سعودی عرب کا قدیم خانہ بدوش بدو گروہ سے ملک بننے تک کا سفر،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنآج کا سعودی عرب پہلے بدو قبائل پر مشتمل خانہ بدوش علاقہ تھا۔

  • مصنف, سید الاسلام
  • عہدہ, بی بی سی نیوز بنگلہ، ڈحاکہ
  • 37 منٹ قبل

سعودی عرب کے صحراؤں میں انسانی آباد کاری برفانی دور ختم ہونے کے بعد تقریباً 15 سے 20 ہزار سال قبل شروع ہوئی۔ مذہب اسلام کے آنے کے بعد سعودی عرب خلافت کا مرکزی مرکز بنا لیکن اس کی یہ حیثیت زیادہ دیر نہ چل سکی۔ماضی میں سعودی عرب پر شام، عراق اور ترکی سے حکومت کی جاتی رہی ہے۔ کئی سالوں پر محیط تین کوششوں کے بعد موجودہ سعودی عرب ایک آزاد ملک کے طور پر وجود میں آیا۔

خانہ بدوشوں کا ملک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنریاض میں سعودی عرب کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔
سعودی عرب کا علاقہ مختلف خانہ بدوش بدو قبائل کا علاقہ تھا۔ یہاں تمام قبائل آزادی سے رہتے تھے۔ جیمز وینبرانڈ اپنی کتاب ’سعودی عرب کی مختصر تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ 32ویں صدی قبلِ مسیح میں موجودہ بحرین اور اس کے آس پاس کے ساحلی علاقوں میں دلمن نامی تہذیب نے جنم لیا۔ اس وقت دلمون کے تجارتی تعلقات میگن (موجودہ عمان)، بابل اور دریائے سندھ کی وادی میسوپوٹیمیا جیسے شہروں کے ساتھ تھے۔ دلمون اس زمانے میں موتیوں کے لیے پوری دنیا میں مشہور تھا۔ اس وقت یمن کو سبا کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسی طرح اردن کا نام نباطین تھا۔

لیکن وادی عرب کے لوگ ہمیشہ سے خود کو العرب یا جزیرہ عرب کے باشندے کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ اپنے آپ کو وہ عرب کیوں کہتے تھے۔ حالانکہ ان میں سے زیادہ تر لوگ صحرا کے خانہ بدوش تھے جنھیں بدو کہا جاتا ہے۔اسلام سے پہلے کے معاشرے میں بدو برادری کے لوگ کئی گروہوں یا ذاتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان سب کا اپنا الگ طرز حکمرانی اور رسم و رواج تھے۔ جیمز وینبرانڈ لکھتے ہیں کہ قبل مسیح سے دوسری صدی تک ان گروہوں میں سے زیادہ تر پر روم کی حکومت تھی۔تاہم بعد میں روم اس حق سے دستبردار ہو گیا۔ اس کے بعد تیسری صدی میں بدو قبائل نے مل کر ایک اتحاد بنا لیا اور ایک بڑی قبائلی کنفیڈریسی تشکیل دی جس نے ان کی طاقت میں مزید اضافہ کر دیا۔پانچویں صدی میں بدو قبائل کے اس اتحاد نے شام، فلسطین اور یروشلم پر بھی حملہ کیا۔

مکہ کب مسلمانوں کے قبضے میں آیا؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمکہ سنہ 630 میں مسلمانوں کے قبضے میں آیا
سنہ 630 میں اسلام کی تبلیغ کے بعد مکہ مسلمانوں کے زیرِحکمرانی آ گیا۔ اسلام کی تبلیغ کی ابتدا مدینے سے ہوئی اور آہستہ آہستہ دیگر علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آنے لگے۔اسلام کے آخری پیغمبر محمد کی رحلت کے وقت تک تقریباً پورا عرب خطہ مسلمانوں کے قبضے میں آچکا تھا۔ اور اس وقت تک عرب کے بدوؤں کے تمام گروہ اسلام کی سائے تلے آچکے تھے اور انھوں نے آپس کی لڑائیاں ترک کر کے اسلام کے فروغ کے لیے کام کرنے کا عزم کر لیا تھا۔ اگلے ایک سو سال کے اندر اسلام دنیا کے کئی حصوں بشمول سپین اور ہندوستان تک پہنچ گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسلامی خلافت کا مرکز یا دارالحکومت عرب خطے سے پہلے دمشق اور پھر بغداد منتقل ہو گیا۔ اس وقت خطہِ عرب حجاز اور نجد کے نام سے دو حصوں میں تقسیم تھا۔ مغربی ساحلی علاقہ حجاز تھا۔ اس میں مکہ، مدینہ اور جدہ جیسے شہر شامل ہیں۔ مختلف ادوار میں بنوامیہ، عباسیوں، مصریوں اور عثمانیوں نے اس علاقے پر حکومت کی ہے۔صحرائی اور پہاڑی علاقہ نجد کے نام سے مشہور تھا جہاں خانہ بدوش اور جنگ پسند بدو قبائل کے لوگ آباد تھے۔ اس علاقے میں ریاض جیسے شہر تھے۔ اس علاقے پر کبھی کسی غیر ملکی طاقت کا راج نہیں رہا اور یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ خود کو آزاد سمجھا ہے۔

سلطنت عثمانیہ کا راج

سنہ1557 میں عثمانی حکمران سلیمان سلیم اول کے ہاتھوں شام اور مصر پر حکمرانی کرنے والے مملوکوں کو شکست کے بعد، ترکوں نے حجاز کا کنٹرول حاصل کر لیا۔سلطان سلیم نے خود کو مکہ کا محافظ قرار دیا۔ اور بعد ازاں ترک سلطنت کو بحیرۂ احمر کے ساتھ دوسرے عرب علاقوں تک پھیلا دیا۔ لیکن اس کے باوجود عرب کا ایک بڑا حصہ آزاد رہا۔

سعودی ریاست کے پہلے اور دوسرے ادوار

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمحمد بن سعود نے سنہ 1744 میں سعودی عرب میں پہلی ریاست قائم کی۔ سعود ریاض کے قریب واقع دریہ نامی علاقے میں آباد ایک قبیلے کا سربراہ تھا۔ اس نے عرب مذہبی رہنما محمد ابن عبدالوہاب کی مدد سے خلافتِ عثمانیہ سے علیحدگی اختیار کرلی اور امارتِ دریہ کے نام سے ایک مملکت قائم کی جو تاریخ کی پہلی سعودی ریاست تھی۔ مگر یہ ایک طرز کی شہری ریاست تھی۔جیمز وینبرانڈ اپنی کتاب ’سعودی عرب کی مختصر تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ محمد ابن عبدالوہاب کو اپنے نظریات کی تبلیغ کے لیے فوجی مدد کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف محمد بن سعود کو ایک آزاد عرب قوم کی تشکیل کے لیے مذہبی حمایت کی ضرورت تھی۔ دونوں نے مل کر نجد کو متحد کرنے کی کوشش کی۔محمد ابن سعود کے بعد اس کے جانشین عبدالعزیز نے عثمانی حکمرانوں کو شکست دی اور کربلا سمیت عراق کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس زمانے میں، نجد اور حجاز حکمران خاندانوں کی آپس میں شادی کے ذریعے وہ متحد ہو گئے تھے۔سنہ 1803 میں محمد ابن سعود کی ایک جان لیوا حملے میں موت کے بعد ان کے بیٹے سعود بن عبدالعزیز نے مکہ اور مدینہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ لیکن ترکوں کے مسلسل حملوں کی وجہ سے یہ ریاست زیادہ دن قائم نہ رہ سکی۔سنہ 1818 میں ترکوں نے دریہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ تقریباً سات ماہ جاری رہنے والی ناکہ بندی کے بعد، عبداللہ ابن سعود نے مصری فوجی کمانڈر ابراہیم پاشا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ بعد ازاں قسطنطنیہ میں اس کا سر قلم کر دیا گیا۔ دوسری سعودی ریاست کی بنیاد ترکی ابن عبداللہ ابن محمد ابن سعود نے رکھی۔ وہ امارتِ دریہ کے آخری حکمران عبداللہ کے چچازاد بھائی تھے۔پہلی سعودی قوم کے زوال کے بعد وہ آل سعود خاندان کے کئی دوسرے افراد کے ہمراہ دریہ سے فرار ہو گئے تھے۔ اس وقت انھیں صحرا میں ایک قبیلے میں پناہ دی۔مدابی الرشید اپنی کتاب ’سعودی عرب کی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ترکی ابن عبداللہ نے سنہ 1823 میں ترکی اور مصر کے خلاف جنگ شروع کی اور بالآخر ریاض اور دریہ پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے اماراتِ نجد کے نام سے دوسری سعودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا جس کا دارالحکومت ریاض تھا۔ لیکن یہ ریاست بھی زیادہ دیر نہ چل سکی۔سنہ 1834 ترکی ابن عبداللہ کو ان ایک کزن نے قتل کر دیا۔ اس کے بعد سنہ 1891 دوسری سعودی ریاست بھی ختم ہوگئی۔ اس کے آخری حکمران عبدالرحمن بن فیصل نے اپنے بیٹے عبدالعزیز کے ساتھ مل کر ایک بدو قبیلے مرہ کے پاس پناہ لی۔‘

موجودہ سعودی ریاست

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesعبدالعزیز بن عبدالرحمٰن بن فیصل، جو ابن سعود کے نام سے مشہور ہیں، نے سنہ 1902 میں ریاض پر قبضہ کرنے کے بعد تیسری بار سعودی ریاست قائم کی۔ تاہم اسے ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔مورخ جیمز وینبرانڈ لکھتے ہیں کہ ابن سعود جب ریاض پر قبضہ کرنے نکلے تو ان کے ساتھ محض 40 لوگ تھے۔ لیکن ریاض کے راستے میں بدو قبیلے کے بہت سے لوگ ان کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ اس وقت سعودی عرب کے بیشترعلاقے بشمول مکہ اور مدینہ خلافتِ عثمانیہ کے زیر حکمرانی تھے۔دوسری طرف حجاز کا علاقہ شریف حسین نامی حکمران کے زیر تسلط تھا جبکہ نجد ابن سعود کے کنٹرول میں تھا۔ لیکن اسے نجد میں راشدیوں کے خلاف جنگ جاری رکھنی پڑی۔اس وقت برطانیہ، فرانس، جرمنی اور روس سمیت کئی غیر ملکی طاقتیں اس علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہونے کے بعد شریف حسین انگریزوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔اس وقت برطانوی فوج نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ میں عربوں کی مدد کی۔ انھیں تربیت دینے کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی فراہم کیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد سعودی عرب عثمانی حکمرانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔لیکن جنگ ختم ہونے کے بعد ایک خفیہ معاہدے کے تحت برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کے مختلف علاقوں کو آپس میں تقسیم کر لیا۔ اور اس ہی دوران شریف حسین اور ابن سعود کے درمیان عرب علاقوں پر کنٹرول کے لیے لڑائی شروع ہو گئی۔مدابی الرشید نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابن سعود نے سب سے پہلے راشدیوں کو شکست دی اور نجد پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد سنہ 1924 میں عازمین حج پر حملوں کا الزام لگاتے ہوئے انھوں نے حجاز میں بھی فوجی مہم شروع کی۔اسی دوران شریف حسین کے برطانیہ کے ساتھ تعلقات میں دراڑیں پڑنے لگی تھیں۔ شریف حسین کو جب برطانوی مدد نہ ملی تو وہ عقبہ سے فرار ہو گئے۔ اس کے بعد ابن سعود نے حجاز اور نجد پر قبضہ کر لیا۔سنہ 1926 میں مکہ، مدینہ اور جدہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد عبدالعزیز بن سعود نے خود کو حجاز کا بادشاہ قرار دے دیا۔ وہ پہلے ہی نجد کے سلطان تھے۔ اگلے سال جنوری میں انھوں نے نجد اور حجاز کو ملا کر ‘مملکت نجد و حجاز‘ کے قیام کا اعلان کیا۔ بعد ازاں انھوں نے برطانوی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد اس ریاست کو تسلیم کر لیا گیا۔ اس وقت انھوں نے خود کو امام کا لقب دیا لیکن سرکاری دستاویزات میں وہ بادشاہ کہلاتے تھے۔

سعودی عرب ریاست کب بنا؟

ریاست کے قیام کے بعد عبدالعزیز ابن سعود نے عربوں کو اپنا روایتی طرز زندگی بدلنے کا حکم دیا۔ ابن سعود نے بدو قبائل کی باہمی لڑائیوں، حملوں اور لوٹ مار پر بھی پابندی لگا دی۔18 ستمبر 1932 کو ابن سعود نے ایک شاہی فرمان جاری کیا جس میں حجاز اور سعود کو ایک ملک قرار دیا گیا۔اس کے بعد 23 ستمبر کو انھوں نے شاہی حکم جاری کیا کہ اب سے عرب خطہ، الممالک العربیہ السعودیہ یا مملکت سعودی عرب کے نام سے جانا جائے گا۔ لیکن اس وقت تک سعودی عرب کے زیادہ تر لوگ خانہ بدوش طرز زندگی کے عادی ہو چکے تھے جبکہ ریاست کے مالی حالات بھی بہت اچھے نہ تھے۔لیکن تیل کی دریافت کے بعد اس علاقے کی حالت یکسر بدل گئی۔ سعودی عرب میں تیل کی تلاش 1922 میں شروع ہوئی۔ کارل اسچ وٹسل نے سنہ 1932 میں ایک امریکی شہری چارلس کرین کی مدد سے سعودی عرب آیا اور تیل کی تلاش کے لیے سروے شروع کیا۔اس کے بعد سنہ 1935 سے ڈرلنگ شروع ہوئی اور پہلی بار سنہ 1938 میں تیل کی پیداوار شروع ہوئی۔اور اس کے بعد سعودی عرب کی قسمت ایک دم بدل گئی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}