سعودی عرب اور سیاحت: تیل کے کنویں پر ہوٹل اور صحرا میں شہر بسانے کا خواب کب پورا ہوگا؟
- سسیلیا بریا
- بی بی سی منڈو
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملک کی معیشت میں تیل پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں
کیا آپ کسی ایسی جگہ چھٹیاں منانے جانا چاہیں گے جہاں سے تیل نکلتا ہو؟ بظاہر یہ مشکل لگتا ہے۔
مگر سعودی عرب نے سمندر کے بیچ و بیچ تیل کے ایک ایسے کنویں کو تفریحی مقام میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جہاں مشینری کی مدد سے تیل نکالا جاتا ہے۔ منصوبے کے تحت یہاں مختلف ایکسٹریم سپورٹس، ریستوران، ہوٹل اور لگژری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
اس منصوبے کا نام ’دی رِگ‘ ہے اور یہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خیالات کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتا ہے: دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے ملک کی معیشت میں تیل پر انحصار کم کرنا، اسے عالمی سطح پر سیاحتی مقام میں تبدیل کرنا اور آمدن کے متنوع ذرائع پیدا کرنا۔
یہ ویژن 2030 نامی معاشی اصلاحات کے پروگرام کا حصہ ہے جس کی تشہیر خود محمد بن سلمان نے دنیا بھر میں کی تاکہ مغربی سرمایہ کاروں کو رضامند کیا جاسکے کہ وہ یہاں سرمایہ کاری کریں۔
سعودی حکومت کو امید ہے کہ آئندہ ایک دہائی میں سیاحت سے نجی شعبے میں سب سے زیادہ نئی نوکریاں پیدا ہوں گی اور یہ شعبہ مجموعی ملکی پیداوار یا جی ڈی پی کا 10 فیصد بن جائے گا۔ سعودی عرب میں اس وقت دو کروڑ 10 لاکھ افراد کی عمر 35 سال سے کم ہے اور یہ کل آبادی کا دو تہائی حصہ ہے۔
یہ بظاہر دنیا میں تیل کے بعد کے دور کی تیاری ہے جب آئندہ دہائیوں میں خام تیل پر انحصار کم ہوتا جائے گا۔ سعودی عرب نے اسی خاطر دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔
سال 2019 میں پہلی بار سعودی عرب نے سیاحتی ویزوں کا اجرا شروع کیا جسے تاریخی اعتبار سے روکا گیا تھا، سوائے ان لاکھوں مسلمانوں کے جو حج و عمرے کے لیے ہر سال مقدس شہروں مکہ اور مدینہ آتے ہیں اور مذہبی فریضہ ادا کرتے ہیں۔
سعودی عرب نے سیاحت پر داؤ لگایا ہے اور سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے
سیاحت کی طرف قدم بڑھانے کے لیے سعودی عرب کو کئی رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ جنوب مشرقی ایشیا کو سیاحت کے اچھے مقامات میں تبدیل کرنا کوئی سستا کام نہیں اور یہاں سال کے آٹھ ماہ شدید گرمی ہوتی ہے۔ ملک میں سیاست اور اظہار رائے کی آزادی نہیں۔ سڑکوں اور گلیوں میں مرد و خواتین کم ہی ایک ساتھ دکھائے دیتے ہیں اور شراب پر پابندی ہے۔
اس کے علاوہ سعودی حکام پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور خواتین کارکنان پر ظلم کے الزامات ہیں۔ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
مگر بات صرف سیاحت تک محدود نہیں
واشنگٹن میں مشرق وسطیٰ کے تھنک ٹینک اکنامکس اینڈ انرجی پروگرام کی ڈائریکٹر اور سینیئر محقق کیرن ینگ نے بی بی سی منڈو کو بتایا ہے کہ تمام موجودہ رکاوٹوں کے باوجود ماضی کے مقابلے سعودی معیشت کہیں زیادہ متنوع ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ قدم بقدم مقامی مارکیٹ میں ہوٹل اور تفریح کی صنعت کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے نئے طرح کے کاروبار اور کھپت کے ذرائع پیدا ہو رہے ہیں۔ ’تیل کے علاوہ باقی معیشت میں ہائیڈروجن، مائننگ اور مالیاتی سہولیات جیسے شعبوں میں نئی سرمایہ کاری میں تیزی آئی ہے۔‘
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معاشی تنوع کوئی ایسی چیز نہیں جو ایک یا دو دہائیوں میں پوری طرح حاصل کی جاسکے۔ وہ بتاتی ہیں کہ تیل اور اس کی مصنوعات آئندہ طویل عرصے تک حکومت کی آمدن میں اہم کردار ادا کرتی رہیں گی۔
تیل پر کم انحصار کا خواب کب پورا ہوگا؟
کئی لوگوں کے ذہنوں میں یہی سوال ہے کہ سعودی عرب مستقبل میں کتنے عرصے بعد تیل پر انحصار کم کر سکے گا؟
بحرین اکنامکس سوسائٹی کے صدر عمر العبیدلی کہتے ہیں کہ ذرائع آمدن کی منتقلی کے عمل میں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ مستقبل میں سعودی عرب میں وہی اعلیٰ معیار برقرار رکھے جاسکیں جو ابھی موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومتی منصوبے کا دار و مدار بڑے پیمانے پر نئے شعبوں میں سرکایہ کاری پر ہوگا جیسے پائیدار توانائی اور ہائیڈروجن کے پراجیکٹ۔ اس کے علاوہ مذہبی اور مقامی سیاحت سے بھی ملکی آمدن میں اضافے کی کوشش کی جائے گی۔
عمر العبیدلی کا خیال ہے کہ کامیابی کا انحصار مقامی جدت پر ہوگا اور اس عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج ملنے میں کچھ برس لگ سکتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اس عمل میں کم از کم 15 سال یا اس سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔ ’آئندہ کچھ برسوں میں بڑی تبدیلی کی امید کرنا قبل از وقت ہوگا اور کووڈ 19 کی عالمی وبا سے اس میں رکاوٹیں بھی آئی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے اس میں اچھی پیشرفت کی ہے۔ مثلاً کئی سعودی شہریوں کو ریٹیل اور سیاحت جیسے شعبوں سے روزگار مل رہا ہے۔
دوسری طرف ان کے مطابق آمدن کے لیے برآمدات کے ذرائع میں تنوع لانا اور معدنیات کی پیداوار کو فروغ دینا بھی اہم ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے
ان کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے ماضی کے مقابلے آمدن کا تیل پر انحصار کم کرنا مقصود ہے۔
آگے بڑھنے کے لیے سعودی حکومت سیاحت کے لیے لگژری ریزارٹس، سینما گھروں اور تفریحی مقامات میں سرمایہ کاری کر رہی ہے جس سے نئی صنعت بنانے کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکے گا۔
طرز تعمیر کا شاہکار صحرا بنانے کا منصوبہ
سعودی عرب ان ممالک میں سے ہے جن کے پاس دنیا بھر میں سب سے زیادہ مالی وسائل ہیں۔ اس کا شمار ناروے، متحدہ عرب امارات، چین، کویت اور سنگاپور جیسے ملکوں میں ہوتا ہے۔
سنہ 2016 میں سعودی فنڈ نے غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھا دی تھی جس میں ہر طرح کے اثاثے خریدے گئے، جیسے فٹبال کلب، ویڈیو گیمز اور الیکٹرک گاڑیوں کی کمپنیاں۔ روایتی طور پر سعودی عرب نے پہلے ایسا کبھی نہیں کیا تھا۔
اسی فنڈ کے وسائل استعمال کرتے ہوئے ملک نے صحراؤں میں شہر بسانے کی مالی معاونت شروع کر دی ہے۔ اس کا مقصد بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا اور دنیا بھر میں سعودی عرب کا اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔
ایک اشتہار میں ایسا بھی کہا گیا کہ صحرا کسی تفریحی پارک کا منظر پیش کرے گا
اب تک ان منصوبوں کی مالی معاونت تیل کے ذخائر کی مدد سے ہی کی جا رہی ہے۔ ماہرین کے خیال میں یہ حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ تیل کے علاوہ دوسری صنعتیں کب خود کفیل ہوسکیں گی۔
سعودی حکام نے کاروباری سرگرمیاں بڑھانے میں اس قدر تیزی اس لیے کی ہے کہ اس کی اکثر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور انھیں نوکریاں یا کاروبار کے مواقع دینا ضروری ہے تاکہ ملک میں رہنے کو پُرتعیش بنایا جاسکے۔
اس دلیل کی مدد سے یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ اس منصوبے کی تشہیر کے لیے اشتہارات کی ایسی مہم چلائی جا رہی ہے جس میں مستقبل کے ممکنہ شہر دکھائے جاتے ہیں جہاں صحرا کے بیچ و بیچ کوئی کار نہیں بلکہ ٹرین پر سفر کیا جاتا ہے۔
نیوم ایک ایسے بڑے منصوبے کا نام ہے جس کا دعویٰ ہے کہ یہ ’آنے والے کل کا ماڈل ہے جس میں انسانیت ترقی پائے گی اور زمین کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘
یہ تیل کی آمدن سے بننے والے ماحول دوست اور مثالی ملک کا خواب ہے مگر اس میں کتنی کامیابی ملے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
Comments are closed.