نائجیریا: مسلم اکثریتی ریاست کانو میں سر والے مجسمے غیر اسلامی قرار دینے کی مہم
نائجیریا کی ایک مسلم اکثریتی ریاست کانو میں اسلامی پولیس فورس کی جانب سے دکانوں میں کپڑوں کی نمائش کے لیے استعمال ہونے والے مجسموں کو سر کے بغیر استعمال کرنے کے حکم پر لوگ حیران و پریشان ہو گئے ہیں۔
شریعہ پولیس کے کمانڈر ہارونہ ابن سینا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسلام میں بت پرستی کو بُری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اُن (مجسموں) پر سر لگا ہو تو وہ بالکل انسان کی طرح لگتے ہیں۔’
ہارونہ ابن سینا یہ بھی چاہتے ہیں کہ سر کے بغیر مجسمے مستقل طور پر ڈھکے رہیں کیونکہ پوشاکوں کے بغیر ’چھاتی اور کولہوں کے ڈیل ڈول‘ ظاہر ہو جاتے ہیں جو شریعت کی تعلیمات (اسلامی قوانین) کے خلاف ہے۔
کانو مسلم اکثریتی شمال کی 12 ریاستوں میں سے ایک ہے جو اسلامی قوانین پر عمل کرتی ہے۔ اسلامی قانونی نظام کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے۔
لیکن حقیقت میں غیر مسلم شہریوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ بھی ان کے احکامات پر عمل کریں جس میں مکمل دھڑ والے مجسموں پر سر تا پا لباس کی پابندی بھی شامل ہے۔
نائجیریا کے دوسرے سب سے بڑے شہر کانو سٹی میں ریڈیو ٹاک شو کے میزبان موسیٰ اجیبو نے کہا کہ ’ہمیں ان لوگوں کی طرف سے بہت سی فون کالز اور پیغامات موصول ہوئے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے نئے احکامات سے متفق نہیں ہیں۔‘
ریاست کانو کے ایک عیسائی اکثریتی علاقے سبون گاری کے تاجروں نے بھی ان احکامات پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
ایک دکان کے مالک چائنڈو انیا نے کہا کہ ’بغیر سر والے مجسموں پر کپڑوں کی نمائش کرنے سے راہگیروں کی توجہ ان کی طرف کم ہو جائے گی اور اس سے کاروبار پر اثر پڑے گا۔’
کمانڈر ہارونہ ابن سینا (سبز لباس میں) اپنے افسران کے ساتھ
موہاک ہیئر سٹائل پر سر منڈوا دیا گیا
ہارونہ ابن سینا اور ان کے افسران کی تعداد ہزاروں میں ہے اور یہ مرد اور عورتوں دونوں پر مشتمل ہیں۔ انھوں نے ابھی تک پابندی کے نفاذ کے لیے ہر ہر دکان کا دورہ نہیں کیا۔
بہرحال خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس سے حسباہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کی فہرست میں اضافہ ہوتا ہے جو سیکولرازم اور جدیدیت سے متصادم ہے۔
گذشتہ ہفتے ہارونہ ابن سینا نے نائیجیریا کے صدر محمدو بوہاری کے بیٹے یوسف کی منگیتر زہرہ بیرو کی شادی سے پہلے ایک دعوت کی تصاویر پر تنقید کی۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ دوسرے مسلمانوں کے لیے اچھی مثال قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں کیونکہ تصاویر میں ان کے کندھے نظر آ رہے تھے۔’
انھوں نے یہ تصاویر شیئر کرنے والوں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا کرنا گناہ ہے۔’
گذشتہ سال ہارونہ ابن سینا کے افسران نے کانو شہر کے فٹ پاتھوں پر نوجوانوں کے موہاک ہیئر سٹائل منڈوائے اور انھوں نے چند لڑکوں کو کولہوں سے ڈھلکتی پتلون پہننے پر بھی سزا دی۔
ہارونہ ابن سینا نے رعایتی سیلز کی تشہیر کے لیے بلیک فرائیڈے کی اصطلاح کے استعمال پر بھی پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام میں جمعہ ایک مقدس دن ہے۔’
یہ بھی پڑھیے
ریڈیو سٹیشنز اور شاپنگ مالز نے اُن کی اس بات کو بڑی حد تک نظر انداز کیا مگر اس پر اُنھیں کسی قسم کی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
شہریوں کو جنوبی افریقہ کے ایک رقص کرنے کے خلاف بھی متنبہ کیا گیا تھا جس میں رقص کرنے والے ڈرامائی انداز سے زمین پر گر جاتے ہیں۔ یہ رقص گذشتہ سال سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔
حسبہ فورس
اگرچہ کانو میں بہت سے مسلمان حسباہ کے احکامات کے حق میں ہیں مگر مٹھی بھر نوجوان مسلمانوں کا خیال ہے کہ اُن کی اسلام کی کچھ تعلیمات کی تشریح مثلا مجسموں پر پابندی غلط ہے۔
اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک مسلمان عالم نے کہا کہ ’اسلام بت پرستی سے منع کرتا ہے لیکن حدیث (پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات) سے واضح ہے کہ اللہ آپ کی نیتوں کا فیصلہ کرتا ہے، سوائے اس کے کہ آپ کسی مجسمے کے سامنے جھکیں ورنہ اسے گناہ کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔’
لیکن بہت سے سینیئر مسلم علما جیسے اسلامی کونسل آف نائیجیریا کے ہلیرو مارایہ کہتے ہیں کہ ’مجسموں پر حسباہ کا نقطہ نظر درست ہے کیونکہ اسلام انسانی مجسموں کو تراشنے کے خلاف ہے، چاہے آپ اسے جس بھی نام سے پکاریں۔‘
اگرچہ کانو میں کیا جانے والا اعلان نائجیریا میں پہلی ایسی پابندی ہے مگر دوسرے کچھ مسلمان ممالک میں مجسموں کے استعمال کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سنہ 2009 میں ایرانی پولیس نے دکانداروں کو خبردار کیا تھا کہ وہ جسم کی ہیئت کو ظاہر کرنے والے اور حجاب کے بغیر خواتین کے مجسموں کی نمائش نہ کریں۔
قدامت پسند مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ سر کے بال ڈھکے ہونے چاہییں
سنہ 2010 میں فلسطینی اسلامی گروہ حماس نے غزہ کی پٹی میں کپڑوں کی دکانوں سے ایسی ماڈلز کی تصاویر جنھوں نے انڈرویئر پہنے ہوں اور بہت کم کپڑوں میں ملبوس خواتین کے مجسموں کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
اُس موقع پر حماس نے کہا تھا کہ یہ قواعد ‘عوامی اخلاقیات’ کی حفاظت کے لیے تھے۔
کانو میں رہنے والوں کے لیے یہ واضح نہیں ہے کہ اس حکم کو کس طرح نافذ کیا جائے گا کیونکہ ہارونہ ابن سینا نے ان مجسموں کو ضبط کرنے سے انکار کیا ہے جنھیں وہ ناپسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ’مختلف حکمت عملی‘ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مسلمان عالم ہلیرو مارایہ چاہتے ہیں کہ نائیجیریا کے آئین کے تحت غیر مسلم افراد کو تحفظ دیا جائے اور حسباہ کے مجسموں کے بارے میں فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا جائے تاکہ اُن کی کاروائیوں کی ایک حد مقرر ہو جس کے تحت وہ لوگوں کو اسلامی قانون کی پاسداری پر مجبور کرتے ہیں۔
لیکن حسباہ کی مخالفت کرنا زندگی، موت اور پیسے کا کھیل بن سکتا ہے۔
شراب پھینک دی گئی
کانو ریاست کی حکومت کی جانب سے 11 سال قبل شرعی قانون نافذ کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کی وجہ سے ہونے والے فسادات میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حال ہی میں حسباہ نے غیر مسلم افراد کے وہ ٹرک تباہ کیے جن میں شراب منتقل کی جا رہی تھی اور بارز پر چھاپہ مارا یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ان کے مالکان ‘بدعنوان کارروائیوں’ میں ملوث تھے۔
اسلام میں شراب کا استعمال حرام ہے۔
شراب اور دوسری نشہ آور اشیا کی اسلام میں ممانعت ہے اور انھیں عوامی طور پر ضبط کر کے تباہ کیا جاتا ہے
کانو کی حسباہ نائیجیریا کی دیگر مسلم اکثریتی ریاستوں کے اداروں سے مختلف نہیں ہے۔ لیکن ہارونہ ابن سینا کی شخصیت کی وجہ سے اس کو عوامی سطح پر زیادہ شہرت حاصل ہے۔
جو لوگ اُنھیں جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک شومین ہے جو توجہ کا مرکز رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ احکامات جاری کرنے کے لیے میڈیا کے ایک وفد کے ساتھ کانو شہر میں گھومتے ہیں۔
لیکن اُن کے نزدیک وہ صرف اپنا کام کر رہے ہیں۔
پچھلے سال کمانڈر ہارونہ ابن سینا نے اُس وقت ہلچل مچا دی جب اُنھوں نے کنگ فو کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ حسباہ افسروں کو لڑائی کی تربیت دلوا سکیں کیونکہ وہ مسلح نہیں ہوتے۔
مارشل آرٹس کی افادیت کو ظاہر کرنے کے لیے عوام کی تفریح کے لیے ایک وسیع شو کیا گیا تھا۔
جہاں تک سروں والے مجسموں کا تعلق ہے کانو میں ان کی موجودگی اب گنتی کے چند دنوں کے لیے ہی رہ گئی ہے۔ لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کیا ہارونہ ابن سینا جلد ہی توجہ کسی اور طرف مبذول کروائیں گے تاکہ یہ برقرار رہ سکیں۔
Comments are closed.