بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سعودی عرب کی یمن میں حوثی باغیوں کو جنگ بندی کی پیشکش، پاکستان کا خیرمقدم

سعودی عرب کی یمن میں حوثی باغیوں کو جنگ بندی کی پیشکش، پاکستان کا خیرمقدم

یمن جنگ

،تصویر کا ذریعہReuters

سعودی عرب نے پیر کو یمن میں چھ سال سے جاری جھڑپیں ختم کرنے کے لیے حوثی باغیوں کو جنگ بندی کی پیشکش کی ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں سعودی عرب کی جانب سے یمن میں جنگ بندی کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ’پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ اچھی پیشرفت ہے۔ لڑائی کے پُرامن خاتمے کے لیے ہم سعودی عرب کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم یمن کے مسئلے میں تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ معنی خیز مذاکرات میں شریک ہوں تاکہ ظلم ختم ہو اور خطے میں امن و استحکام کے لیے ہزاروں معصوم زندگیوں کو بچایا جاسکے۔‘

یہ بھی پڑھیے

دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ فيصل بن فرحان آل سعود نے کہا ہے کہ اس پیشکش میں ’اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ملک کے تمام حصوں میں جامع جنگ بندی ہو گی۔‘

سعودی عرب، یمن، جنگ بندی، حوثی باغی

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

سعودی وزیر خارجہ فيصل بن فرحان آل سعود

ریاض میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک صنعا ایئر پورٹ کی بحالی کی بھی تجویز کر رہا ہے۔

یہ یمن کے دارالحکومت میں واقع ہے جو حوثیوں کے زیر انتظام ہے۔ سعودی عرب کی حمایت یافتہ یمنی حکومت اور حوثیوں کے ساتھ مذاکرات کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔

سعودی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ بندوقیں مکمل طور پر خاموش ہو جائیں۔۔۔ اس پیشکش پر فوراً عملدرآمد شروع ہوجائے گا جیسے ہی حوثی اسے منظور کریں گے۔‘

یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نے اس پیش کش کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم حوثیوں نے کہا ہے کہ اس اقدام میں ’کوئی نئی بات نہیں‘ ہے، اور دارالحکومت صنعا کے ہوائی اڈے اور الحدیدہ کی مغربی بندرگاہ پر سے ناکہ بندی کو مکمل طور پر اٹھانے کے ان کے مطالبے کو پورا نہیں کرتا۔

حوثی باغیوں کے اعلیٰ مذاکرات کار محمد عبدالسلام نے روئٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ’ہمیں توقع تھی کہ سعودی عرب بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کی ناکہ بندی ختم کرنے کا اعلان کرے گا اور اتحادی فوج کے زیر قبضہ 14 جہازوں کو آنے کی اجازت دینے کے اقدام کا اعلان کرے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ ان کا گروہ سعودی عرب، امریکہ اور ثالث ملک عمان سے امن معاہدے کے لیے بات چیت جاری رکھے گا۔

سعودی عرب اس اتحاد کی رہنمائی کرتا ہے جو یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حمایت کرتا ہے۔

یہ پیشکش ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے کہ جب سعودی عرب کی توانائی کی تنصیبات پر ڈرون اور میزائل حملے کیے گئے تھے۔ حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

یمن میں امن کے لیے پچھلے کئی منصوبے ناکام ہو چکے ہیں، جن میں گذشتہ برس سعودی عرب سے جنگ بندی کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ لیکن اس مرتبہ سعودی عرب کچھ ایسی رعایتیں بھی پیش کر رہا ہے جس کا حوثی باغی طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں، جن میں صنعا میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کا کھولنا بھی شامل ہے، جو فی الحال خوثی باغیوں کے زیر کنٹرول ہے، حالانکہ سعودی زیر قیادت اتحاد اس کی فضائی حدود کو کنٹرول کرتا ہے۔

یمن جنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگر دونوں فریق اس جنگ بندی پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو اس معاہدے کی نگرانی اقوام متحدہ کرے گا اور یہ امن مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد کرے گا۔

حوثی باغی اس وقت صوبہ مارب میں لڑ رہے ہیں اور یہ شمال میں وہ جگہ ہے جہاں یمنی حکومت کا زور ابھی بھی برقرار ہے۔ اس طرح سعودی حمایت یافتہ فورسز پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن اس وقت دنیا کے بدترین انسانی حقوق کے بحران کا شکار ہے۔ گذشتہ ماہ اس نے کہا تھا کہ اگر مارب میں لڑائی جاری رہی تو شہری آبادی پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔

یاد رہے کہ یمن تنازعے کا آغاز سنہ 2014 کے آخر میں ہوا تھا، جب حوثی باغیوں نے ملک کے بیشتر مغربی حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور عرب ریاستوں کے سعودی زیرقیادت اتحاد نے صدر عبدربہ منصور ہادی کی حکمرانی کی بحالی کے لیے فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.