سعودی عرب میں فارمولہ ون ریس کے انعقاد پر بحث کیوں؟
فارمولہ ون کے نئے سیزن میں دو مقابلے ہو چکے ہیں اور دونوں میں چارلس لیکلیک اور میکس برسٹاپن کے درمیان زبردست مقابلہ ہوا ہے۔
جدہ کے اس خطرناک ٹریک پر ورسٹاپن نے کامیابی حاصل کی جبکہ سیزن کی پہلی ریس لیکلیک جیتے تھے۔
لیکن مقابلے سے پہلے اور اب بعد میں بھی یہ سوال ہو رہا ہے کہ آیا سعودی عرب میں فارمولہ ون ریس منعقد کی جانی چاہیے؟
اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ جمعے کو جب ٹیمیں پریکٹس کر رہی تھیں تو قریب ہی ایک آئل فیکٹری پر میزائل حملہ ہوا تھا اور اس شام ایک موقع پر ڈرائیور متفقہ طور پر یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ ریس میں حصہ نہیں لیں گے۔
انھیں پہلے ہی سے جدہ کے ٹریک سے متعلق خدشات تھے، پھر انسانی حقوق سے متعلق شدید تحفظات بھی جن میں سعودی عرب گہرا رہتا ہے، اور اس پر ہوا یہ کہ ان کے وہاں ہوتے ہوئے میزائل حملہ ہوگیا اور وہ اپنی سکیورٹی کے بارے میں بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے۔
سینیئر حکام کے ساتھ چار گھنٹوں کی ملاقات کے بعد ڈرائیوروں کو اس بات پر راضی کیا گیا کہ وہ ریس میں حصہ نہ لینے کے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایلفا رومیو کے ڈرائیور ولٹاری بوٹاس کا کہنا تھا کہ ایک سوال یہ بھی تھا کہ ’اگر ہم ریس میں حصہ نہیں لیتے تو کیا ہوگا؟‘
بعض اطلاعات کے مطابق ڈرائیوروں کو ریس میں حصہ نہ لینے کی صورت میں ’نتائج‘ سے متعلق وارننگز بھی موصول ہوئیں۔
ایف ون اور انتظامی ادارے ایف آئی اے کا اصرار ہے کہ کسی بھی میٹنگ میں ممکنہ نتائج سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی۔
ویک اینڈ کے دوران زیادہ تر سوچ یہی رہی کہ ریس ہونی چاہیے کیوں کہ ٹیموں اور ڈرائیوروں کو سعودی حکام نے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی۔ لیکن ڈرائیور پھر بھی مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوئے۔
دوسری جانب ایک سوال تھا کہ آیا سعودی عرب میں ریس منعقد کی جانی چاہیے، جس کا جواب یہی ملتا تھا کہ اس بارے میں بعد میں بات کریں گے۔
ورسٹاپن نے ریس جیتنے کے بعد کہا کہ ’ہمیں بھی تمام گارنٹیاں دی گئی تھیں کہ ہم محفوظ ہوں گے۔ لیکن میرے خیال میں اس ویک اینڈ کے بعد ہم سب ڈرائیور مل کر مستقبل کے بارے میں ایف ون اور ٹیم باسز سے بات کریں گے۔‘
مرسیڈیز کے ایف ون باس ٹوٹو وولف کا کہنا تھا ’ہم نے کسی کو مجبور نہیں کیا۔ اچھی بات چیت ہوئی جس میں ٹیم حکام نے ڈرائیوروں سے بات کی اور اس میں کوئی دباؤ نہیں تھا۔ لیکن شاید اس کا غلط مطلب لیا گیا۔‘
انھوں نے مزید کہا ’آخر میں شو اور نظارہ شاندار تھا اور ایک زبردست کھیل پیش کیا گیا۔ کسی بھی کھیل میں یہی ہونا چاہیے۔ میں یہاں پانچ برس سے آ رہا ہوں، میں نے (معاشرتی) تبدیلی دیکھی ہے۔ لیکن بہت کچھ ہونا باقی ہے۔‘
سعودی عرب میں اس ریس کے انعقاد سے متعلق ایک توجیہ جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ امید ہے کہ اس ایونٹ کے وہاں منعقد ہونے سے ملک میں تبدیلی لائی جا سکے گی۔ لیکن یقیناً اس توجیہ کو ہر کوئی تسلیم نہیں کرتا اور ہملٹن نے تو جمعے کو کطلے عام یہ سوال کیا کہ آیا یہ تبدیلی جلدی کیوں نہیں آسکتی۔
ایف ون کے چیئرمین سٹیفانو ہی نہیں بلکہ ان کے باسز گریگ میفی اور جان ملون کو اب سنجیدگی سے اس بارے میں سوچنا ہوگا۔
سعودی عرب ایف ون کو بہت بڑی رقم ادا کرتا ہے۔ لیکن ویک اینڈ پر جو کچھ ہوا اسے مدنظر رکھتے ہوئے اس رقم کے ساتھ جڑی ’شہرت‘ کے تناظر میں لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا سب سے اونچی بولی لگانے والے کو یہ کھیل بیچنے کے ساتھ ساتھ کیا ادارہ We Race As One کے نعرے تلے اپنے تنوع سے متعلق مہم جاری رکھ سکتا ہے۔
یا پھر جیسا کہ ایک سینیئر عہدے دار نے بی بی سی سپورٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا انھیں ’منافعے اور اداراہ جاتی ذمہ داری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا؟‘
Comments are closed.