سعودی عرب کی وزارت دفاع نے اس دورے کے حوالے سے معلومات ایکس پر شیئر کیں اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات فوجی اور دفاعی تعاون پر بات چیت کے لیے ہے۔لیکن شاید یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ گذشتہ جمعے کو یمن کے صوبہ حضر موت کے شہر صیون میں سعودی عرب کی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ ہوا تھا، جس میں ایک سعودی افسر اور ایک فوجی ہلاک جبکہ تیسرا زخمی ہوا۔واضح رہے کہ ایران، یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرتا ہے جبکہ وہاں کی حکومت کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔ سعودی عرب کی قیادت والی اتحادی فوج نے کیمپ پر حملے کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے اسے ’بزدلانہ‘ قرار دیا تھا۔تاہم پیر کے روز ریاض میں مسلم اور عرب ممالک کے اجلاس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو ’نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اسرائیل کو ایران پر حملوں کے خلاف خبردار بھی کیا، جو تہران اور ریاض کے درمیان بہتر تعلقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ عزہ میں گذشتہ برس جنگ کے آغاز کے بعد سے سعودی حکام کی جانب سے پہلی بار اتنا سخت بیان سامنے آیا ہے۔سعودی عرب کی زیر قیادت ریاض میں عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب میں محمد بن سلمان نے لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت بھی کی۔،تصویر کا ذریعہMinistry of Defense in the KSA
ولی عہد کی ایرانی صدر سے بات چیت
سعودی عرب کے اعلی سطحی وفد کے ایران پہنچنے کے بعد ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا۔سعودی پریس ایجنسی کے مطابق مسعود پزشکیان نے محمد بن سلمان کو فون کیا اور اس بات چیت کے دوران عرب اسلامی کانفرنس پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اس کانفرنس کے لیے عرب اور مسلم ممالک کے رہنما پیر کے روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے ہیں۔ ایران کی جانب سے نائب صدر محمد رضا عارف اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ریاض گئے ہیں۔اس کانفرنس کی بنیادی ترجیح فلسطین اور لبنان کے علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کو روکنا، عام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا اور خطے میں امن و استحکام کے قیام کے لیے عالمی برادری پر دباؤ ڈالنا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری
ایک دوسرے کے حریف سمجھے جانے والے ایران اور سعودی عرب گزشتہ سال سے قریب آنا شروع ہو گئے ہیں۔ چین نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ثالثی کی تھی۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سنہ 2016 سے بہت خراب تھے جب ایرانی مظاہرین نے تہران اور مشہد میں سعودی سفارتی مشنوں پر حملہ کیا تھا۔گزشتہ اکتوبر کے آغاز میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی ریاض پہنچے تھے اور ولی عہد سے ملاقات بھی کی تھی۔اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں قدرے بہتری آئی۔ گزشتہ اکتوبر میں دونوں ممالک نے مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی تھیں۔سعودی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے بحیرہ عرب میں کئی ممالک کے ساتھ بحری مشقیں کی ہیں جن میں ایران بھی شامل ہے۔
تاہم اسی دوران ایران کی خبر رساں ایجنسی اسنا (ISNA) نے اطلاع دی تھی کہ ایران کی فوج روس اور عمان کے ساتھ شمالی بحر ہند میں مشترکہ فوجی مشقیں کر رہی ہے جس میں سعودی عرب سمیت چھ دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ایران کے فوجی کمانڈر ایڈمرل شہرام ایرانی نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے بحیرہ احمر میں مشترکہ فوجی مشقوں کی درخواست کی تاہم فوجی مشقوں کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں بتائی گئی۔سعودی عرب کے اعلیٰ سطحی فوجی وفد کا دورہ ایران ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی جانب سے ایک نیا دعویٰ کیا گیا ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ علاقائی سلامتی کے لیے بحیرہ احمر میں امریکا کی سربراہی میں ایک اتحاد بنایا جا رہا ہے جس میں اسرائیل، اردن، مصر اور سعودی عرب شامل ہوں گے۔اتوار کے روز اسرائیلی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بحیرہ احمر میں فوجی تعاون کا مقصد بحری نقل و حمل، تیل، گیس اور سٹریٹجک اثاثوں کو ایرانی خطرے سے بچانا ہے۔اسرائیلی نیوز ویب سائٹ ’زمانے اسرائیل‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ ’علاقائی دفاعی اتحاد‘ عراق اور یمن میں ایران اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیوان حسینی کا تجزیہ: ’محمد بن سلمان امریکہ اور اسرائیل کی کٹھ پتلی کے طور پر پہچانے جانے میں دلچسپی نہیں رکھتے‘
گزشتہ ایک دہائی میں سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے عروج کے ساتھ ہی ریاض اور تہران کے تعلقات تبدیل ہونے لگے۔ امریکہ کے ساتھ تاریخی تعلقات رکھنے کے باوجود سعودی ولی عہد اس خطے کی اہم ترین شخصیت بن گئے جنھوں نے ایران کے معاملے پر دل و جان سے کام کیا۔اگرچہ چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب دو سال سے بھی کم عرصے میں ایک دوسرے کے قریب آنے لگے لیکن یہ مذاکرات اور ان کے نتائج کسی اتحاد کی وجہ سے نہیں کیونکہ تہران اور ریاض کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔سعودی عرب روایتی طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ اپنی خارجہ پالیسی میں وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ امریکہ کے مفادات اور مطالبات پر سوال نہ اٹھائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ایران کے درمیان علاقائی مقابلے کی تاریخ اسلامی جمہوریہ کی تاریخ سے بھی زیادہ طویل ہے۔اسرائیل کی لبنان میں جاری فوجی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس تنازعے میں ابھی تک جنگ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔اس سب کے دوران امریکہ کا صدارتی الیکشن ایک ایسا شخص جیت چکا ہے جو اسرائیل کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ایران کے ساتھ ایک سخت معاہدے کا وعدہ کر کے بھی آیا ہے۔بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کا مطلب ہے کہ مشرق وسطیٰ میں حالات مزید کشیدہ ہو جائیں گے۔لیکن اگر یہ پیشگوئیاں درست ثابت ہوئیں تو خطے کے بہت سے ممالک، خاص طور پر سعودی عرب جیسے وہ ملک جو امریکہ کے ساتھ اچھے اور قریبی تعلقات رکھتے ہیں، کو ایک مشکل فیصلہ کرنا ہو گا کیا انھیں ایران کا ساتھ دینا چاہیے یا اس فوجی کشیدگی میں غیر جانبدار رہنا چاہیے؟لیکن ایک ایسے وقت میں جب مسلم دنیا میں اسرائیل کے خلاف غصہ انتہا کو پہنچ چکا ہے تو اس صورتحال میں سعودی عرب، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کی ایران اور اسرائیل کے بارے میں ’غیر جانبداری‘ کی انھیں بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔پیر کو اپنی تقریر میں محمد بن سلمان نے ظاہر کیا کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے کٹھ پتلی بادشاہ کے طور پر پہچانے جانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ پوزیشن نہ صرف خطے میں ان کی پوزیشن پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے بلکہ خطے میں طاقت پر مبنی تعلقات میں بھی سعودی عرب کے کردار کے لیے بھی اہم ہے۔ خاموش رہنے اور ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کو نظر انداز کرنے کی بجائے سعودی عرب اب کھل کر اسرائیل کے خلاف، ایران کے حق میں سامنے آیا ہے۔محتاط الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے محمد بن سلمان نے ’بین الاقوامی برادری‘ سے خطاب کیا اور عملی طور پر مغربی دنیا کو اپنی تقریر کے حقیقی سامعین کے طور پر منتخب کیا۔ یہ کام دراصل سعودی عرب کے چہرے کو از سر نو تعمیر کرنے اور بین الاقوامی سطح پر اس ملک کی پوزیشن کو نئے سرے سے متعین کرنے کی ان کی وسیع مہم کا تسلسل ہے، جو کئی سال پہلے شروع کی گئی تھی۔اس تقریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محمد بن سلمان اب ایران کے خلاف توازن قائم کرنے کے لیے اسرائیل یا امریکہ سے قربت کی تلاش میں نہیں۔ اس کے برعکس اس بار وہ اسرائیل کی طاقت میں اضافے سے پریشان ہیں: ایک ایسا عمل جو اب بھی جاری ہے اور اگر اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تو اس سے خطے پر اسرائیل کا غلبہ بڑھ سکتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.