لیکن 73 سالہ خاتون ڈوروتھی کویو کے بیٹے کی سزائے موت پر حکم امتناع محض عارضی ہے۔ ڈوروتھی نے بی بی سی کو بتایا کہ کینیا کی وزارت خارجہ کی جانب سے انھیں ابھی تک اپنے بیٹے کے معاملے کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اس ماں کی بےقراری کچھ خاص کم نہیں ہوئی ہے اور وہ اب بھی ’دیعت ‘ یا خون بہا کی رقم جمع کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یاد رہے کہ اسلامی قوانین میں خون بہا یا دیعت کی ادائیگی متاثرہ خاندان (مقتول کے اہلخانہ) سے معافی حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔چونکہ سعودی عرب ایک اسلامی ریاست ہے چنانچہ فوجداری اور دیوانی مقدمات کے لیے اس کا عدالتی نظام شریعت کی تشریح پر مبنی ہے۔ڈورتھی کویو کینیا میں ایک صحافی ہیں اور انھیں دیعت کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی رقم درکار ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں عوام سے رقم دینے کی اپیل بھی کی تھی تاہم اب تک وہ مطلوبہ رقم کا 5 فیصد سے بھی کم جمع کر پائی ہیں۔73 سالہ ماں کے مطابق سعودی عرب میں رہتے ہوئے ان کے بیٹے کا اپنے ساتھی سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مقتول نے پہلے اُن کے بیٹے پر چاقو سے حملہ کیا اور اپنا دفاع کرتے ہوئے ان کے بیٹے کے ہاتھوں حملہ آور یمنی شہری کی موت ہو گئی۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ابتدائی طور پر میرے بیٹے کو قتل کا مجرم پایا گیا اور اسے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ہمیں توقع تھی کہ وہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ڈھائی سال میں اپنی سزا مکمل کر کے رہا ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ 2014 میں مقتول کے اہلخانہ کی جانب سے کم سزا کے خلاف ایک اپیل دائر کی گئی جس پر سماعت کے بعد قید کی سزا کو موت کی سزا میں تبدیل کر دیا گیا۔‘،تصویر کا ذریعہDorothy Kweyu
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.