’سستی پڑھائی لیکن مشکل زبان‘: کیا جنوبی کوریا اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستانی طلبہ کا نیا ’پسندیدہ‘ ملک بن سکتا ہے؟
- مصنف, محمد صہیب
- عہدہ, بی بی سی اردو
- 2 گھنٹے قبل
پاکستان بھر میں اکثر یونیورسٹیوں میں اس وقت آخری سیمسٹرز چل رہے ہیں اور اکثر طلبہ کے ذہنوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانے کا خواب بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے۔عموماً پاکستانی طلبہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ، کینیڈا، چین، آسٹریلیا اور برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر ممالک کا رُخ کرنے کا سوچتے ہیں۔تاہم ان میں سے اکثر ممالک کی جانب سے حال ہی میں اپنی ویزا پالیسیوں میں تبدیلی کی گئی ہے۔کینیڈا، برطانیہ، فرانس، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے تارکین وطن کے لیے مختلف قسم کے ویزوں کے حصول کے لیے قوانین اور ضوابط کو سخت کر دیا ہے۔
ایسے میں پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے طلبہ اور اس حوالے سے کنسلٹنسی فراہم کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے تعلیم کے لیے متبادل ممالک کی آپشنز زیرِ غور ہیں۔ان آپشنز میں جنوبی کوریا کو مختلف کنسلٹنٹس کی جانب سے ایک ’سستا‘ ملک قرار دیا گیا ہے۔جنوبی کوریا کی وزارت تعلیم نے سنہ 2023 کے اواخر میں ایک حکمتِ عملی تیار کی تھی جس کا مقصد حکومت، مقامی تعلیمی اداروں اور کاروباری اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے ملک میں سنہ 2027 تک تین لاکھ طلبہ کو راغب کرنا تھا۔اس منصوبے کے ذریعے جنوبی کوریا کی حکومت بین الاقوامی طلبہ کے لیے زبان کی رکاوٹوں کو کم کرنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ مستقل رہائشی پرمٹ حاصل کرنے کا وقت بھی چھ سال سے کم کر کے تین سال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ جنوبی کوریا کی حکومت کی جانب سے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھمیٹکس (سٹیم) کے شعبوں میں پڑھائی کرنے والے طلبہ کو ملک میں جلد رہائش کے لیے پرمٹ فراہم کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔ اس وقت جنوبی کوریا میں ویتنام، چین، منگولیا اور ازبکستان سے سب سے زیادہ طلبہ موجود ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images
’زبان سیکھنا مشکل ہے لیکن تعلیم سستی ہے‘
انڈسٹریل مینجمنٹ اور انجینیئرنگ میں ماسٹرز کے لیے پاکستان سے جنوبی کوریا جانے والے ماجد مشتاق اب وہیں مقیم ہیں۔ وہ اب ایک یوٹیوبر بھی ہیں اور یہاں نوکری بھی کرتے ہیں۔انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جنوبی کوریا ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر ایک خطیر رقم خرچ کرتا ہے اس لیے یہاں یونیورسٹی پروفیسرز کے پاس سکالرشپس ہوتی ہیں جو وہ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے لیے جاری کرتے ہیں۔’یہ سکالرشپس عموماً ان پروفیسرز سے خود رابطہ کرنے، یونیورسٹیوں کی ویب سائٹس اور مخصوص فیس بک گروپس سے معلوم ہوتی ہیں۔‘انھوں نے بتایا کہ ’یہاں اکثر پاکستانی طلبہ سکالرشپس پر آتے ہیں۔ پروفیسر سکالرشپس کے علاوہ، گلوبل کوریا سکالرشپ اور ایچ ای سی کے ذریعے متعدد طلبہ یہاں آتے ہیں۔‘ ماجد کوریا گلوبل سکالرشپ پر یہاں آئے تھے۔ماجد کے مطابق یہاں پڑھائی کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ زبان کا ہے اور انھوں نے یہاں کورین زبان سیکھنے کے لیے ایک سال کی پڑھائی کی تھی۔ وہ کہتے ہیں زبان سیکھنے میں مشکل کے باعث اکثر طلبہ یہاں اپلائی کرنے سے کتراتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ کورین زبان مشکل ہے اور اس بولنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔ ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ آپ ایک مہینے میں سیکھ جائیں گے، لیکن تین، چار ماہ تک آپ کسی سے بنیادی بات چیت کر سکیں گے، اور اپنی بات سمجھا سکیں گے۔‘انھوں نے بتایا کہ ’یہاں انجینیئرنگ اور نیچرل سائنس سے متعلق پڑھائی کی زیادہ مانگ ہے۔ یہ ملک رہنے کے لحاظ سے ایک اچھا آپشن ہے، یہاں تحفظ اور سلامتی کے مسائل نہیں ہیں اور لوگ بھی اچھے ہیں۔ اگر آپ کو زبان آتی ہو تو مسئلہ نہیں ہوتا۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہاں یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے مقابلے میں تنخواہیں کم ہوتی ہیں لیکن ہر ملک کے اپنی اچھائیں اور برائیاں ہوتی ہیں۔ہم نے لاہور میں کوریا جانے کے لیے طلبہ کو کنسلٹنسی فراہم کرنے والی ایک کمپنی یو این آئی گائیڈ کے عاصم سے بات کی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ صرف ایسے طلبہ کو ڈیل کرتے ہیں جو اپنے خرچے پر بیرونِ ملک جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ’جنوبی کوریا میں یونیورسٹیوں کی فیس دوسرے ممالک سے خاصی کم ہے جس کی وجہ سے طلبہ یہاں پڑھائی کے لیے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں بزنس سے متعلق شعبے کی پڑھائی مشہور ہے اور اس کے علاوہ انجینیئرنگ کے شعبے میں بھی لوگ جاتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا جنوبی کوریا میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کینیڈا، آسٹریلیا سے کم لاگت آتی ہے؟
جنوبی کوریا میں پی ایچ ڈی کی طالبہ شہنیلہ رحیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پروفیسرز سکالرشپ پر کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کے لیے 2021 میں جنوبی کوریا گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پی ایچ ڈی میں داخلے کے بعد آپ ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے جس سے آپ روزمرہ کے خرچ پورے کر سکتے ہیں۔’ہر سیمسٹر کے آخر میں آپ کے گریڈز پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ کو سکالرشپ ملے گی یا نہیں یعنی آپ کی فیس معاف ہو گی یا نہیں۔ عام طور ہر ہمارے گریڈز اچھے آتے ہیں اس لیے ہماری فیس معاف ہو جاتی ہے، ورنہ ہمیں یہ اپنی تنخواہ میں سے ادا کرنی پڑتی ہے۔‘انھوں نے ایک اہم پہلو کی جانب توجہ دلواتے ہوئے کہا کہ ’جنوبی کوریا میں گذشتہ کچھ عرصے سے تحقیق سے متعلق فنڈز کی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے اور پروفیسرز کی جانب سے تحقیق سے متعلق فنڈز کی کمی کی شکایت کی جا رہی ہے اور ریسرچ پروپوزل منظور نہیں ہو رہے۔‘انھوں نے زبان کی مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں اگر آپ انگریزی میں بات کریں تو لوگوں کے تاثرات ایسے ہوتے ہیں کہ انھوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ اس لیے اگر آپ کو زبان آتی ہو تو یہاں آپ کا سماجی دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔‘ جنوبی کوریا میں چار سو سے زیادہ سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں ہیں۔ کچھ یونیورسٹیوں میں سائنس کے نئے شعبوں کے لیے جدید ترین تحقیقی سہولیات موجود ہیں۔ عام طور پر سرکاری یونیورسٹی کی فیس پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ سے کم ہوتی ہیں۔یونیورسٹی کے بین الاقوامی طلبہ کے لیے 30 فیصد لیکچرز انگریزی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں۔ گریجویٹ ڈگری کورسز میں زیادہ تر لیکچرز انگریزی میں ہوتے ہیں۔ کچھ یونیورسٹیاں ایسی بھی ہیں جہاں 100 فیصد کورسز انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں۔ایسے میں طلبہ کے پاس یہ آپشن بھی ہوتا ہے کہ وہ آغاز میں کوریئن زبان کے کورس میں داخلہ لے کر زبان سیکھ لیں۔اس کے علاوہ جنوبی کوریا کی حکومت کئی سکالرشپ پروگرام بھی چلا رہی ہے جیسے کہ گلوبل کوریا سکالرشپ پروگرام، کورین گورنمنٹ سپورٹ پروگرام فار فارن ایکسچینج سٹوڈنٹس، سپورٹ پروگرام فار سیلف فنانس سٹوڈنٹس، جی کے ایس انویٹیشن پروگرام فار پارٹنر کنٹریز اور جی کے ایس پروگرام۔ آسیان (آسیان) ممالک سائنس اور انجینئرنگ کے طلبہ، اس کے علاوہ بہت سی یونیورسٹیاں اپنے سکالرشپ پروگرام بھی چلاتی ہیں، جو اچھے نمبر والے طلبہ کے لیے 30 فیصد سے 100 فیصد فیس معافی کی پیشکش کرتی ہیں۔جنوبی کوریا کی حکومت کے زیر انتظام سٹڈی ان کوریا ویب سائٹ کے مطابق، جنوبی کوریا میں ماسٹرز کورس کے لیے ایک سمیسٹر کی فیس ساڑھے چار ہزار ڈالر سے لے کر چھ ہزار ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے ایک سمسٹر کی فیس تقریباً 5,250 ڈالر سے 6,760 ڈالر ہے۔کوریا میں ایک بین الاقوامی طالب علم کے ماہانہ اخراجات تقریباً 560 ڈالر سے 750 ڈالر تک ہوتے ہیں، بشمول ان کے رہنے، کھانے، اور آمدورفت کے اخراجات۔جنوبی کوریا کاروبار، انجینیئرنگ اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں بہترین تعلیمی نظام رکھنے کے لیے مشہور ہے۔جنوبی کوریا میں بین الاقوامی تعلیمی کامیابیوں کے ساتھ متعدد یونیورسٹیاں ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی تحقیق کے حوالے سے بھی بین الاقوامی سطح پر شہرت رکھتا ہے، خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی، الیکٹرانکس اور آٹومیشن کے شعبوں میں۔
- آسٹریلیا کی نئی 10 سالہ امیگریشن پالیسی کیا ہے اور آسٹریلیا جانے کے خواہاں پاکستانیوں کے لیے اس میں خاص کیا ہے؟14 دسمبر 2023
- آسٹریلیا میں ایسا خاص کیا ہے جو انڈیا کے تارکین وطن کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے؟19 جون 2023
- کینیڈا کے تین شہر رہائش کے لیے دنیا کے 10 بہترین شہروں میں شامل: لوگ یہاں رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟3 اکتوبر 2023
جنوبی کوریا کا سٹوڈنٹ ویزا حاصل کرنے کے لیے کیا تقاضے ہیں؟
بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے امیگریشن کے وکیل اور اجمیرا لا گروپ کے بانی پرشانت اجمیرا نے کہا کہ ’جنوبی کوریا کی کسی یونیورسٹی سے داخلہ کا خط موصول ہونے کے بعد بین الاقوامی طلبہ اس ملک میں کوریا کے سفارت خانے یا قونصل خانے جا کر سٹوڈنٹ ویزا کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔’اس کے علاوہ وہ آن لائن ویزا کے لیے بھی درخواست دے سکتے ہیں۔‘انھوں نے بتایا کہ ’بین الاقوامی طلبہ جو جنوبی کوریا میں باقاعدہ ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہیں انھیں ڈی 2 ویزا کے لیے درخواست دینی ہوگی۔ اور اگر آپ تربیتی پروگرام کے لیے جانا چاہتے ہیں، تو آپ کو ڈی 4 ویزا کے لیے درخواست دینا ہو گی۔’جنوبی کوریا میں 90 دن یا اس سے کم کے لیے سنگل انٹری ویزا کے لیے درخواست کی فیس 40 ڈالر ہے جبکہ 90 دن یا اس سے زیادہ اور ایک سے زیادہ انٹری ویزوں کے لیے 90 ویزے کی درخواست کی فیس 90 ڈالر ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جنوبی کوریا میں سٹوڈنٹ ویزا کے لیے درخواست دینے کے لیے کالج یا یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ داخلہ سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’اس کے علاوہ آخری سکول سے پاسنگ سرٹیفکیٹ اور بینک سٹیٹمنٹ درکار ہوتی ہے۔ اگر بطور ریسرچ سکالر ویزا کے لیے درخواست دے رہے ہیں تو اس کی تحقیق کو ثابت کرنے والی دستاویزات بھی دکھانی ہوں گی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.