سعودی عرب اور شام کے تعلقات میں بہتری: کس کو فائدہ اور کس کو نقصان؟
سعودی عرب اور شام کے درمیان مذاکرات کی خبر شام کے سرکاری میڈیا پر بہت نمایاں طور پر نشر ہوئی تھی۔
- مصنف, بی بی سی
- عہدہ, مانیٹرنگ
حال ہی میں شام اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے جن میں سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری کے لیے مذاکرات کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے جس کی بعض عرب حلقوں میں تعریف کی گئی ہے جبکہ کچھ میں اس پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔
سنہ 2010 میں تیونس میں مہنگائی کے خلاف ایک شخص کی خود سوزی کے بعد عوامی مظاہروں کی ایک تحریک کا آغاز ہوا تھا جس نے جلد ہی عالمِ عرب کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مظاہروں کے اس سلسلے کو میڈیا نے ’الربيع العربي‘ (عرب سپرنگ) کا نام دیا تھا۔ اُس وقت امید تھی کہ ان کے نتیجے میں عرب ممالک میں اصلاحات آئیں گی۔
تاہم جب ان مظاہروں کی لہر سنہ 2011 میں شام اور لیبیا پہنچی تو یہ جلد ہی پر تشدد ہو گئے اور انھوں نے ایک خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی۔ لیبیا آج تک غیر مستحکم ہے جبکہ شام میں صدر اسد کی حکومت کا تو خاتمہ نہ ہوا، لیکن پانچ اور چھ لاکھ کے قریب لوگ ہلاک ہوئے اور ایک کروڑ تیس لاکھ شامی بے گھر ہوئے۔
اس جنگ کے دوران شام کی عرب لیگ کی رکنیت معطل کر دی گئی تھی اور کئی عرب ممالک نے شام سے اپنے سفارتی تعلقات بھی ختم کردیے تھے۔ عرب ممالک کی شام مخالف پالیسیوں کو مغربی ممالک نے سراہا تھا۔ شام کی اسد مخالف تنظیموں نے بھی عرب ممالک کی تعریف کی تھی۔
تاہم حال ہی میں عالمِ عرب میں شام کی مخالفت کا زور دم توڑ رہا ہے۔ کئی عرب ممالک نے شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کردیا ہے یا وہ اس سلسلے میں شامی حکام سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ عالم عرب کی سب سے نمایاں طاقت، سعودی عرب نے بھی دو روز قبل شام کے حکام کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے جدہ میں مذاکرات کیے ہیں۔
طائرانہ نظر
شام کے وزیر خارجہ کے 12 اپریل کو سعودی عرب کے اہم دورے کے نتائج پر ملے جلے ردعمل سامنے آئے ہیں۔
شامی اپوزیشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں شامی صدر بشار الاسد مضبوط ہوں گے تاہم ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔
اپوزیشن کی ایک تنظیم نے کہا کہ اس دورے سے زیادہ تر ریاض کو فائدہ پہنچے گا جبکہ شامی سرکاری میڈیا نے اس دورے کو معیشت کے لیے اچھی پیش رفت کہا۔
مخالفت سے دوستی میں تبدیلی
12 اپریل کو بحیرہ احمر کے بندرگاہی شہر جدہ میں شام اور سعودی وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی تاریخی ملاقات کے نتائج پر شامی میڈیا اور شخصیات نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’سانا‘ کی رپورٹ کے مطابق شام کے وزیر خارجہ فيصل المقدادکے دورہ مملکت کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان قونصلر خدمات اور پروازوں کی بحالی کا خیرمقدم کیا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ مقداد اور ان کے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان نے شام کے بحران کے ایک جامع سیاسی حل تک پہنچنے اور دمشق کے اپنے عرب ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے انسانی امداد کی شام کے تمام حصوں تک پہنچنے اور شامی پناہ گزینوں کی ان کے وطن واپسی کو یقینی بنانے کی کوششوں کی اہمیت پر بھی اتفاق بھی کیا اور دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔
جدہ میں ہونے والے مذاکرات سے شامی حکمران خوش ہیں لیکن حزب اختلاف کے حلقے ناراض ہیں۔
کسی ہرجانے کے بغیر پالیسی میں تبدیلی
شامی مذاکراتی کمیشن کے اپوزیشن گروپ کے صدر بدر جاموس نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ عرب ممالک کی جانب سے دمشق کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اقدام شامی عوام کے مفادات کے خلاف ہے اور اس سے استحکام نہیں آئے گا۔
انہوں نے ان ممالک پر زور دیا کہ وہ اسد حکومت پر ’زیادہ دباؤ‘ ڈالیں اور ’شام کے تحفظ کے لیے حقیقی قومی مشاورت‘ کے قیام پر کام کریں۔
شامی صحافی قطیبہ یاسین نے ٹویٹر پر اپنے ایک لاکھ اناسی ہزار سے زیادہ فالوورز کو بتایا کہ یہ بیان ’معمول پر لانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ سعودی عرب اب بشار الاسد کا اتحادی ہے اور وہ شام پر بشار الاسد کے کنٹرول کو بڑھانے کے لیے ان کے خاندان کی حمایت کرے گا۔‘
اپنے 60 لاکھ سے زیادہ فالوورز کے لیے ایک ٹویٹ میں، الجزیرہ کے شامی پریزینٹر، فیصل القاسم نے اپنے ہم وطنوں سے کہا کہ وہ اس طرح کے معمول پر آنے والے بات چیت سے زیادہ امید نہ رکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تنازعہ کو حل کرنے کے لیے ’(شامی) حکومت کسی ایک شرط کے لیے بھی راضی نہیں ہو گی‘۔
سعودی عرب کے لیے ’سٹریٹجک فوائد‘
شام کی حزب اختلاف کی معروف ویب سائٹ ’عنب بلدی‘ (Enab Baladi) نے لکھا ہے کہ سعودی اقدام کا اصل مقصد اسد حکومت سے تعلقات کی بحالی سے کہیں زیادہ سعودی عرب کی ایک نئی ’علاقائی حکمت عملی‘ کے تحت خطے میں اپنے مسائل خود حل کرنے ایک کی کوشش سے۔
اس ویب سائیٹ کے مطابق، کہ اس حکمت عملی میں ریاض کا ترکی کے ساتھ میل جول اور علاقائی دشمن ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہونا بھی شامل ہے۔
تاہم ایک سیاسی محقق، عبداللہ الغنم القحطانی نے ’عنب بلدی‘ (Enab Baladi) کو بتایا کہ اسد کے ساتھ تعلقات بحال کرنے سے مملکت کو زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔
القحطانی نے کہا کہ ’یہ محض اس لیے ہے کہ اس کے پاس پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘
قحطانی کا یہ بھی حوالہ دیا گیا کہ سعودی حکمت عملی کے لیے خطے میں ’تعمیر، ترقی اور تشدد کو ترک کرنے‘ کے مقاصد کے حصول کے لیے اجتماعی کارروائی اور زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔
شام اور شعودی تعلقات میں بہتری کو شامی حکمران اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔
شام کے سرکاری میڈیا کی اُمید
اس کے برعکس شام کا سرکاری ٹی وی ’الإخبارية السورية‘ کا بہت خوشگوار ردعمل کا تھا۔
اس دورے کے بارے میں ایک مباحثے کے شو میں چینل نے اس دورے کو دمشق کے لیے ’فتح‘ اور اس کے ’استقامت اور اپنے اصولوں کے لیے عزم‘ کی کامیابی کے طور پر پیش کیا – جن میں سے ایک دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔
شامی کمیونسٹ پارٹی کے محمد الماغوط نے چینل کو بتایا کہ تعلقات کی بحالی سے شام کے لیے ’معاشی فوائد‘ پیدا ہوں گے، یعنی اس کی زرعی برآمدات کے لیے انتہائی ضروری منڈیوں کا کھلیں گی اور شامی کارکنوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی اصلاحات کی سعودی مہم میں علاقائی استحکام مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے برسوں کے تنازعات سے تباہ ہونے والے اقتصادی ڈھانچے کی تعمیر نو کی ضرورت ہوگی اور سعودی عرب اس سلسلے میں مدد کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تین ممالک – قطر، کویت اور مراکش – شام کی عرب لیگ میں واپسی کی راہ میں کھڑے ہیں، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دمشق کو ’واپسی کی جلدی نہیں‘ ہے۔
Comments are closed.