بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سعودی عرب: ہراسانی کے مبینہ واقعات، ’افواہیں‘ پھیلانے پر سزا کا اعلان

سعودی عرب: جنسی ہراسانی کے مبینہ واقعات کے بعد حکومت کا ’افواہیں‘ پھیلانے پر سزا کا اعلان

  • سبیسٹیئن اشعر
  • بی بی سی کے عرب امور کے نامہ نگار

Audience at MDL Beast festival in Riyadh (19/12/19)

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

حالیہ واقع ریاض میں ایک میوزک فیسٹیول میں ہراساں کرنے کے دعوؤں کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے

سعودی حکام نے خبردار کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ’بے بنیاد‘ افواہیں پھیلانے والے کو پانچ سال جیل کی سزا اور بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔

یہ انتباہ ریاض میں ایک کنسرٹ کو منسوخ کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس کنسرٹ کے بعد آن لائن رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ جب خواتین اپنے گھر واپس جا رہی تھیں تو انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا۔

کچھ خواتین نے بی بی سی کو بتایا کہ جو کچھ کنسرٹ کے بعد ہوا وہ اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر خوفزدہ ہیں۔

سعودی اینٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ اپنے کئی ٹویٹس میں ان کے دعووں کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔

یہ سعودی عرب میں ثقافتی اور سماجی تصادم میں ایک تازہ ترین پیشرفت ہے۔ سعودی عرب ایک انتہائی قدامت پسند معاشرہ رہا ہے اور اب یہاں کوشش کی جا رہی ہے کہ اسے ایک ایسا معاشرہ بنایا جائے جو بڑے پیمانے پر تفریحی پروگراموں کی میزبانی کرے۔

کے پاپ اور سٹرے کڈز کا کنسرٹ جس کا بہت زیادہ انتظار تھا 14 جنوری کی شام کو تیز ہواؤں کے باعث آخری لمحات پر منسوخ کر دیا گیا تھا۔ ہجوم کی وجہ سے مایوس شائقین کو سعودی دارالحکومت کے مضافات میں پنڈال سے گھر کا راستہ تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر رپورٹس آنے لگیں کہ کنسرٹ سے لڑکیاں لاپتہ ہو گئی ہیں اور اس کے علاوہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کی خبریں بھی آئیں۔ کم از کم انٹرنیٹ پر تو خوف و ہراس نظر آ رہا تھا۔ اس کے بعد ہیش ٹیگ نظر آنے لگے جس سے خوف کا احساس مزید بڑھ گیا۔

حقیقت ابھی تک واضح نہیں ہے۔

وہاں موجودگی کا دعویٰ کرنے والے بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور منتظمین نے مشکل حالات میں بھی اچھا انتظام کیا تھا۔

ان کی بات کو شاید اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جیسے جیسے شام ڈھلنے لگی تھی، کچھ مردوں کی تصاویر بھی پوسٹ ہونا شروع ہو گئی تھیں جو خواتین کو ہراساں کر رہے تھے۔ لیکن ان میں سے کچھ تصاویر تو بے ترتیبی سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اٹھائی گئی تھیں یا پھر وہ مشہور شخصیات کے اکاؤنٹس سے لی گئی تھیں۔ اس ٹرولنگ نے متعدد خواتین کے اس دعوے کو کمزور کر دیا کہ ایسے واقعات ہوئے تھے۔

سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ترکی الشیخ نے بعد ازاں متعدد ٹویٹس میں ہراساں کیے جانے کی اطلاعات کا مذاق اڑایا کہ یہ من گھڑت کہانیاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کئی آن لائن اکاؤنٹس سے تیزی سے میمز بننے لگیں جن میں ہراساں کیے جانے کی یا لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی خبروں کا مذاق اڑایا گیا اور اس طرح کے الزامات لگانے والوں اور انھیں پوسٹ کرنے والوں کو ’جھوٹا‘ اور ’سعودی عرب کو بدنام کرنے والے‘ کہا گیا۔

لیکن کئی خواتین جنھوں نے پہلے ملک میں تفریحی پروگراموں میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں بی بی سی سے بات کی تھی، نے اصرار کیا کہ جو کچھ رپورٹ کیا گیا تھا اس میں سے کچھ واقعات سچ بھی ہیں۔

وہ مانتی ہیں کہ اسے ثابت کرنا مشکل ہے کیوں کہ دعووں کو ثابت کرنے کے لیے ابھی تک کوئی ویڈیوز یا تصاویر سامنے نہیں آئی ہیں۔ تاہم ان کی تشویش اس سے بھی آگے کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایسی رپورٹس پوسٹ کی تھیں یا آن لائن بحث کی میزبانی کی تھی ان میں سے کچھ کو دھمکیاں ملی ہیں اور انھوں نے اپنے اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ سرکاری ردعمل کا مقصد ان لوگوں کو خاموش کرنا ہے جو حکام کے مطابق خطے میں سعودی عرب کے تفریح ​​کے ایک کھلے اور خیر مقدم کرنے والے مرکز کے طور پر نئی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں۔

انھیں خدشہ ہے کہ اس سے مستقبل میں خواتین جنسی ہراسانی کے خوف سے عوامی مقامات پر جانے سے کترائیں گی، جو ان کے بقول ملک کے روایتی سماجی اصولوں کی وجہ سے پہلے ہی محدود ہیں۔

سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایم ڈی ایل بیسٹ میوزک فیسٹیول میں سات لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی

تفریحی پروگرام پر یہ تازہ ترین ہنگامہ ریاض میں ہونے والے چار روزہ ایم ڈی ایل بیسٹ میوزک فیسٹیول کے چند ہفتوں بعد ہوا ہے۔ اس فیسٹیول نے نہ صرف لاکھوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ سعودی عرب میں قدامت پسند عناصر کی جانب سے اس پر ناپسندیدگی کا بھی اظہار کیا گیا۔

تقریب کے منتظمین نے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی قسم کی ہراسانی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

سعودی حکام اس بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں اسے حال ہی میں ہونے والے ہراسانی کے ایک کیس سے بھی تقویت ملتی ہے۔ حال ہی میں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنسی ہراسانی کے مرتکب پائے جانے والے ایک شخص کا نام مقامی میڈیا میں شائع ہوا ہے۔

سعودی ولی عہد کے ملک کو دنیا کے سامنے کھولنے کے منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ عارضی مسائل اور مشکلات ہیں، جب اس طرح کی روایتی ثقافت میں اتنی بڑی تبدیلیاں آ رہی ہوں تو یہ باتیں ناگزیر ہو جاتی ہیں۔

لیکن 14 جنوری کے حوالے سے جن خواتین نے تشویش ظاہر کی تھی انھیں خوف ہے کہ ان کے بولنے کی آزادی کو مزید محدود کر دیا گیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.