سعودی عرب کی مالی معاونت: کیا اربوں ڈالرز کا سعودی پیکج پاکستانی روپے کی قدر مستحکم کر پائے گا؟
- تنویر ملک
- صحافی، کراچی
پاکستان کے وزیر توانائی حماد اظہر اور مشیر خزانہ شوکت ترین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذخائر میں تین ارب ڈالر کے ڈیپازٹس رکھے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کا ایک سال کے لیے تیل موخر ادائیگی پر دیا جائے گا۔
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے مرکزی بینک میں تین ارب ڈالر جمع کروانے کی پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان بڑھتے جاری کھاتوں کے خسارے اور ادائیگیوں میں عدم توازن کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا شکار ہے اور اس کا منفی اثر ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر پڑا ہے جو بے تحاشہ گراوٹ کا شکار ہے۔
گذشتہ روز پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی جب ایک ڈالر کی قیمت 175 روپے کی حد عبور کر کے 175.27 پر بند ہوئی۔
یاد رہے سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تین ارب ڈالر پہلی بار نہیں رکھے جا رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدا میں جب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے پاکستان ادائیگوں کے عدم توازن کا شکار ہوا تو سعودی عرب نے دو ارب ڈالر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں رکھے تھے۔
جن میں سے ایک ارب ڈالر گذشتہ برس سعودی عرب کو واپس کر دیے گئے اور ایک ارب ڈالر ابھی بھی سٹیٹ بینک کے ذخائر کا حصہ ہے۔
اسی طرح موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کی سہولت موجودہ حکومت کے علاوہ سابقہ حکومتوں کے دور میں بھی فراہم کی گئی۔
سعودی عرب کے اعلان کا ایکسچینج ریٹ پر فوری اثر کیسے پڑا؟
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے لیے 4.2 ارب ڈالر فراہمی کے اعلان کے فوری بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ کا مثبت اثر پڑا ہے۔
بدھ کی صبح کرنسی مارکیٹ میں کاروبار کا آغاز ہوتے ہی ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی کی قدر میں ایک روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔
یہ مثبت رحجان بدھ کی دوپہر تک جاری رہا اور مقامی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں دو روپے سے زائد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
کرنسی ڈیلرز کے مطابق پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں گراوٹ سعودی عرب کی جانب سے دیے جانے والے ڈیپازٹس اور موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کا مثبت اثر ہے۔
چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں بدھ کو کاروبار کے آغاز سے ہی ڈالر کی قدر میں ایک روپے سے زیادہ کی کمی دیکھنے میں آئی۔
انھوں نے کہا پاکستانی روپیہ بہت عرصے سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں دباؤ میں تھا جس کی وجہ سے اس کی قدر میں مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آ رہی تھی تاہم سعودی عرب کی جانب سے اعلان نے اس کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا دیا۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ ’سعودی اعلان نے ڈالر کی قیمت بڑھنے کے عمل کو فوراً روک دیا ہے اور پاکستانی روپے نے اپنی کھوئی ہوئی قدر کو ایک روپے سے زائد اضافے کے ساتھ واپس حاصل کیا ہے۔
یاد رہے کہ 21 مئی 2021 کو ایک امریکی ڈالر کی قیمت 152.28 روپے تھی اور پانچ مہینوں میں اس کی قیمت میں 23 روپے کا اضافہ ہوا جو 26 اکتوبر 2021 جو 175.27 تک جا پہنچی تھی۔
روپے کی قدر میں ہونے والا اضافہ کیا دیرپا ہو گا؟
سعودی عرب کی مالی معاونت کے اعلان کے بعد ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ہونے والے اضافے پر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ’تازہ ترین پیش رفت کے تناظر میں امید ہے کہ ڈالر کی قیمت 170 روپے تک گر جائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات میں بھی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس سے پاکستانی روپے کی قدر میں مزید اضافہ متوقع ہے۔‘
ملک بوستان نے کہا آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو کورونا کے لیے دی گئی امداد کے خرچ کرنے کی بھی اجازت مل گئی ہے اس کا مثبت اثر بھی ڈالر کےمقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر پر پڑے گا۔
انھوں نے کہا اگر آئی ایم ایف کی ساتھ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو دوسرے مالیاتی اداروں جیسے کہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے ترقیاتی فنڈز بھی جاری ہو جائیں گے جس کا ایکسچینج ریٹ پر مثبت اثر ہو گا۔
ظفر پراچہ نے بھی سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی کو مالی سہولت کی فراہمی پر ڈالر کے 170 روپے کی سطح تک گرنے کی پیش گوئی کی۔
انھوں نے کہا ’اگر پاکستان کے معاشی اشاریے دیکھے جائیں تو ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت محتاط اندازے کے مطابق 160 روپے تک ہونی چاہیے۔‘
انھوں نے کہا اگر آئی ایم ایف کی جانب سے ایکسیچنج ریٹ میں روپے کی قدر گرانے کی کوئی شرط نہ ہوئی تو پھر ہو سکتا ہے کہ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 160 روپے تک آ جائے۔
انھوں نے کہا ’اس تازہ ترین پیش رفت کی وجہ سے ڈالر کی قدر کی کمی سے مارکیٹ میں ایک فضا بنے گی کہ اب ڈالر کی قیمت گرے گی اس لیے وہ لوگ جو ڈالر خرید رہے تھے وہ یہ خریداری بند کر دیں گے اور جنھوں نے خریدا ہوا ہے وہ اسے فروخت کریں گے تاکہ ڈالر کی قدر میں کمی سے انھیں مزید نقصان نہ ہو۔‘
یہ بھی پڑھیے
معاشی ماہر اور عارف حبیب لمیٹڈ میں ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سعودی عرب کی جانب سے دی گئی مالی سہولت کی وجہ سے ڈالر کا ریٹ 170 روپے تک آنے کی امید ہے۔
انھوں نے کہا کہ کرنسی مارکیٹ میں اس کا فوری اثر بہت مثبت انداز میں ہوا اور آئی ایم ایف سے مذاکرات اگر جلدی کامیاب ہو جاتے ہیں تو ڈالر کی قدر میں مزید کمی کی توقع ہے۔
روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی کی کیا وجوہات تھیں؟
اس سال مئی کے مہینے سے روپے کی قدر میں کمی کے رجحان پر بات کرتے ہوئے طاہر عباس نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی درآمدات کا بڑھنا اور مہنگا ہو جانا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں خام تیل، خورودنی تیل اور دوسری اجناس کی قیمتیں بڑھی ہیں جس کا اثر پاکستان پر بھی پڑا اور اسے مہنگے داموں یہ چیزیں ملک میں درآمد کرنا پڑیں۔‘
طاہر عباس نے کہا کہ صرف خام تیل کی درآمدات کا مجموعی حجم ملکی درآمدات میں 25 فیصد حصہ ہے۔ آج عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں 2014 کے بعد بلند ترین سطح پر موجود ہیں جس کا اثر پاکستان پر منفی صورت میں ہوا۔ تجارتی خسارہ بڑھا تو اس کے ساتھ جاری کھاتوں کے خسارے میں بھی اضافہ ہوا اور اس کا منفی اثر ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر پڑا۔
انھوں نے افغانستان کی صورت حال کو بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک وجہ قرار دیا۔ طاہر عباس کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کا بینکاری کا شعبہ تباہ ہو چکا ہے اور ڈالر کی ڈیمانڈ کو پاکستان سے اوپر کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی قیمت پر ایک منفی اثر ہوا۔‘
مستبقل میں افغانستان کی صورتحال کے ڈالر اور روپے کے درمیان شرح مبادلہ پر اثر کے حوالے سے طاہر عباس نے کہا کہ ’سٹیٹ بینک کی جانب اب اس سلسلے میں اقدامات لیے گئے ہیں تاکہ اس کی نگرانی کی جا سکے جس سے صورت حال میں بہتری آنے کی توقع ہے۔‘
ملک بوستان نے کہا کہ ’درآمدی بل میں اضافے کی وجہ سے روپے کی قدر پر منفی اثر پڑا۔ انھوں نے کہا کہ ’جولائی میں پانچ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا درآمدی بل، اگست اور ستمبر میں بڑھ کر چھ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ہو گیا جس کا منفی اثر روپے کی قدر پر پڑا۔‘
اسی طرح پاکستان نے اس مہینے کے شروع میں ایک ارب ڈالر کی اسکوک بانڈ کی ادائیگی بھی کی تھی جس کا اثر ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر پر پڑا۔
ظفر پراچہ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’درآمدی بل میں اضافے کے ساتھ آئی ایم ایف پروگرام سے جڑی غیر یقینی صورت حال نے بھی ڈالر کی قیمت میں اضافے میں مدد فراہم کی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسی صورت حال میں قیاس آرائیوں کی بنیاد پر ڈالر کی خریداری شروع ہو جاتی ہے جس نے اس کی قدر میں اضافہ کیا۔‘
Comments are closed.