ پاور میں بھی بھاری سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس میں ایک بات جو بڑی دلچسپ ہے کہ نیو کاسل یونائیٹڈ کی دوسری مالک کمپنی ریوبن برادرز بھی قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’فٹ بال کلب کی ملکیت حاصل کرنے سے اہم شراکت داروں سے تعلقات بنانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ان کے خیال میں وہ کمپنی پورٹ آف ٹائن اور ساحلی علاقوں میں ونڈ انرجی کے فارمز بنانے پر کام کرے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ اس بارے میں طویل مدتی انداز میں سوچیں تو یہ اثاثے پیسے کمانے کا ذریعے بنتے ہیں۔‘
مگر یہ متنازع کیوں ہے؟
سعودی عرب کے پبلک انوسٹمنٹ فنڈ کے سربراہ 36 سالہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں جو سلطنت میں اپنے والد کی حکومت کے امور سنبھالتے ہیں۔
ان پر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دینے کا الزام ہے۔ جمال خاشقجی سعودی حکومت کی پالیسیوں کے سخت ناقد تھے۔
2019 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ’سعودی عرب کی ریاست جمال خاشقجی کی موت کی ذمہ دار ہے۔‘
سعودی عرب کی حکومت نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔
اس کے ساتھ ہی محمد بن سلمان نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ انتہائی قدامت پسند سلطنت میں اصلاحات نافذ کرنے والے حکمران ہیں۔ انھوں نے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے دی ہے جو ان کے اقتدار میں آنے سے قبل نہیں تھی۔
پریمیئر لیگ نے ’قانونی ضمانت‘ حاصل کرنے کے بعد کہ سعودی ریاست نیو کاسل یونائیٹڈ کلب کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی اس کی ملکیت کی منظوری دی تھی۔
یہ منتقلی جس کی کل مالیت تین سو ملین پاؤنڈز ہے سعودی عرب کے سرکاری پی آئی ایف فنڈ کی کل سرمایہ کاری کا ایک حصہ ہے۔ اس کی کل سرمایہ کاری سینکڑوں ارب پاؤنڈز میں ہے۔
سپورٹس واشنگ کیا ہے؟
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بڑی کمپنیوں میں محدود سرمایہ کاری، پریمیئر لیگ کے فٹ بال کلب کے اکثریتی حصص خریدنے کے مترادف نہیں ہے۔
اس معاہدے کے ہونے والی تنقید کے بعد شاید آپ نے ’سپورٹس واشنگ‘ کی اصطلاح سُنی ہو۔
حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان کے رہنما بالترتیب مین سٹی کلب اور پیرس سینٹ جرمین کلبوں کے مالک ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ چند ممالک اپنے خراب انسانی حقوق کےحالات سے توجہ ہٹانے کے لیے کھیلوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے ادارے نے سعودی عرب کی جانب سے خواتین کے ساتھ بُرے سلوک، سزائے موت کے قانون کا استعمال اور ملک میں ہم جنس پرستوں کے مخالف موقف کو ناقص انسانی حقوق کی مثالیں قرار دیا ہے۔
Comments are closed.